جمہوریت کی دیوی اور کرپشن کا دیوتا

پاکستان نے امریکہ کے زیر انتظام جمہوریت کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس معاملے پر مناسب وقت پر امریکہ سے انگیج ہو گا ۔یہ خبر نمایاں سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تو ایک ناقابل یقین بات لگتی تھی ۔اگرچہ اس کی وجہ چین اور روس ہی ہیں کیونکہ امریکہ نے روس اور چین کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی تھی۔اسی کے ساتھ مغربی دنیا اور چین کی باقاعدہ غیر گرم جنگ کا آغاز بھی ہو چکا ہے کیونکہ امریکہ کے بعد اب برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی چین میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے ۔اس بائیکاٹ سے روس اور امریکہ کی سرد جنگ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب 1980ء میں ہونے والے ماسکو اولمپکس کامغربی دنیا نے اور دیگربہت سے ممالک نے بائیکاٹ کیا تھا ‘جس کی وجہ سے ان مقابلوں میں صرف 80 ممالک نے شرکت کی تھی۔ روس کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اسی طرح روس اور اس کے اتحادی ممالک نے 1984ء میں امریکہ میں ہونے والے لاس اینجلس اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا ‘لیکن امریکہ کے اتحادی ممالک کی تعداد کا پلڑا چونکہ بھاری تھا اس لئے ان مقابلوں میں شریک ممالک کی تعداد 140تھی ۔سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت تاریخ کے پلڑے کا وزن بھارت کے حق میں اتنا زیادہ تھا کہ وہ ان دونوں مقابلوں میں شریک تھا ‘یعنی اُس وقت بھارت کی ڈپلومیسی کا طوطی بولتا تھا لیکن آج کی دنیا میں تاریخ کا عجب وار بھارت پر ہوا ہے کہ وہ چین امریکہ سرد جنگ میں امریکہ کا خواہ مخواہ کا اتحادی اور چین کا حریف بننے کے واہموں کا شکار ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اتنے تنازعے کسی بھی دوسرے ملک حتی کہ امریکہ کے بھی چین کے ساتھ نہیں ہیں جتنے بھارت کے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کی شدت اور حدت میں اضافہ ہو رہاہے ۔
چین امریکہ سرد جنگ میں بڑھتی ہوئی حدت یا سرد مہری کا اندازہ ایک اور پہلو سے بھی لگایا جا سکتا ہے اور یہ پہلو کافی دلچسپ اور دنیا کا فلسفہ بدلنے والا ہے ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ سیاست کی تاریخ ہو یا سیاسی نظاموں کی اس میں مغربی طرزِ جمہوریت کا ذکر ایک عقیدے کی طرح کیا جاتا ہے ۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس جمہوریت کو اپنے لئے ایک بڑا اعزاز سمجھتے ہیں ۔بات صرف جمہوریت کی نہیں اس کے ساتھ مغربی معاشی نظام‘کیپٹل ازم بھی جمہوریت کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ اب چین نے ترقی کے لیے اس مغربی طرز حکومت کی ناگزیریت کو بھی چیلنج کر دیا ہے ۔وجہ بہت سادہ لیکن اہم ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ نہ تو چین میں جمہوریت ہے اور نہ ہی کیپٹل ازم پھر بھی وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے اور اب چین کے نشریاتی ادارے امریکی جمہوریت کا بر ملا مذاق اڑا تے ہوئے اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔چین کے ایک بڑے نشریاتی ادارے سی جی ٹی این پر ایک لمبی ٹیلی کاسٹ میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح امریکہ میں غیر گورے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں سیاہ فام لوگوں کی ہلاکت کے واقعات کو نمایاں کیا گیا ۔اس کے علاوہ اسی سال ایشیا کے لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو دکھایا گیا ۔واضح رہے اس سلسلے امریکہ میں ''Stop Asian Hate‘‘کے عنوان سے ایک بہت بڑی مہم بھی چلائی گئی ہے اوران واقعات کو روکنے کے لیے صدر بائیڈن کو باقاعدہ قانون سازی بھی کرنا پڑی ۔اس کے بعد سب سے اہم اور خطرناک پہلو جس کو چین کا میڈیا نمایاں کر رہا ہے وہ امریکہ میں گزشتہ کئی سالوں سے تواتر سے جاری فائرنگ کے واقعات ہیں جن میں ہر سال ہزاروں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ان فائرنگ کے واقعات کو Mass Shootingکا نام دیا جاتا ہے ۔یہ واقعات امریکہ کے لیے ایک قومی المیہ ہیں کیونکہ ان واقعات میں امریکہ کے زیر تعلیم نوجوان بھی شریک ہیں ۔ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے انٹرویوز بھی پیش کئے جا رہے ہیں۔
اور اب ذکر ایک ایسے پہلو کا جو حقیقت میں امریکہ کے نظام پر بہت بڑے سوالیہ نشان لگارہا ہے۔ چین کا میڈیا جو حقائق پیش کر رہا ہے ان کے مطابق کووڈ کی وبا سے ہلاک ہونے والے لوگوں میں واضح طور پر بڑی تعدا د ان لوگوں کی ہے جو یا تو سیاہ فام ہیں یا دیگر ایشیائی ‘افریقی یا کسی اور علاقے کے لوگ ہیں ۔مطلب بہت واضح ہے کہ امریکہ میں ہلاک ہونے والوں میں گوری رنگت والے لوگوں کی تعدا دیگر کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے ۔بادی النظر میں اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ میں غیر گوروں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔اسی سلسلے میں سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ امریکہ کس قسم کی عالمی طاقت ہے جو ابھی تک اس وبا کے سامنے بے بس ہے ؟اس موقع پر امریکہ کے ڈیکلریشن آف انڈی پینڈنس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ الفاظ دہرائے جا رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ All men are Born Equal۔اب اس بات میں چین کا میڈیا امریکی جمہوریت کا تمسخر اڑانے میں حق بجانب ہے کی امریکہ میں امتیازی سلوک تاحال جاری ہے لیکن یہاں پر ایک بات چین کا میڈیا بھی نمایاں نہیں کر سکا کہ امریکہ کے اعلان ِآزادی میں صرف مردوں کا ذکر ہی کیوں کیا گیا‘ خواتین کو یکسر نظر انداز کیوں کر دیا گیا ؟
اب بات آزادی اور جمہوریت کے تناظر میں ایک ایسے پہلو کی جانب بڑھتی ہے جو بجا طور پر مغربی جمہوریت کو ایک بھیانک حد تک ناکام ثابت کرتا ہے اور یہ ہے معاشی جمہوریت ۔یہ تصور اگرچہ آپ کو عجیب اور نیا لگ رہا ہو گا تو تھوڑا غور کریں کہ اس وقت دنیا میں صرف ایک فیصد لوگ 83 فیصد وسائل پر قابض ہیں جس کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق زمین اور آسمان کے فرق پر بھی بھاری ہو جاتا ہے۔یہاں پر ذکر اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کا جس کے پیش کردہ فلسفے کا سب سے بنیادی نقطہ ہی یہ ہے کہ دنیا میں غربت کی اصل وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے نہ کہ وسائل کی عدم دستیابی۔یہاں پر ایک بات ذہن نشیں رکھیں کہ 1980ء کی دہائی میں دنیا میں دولت کی تقسیم کے حوالے سے ایک بات معاشیات میں کچھ اس طرح پڑھائی جاتی تھی کہ 20اور80 کی عدم مساوات ۔اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ دنیا کے 80فیصد وسائل پر 20 فیصد لوگ قابض ہیں مگر اب اس عدم مساوات میں ایک اور خلیج یہ آ گئی ہے کہ بیس فیصد لوگوں کی جگہ صرف ایک فیصد لوگ رہ گئے ہیں اور وسائل جن پر ایک فیصد لوگوں کا قبضہ ہے 80سے بڑھ کر 83 ہو چکے ہیں۔
اب بات واپس پاکستان کی طرف بڑھتی ہے جس نے پہلی دفعہ امریکی بلاک سے واضح طور پر دوری کا چنائو کرتے ہوئے اپنا جھکائو چین کی طرف کر لیا ہے ‘لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان یہ احساس کب کرے گا کہ اسے عالمی اداروں کے قرضوں کے طوق سے جان چھڑوانے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے ؟چین نے تو کرپشن کی سزا موت مقرر کرنے کے بعد کرپشن کو کم کیا تھا ‘جمہوریت کے راگ الاپنے کی بجائے سائنسی تعلیم کو ترجیح دی تھی اور اب دنیا کی تاریخ کو موڑنے کے در پر آن پہنچا ہے ۔پاکستان اگر کرپٹ مافیا سے سارا نہ سہی آدھا مال ہی واپس لے لے تو قرض اتارنے میں آسانی ہو سکتی ہے اور اگر کچھ نہ بھی ہو تو مزید کرپشن ہی کو روک لیا جائے ‘بصورت دیگر چین کی طرز کے ایک انقلاب کی صورتحال تو کب کی پیدا ہو چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں