ریپبلک آف چائنا اور جمہوریت

عالمی شہرت یافتہ ایک مصنف نے گزشتہ سال دعویٰ کیا تھا کہ آنے والے پانچ سالوں میں دنیا پچاس سالوں کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تبدیل ہو جائے گی۔ یہ بات اگرچہ عالمی تناظر میں کی گئی تھی مگر اس کا اطلاق بالخصوص بر اعظم ایشیا پر ہوتا واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی کی بہت زیادہ وجوہات نہیں ہیں بلکہ میرے نزدیک اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے ریپبلک آف چائنا۔ یہاں پر عظیم یورپی لیڈر نپولین بونا پارٹ کا ایک فقرہ اس کی عقل کا قائل ہونے پر مجبور کرتا نظر آتا ہے‘ اس نے کہا تھا:China is a sleeping Giant, Whenever it wakes it will Re-shape the world۔ یعنی چین ایک سویا ہوا دیو ہے‘ یہ جب بھی جاگے گا دنیا کو از سر نو ترتیب دے گا۔ اب تو یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتاہوا محسوس ہو رہا ہے۔ چین نے متعدد بیانات ہی نہیں دیے بلکہ عملی طور پر ایسے قدم بھی اٹھائے ہیں جن سے امریکہ کی واحد سپر پاور کی حیثیت کو نہ صرف چیلنج کیا ہے بلکہ اسے بالکل رد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اب چین معاشی طاقت کے طور پر بھی امریکہ سے آگے نکل چکا ہے۔ امریکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے Uni Polar دنیا میں اپنا جنگی آرڈر چلاتا رہا ہے۔ اس کے جارحانہ طرزِ حاکمیت کا سب سے زیادہ نشانہ مسلم ممالک بنے ہیں۔ اس کے بعد بحیثیت بر اعظم‘ ایشیا اس کا ٹارگٹ رہا ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے مشرق کو اپنے نشانے پر رکھا لیکن اب مشرق سے ہی ایک طاقت اٹھی ہے جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ مغرب کی خود ساختہ برتری کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس سلسلے میں عسکری و معاشی میدانوں میں کشمکش تو ایک طرف رہ گئی‘ اب تو چین نے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر جاری جنگی طرزِ عمل کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یہ سب سننے اور پڑھنے میں بہت عجیب لگتا ہے کیونکہ امریکہ اپنے ہمنوا ممالک کے ساتھ ساتھ اپنے ''پیدا و پرورش کردہ‘‘ تھنکرز اور لکھنے والوں کے ذریعے مغرب کے معاشی و جمہوری نظام کو ایک عقیدے کی طرح اس طرح سے ذہنوں میں اتارتا رہا ہے کہ اس کے علاوہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آنے دیا۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں آپ کو جنوبی ایشیا سے ہی مل جائیں گی۔ پاکستان میں اگر کرپشن کی بات کی جائے تو سیاسی اشرافیہ کو جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاست دان یہ بے تکا راگ بھی مسلسل الاپتے رہتے ہیں کہ اگر جمہوریت کی گاڑی بار بار پٹڑی سے نہ اترتی تو پاکستان کب کا ترقی کر چکا ہوتا۔ وہ اپنے شاہانہ طرز کے لیڈروں کی اَن گنت اور پوشیدہ کرپشن کو چھپانے کیلئے ڈکٹیٹرز اور دیگر کی کرپشن کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس ضمن میں اسی خطے سے دوسری مثال اس دلیل کو یکسر مسترد کرتی نظر آتی ہے اور یہ مثال ہے بھارت کی، جہاں کبھی بھی جمہوریت پٹڑی سے نہیں اتری مگر پھر بھی وہاں کے معاشی حالات نہیں بدلے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی‘ اس خطے میں آج بھی جمہوریت کی آڑ میں خاندانی آمریت مسلط نظر آتی ہے۔ اب واپس چین کے پیش کردہ پُر مغز اعتراضیہ نکات کی جانب آتے ہیں‘جس میں اس نے کہا کہ مغربی جمہوریت میں واضح ترین اکثریت کو ووٹ دینے کے حق کی آڑ میں چند افراد یا چند معاشی اداروں کی آمریت مسلط کر دی جاتی ہے، لوگوں کے ٹیکس سے حاصل کردہ وسائل کو عالمی جنگوں اور سازشوں میں جھونک دیا جاتا ہے‘ اپنے ہی ملک میں معاشی ناہمواری زمین اور آسمان کے فاصلے کی طرح بڑھا دی جاتی ہے۔
اب یہاں آپ معاشی آمریت کو سامنے رکھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں کیونکہ دنیا کے اسی فیصد سے زیادہ وسائل پر صرف ایک فیصد لوگ قابض ہیں۔ تھوڑا غورکریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سیاسی آمریت میں ایک بندہ بلا شرکت غیرے تمام احکام جاری کرتا ہے؛ تاہم یہ ممکن ہے کہ وہ سیاسی آمر اپنی رعایا کو معاشی استحکام فراہم کررہاہو۔ اس کی سب سے بڑی مثال مشرقِ وسطیٰ کے تقریباً سبھی ممالک ہیں جنہوں نے اپنے عوام کو تمام تر معاشی ضرورتوں سے ہی نہیں بلکہ سہولتوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ ایک عرب سے اس سلسلے میں مکالمہ ہوا تو اس نے جواب دیا کہ جمہوریت ہمیں کیا دے گی؟ روٹی، کپڑا، امن و امان اور انصاف؟ یہ سب تو ہمیں ہمارے بادشاہ بھی دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دلائل آمریت کا جواز نہیں ہو سکتے مگر جمہوریت کی دیوی کی آڑ میں ہونے والی لوٹ مار نما کرپشن کے جواب میں کیا کہا جائے گا؟ بات واپس لاتے ہیں چین کے طرزِ حکومت پر‘ جس کو مغرب آمریت کہتا ہے مگر چین والے اسے جمہوریت کہتے ہیں اور اس کا واضح ثبوت چین کا سرکاری نام ہے جس میں وہ اپنے آپ کو Republic یعنی جمہوریہ کہتے ہیں؛ عوامی جمہوریہ چین۔ اگرچہ ان کی جمہوریت میں ووٹ کا حق صرف ان کی واحد سیاسی پارٹی کے ممبروں کو ہوتا ہے۔
اگر چین کی واحد سرکاری جماعت کی بات کی جائے تو اس کی ممبرشپ کے لیے ایک بات بہت زیادہ متاثر کرتی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ اس کا ممبر بننا چاہتے ہیں تو آپ کی اس حوالے سے کوئی کارکردگی ضرور ہونی چاہیے، مثال کے طور پر آپ نے ملک کی ترقی میں کہیں نہ کہیں خدمات سرانجام دی ہوں‘ یہ خدمات کہیں بھی انجام دی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح آپ کے کوائف میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہی آپ اس پارٹی کا ممبر بن سکیں گے اور بتدریج آگے بڑھیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچیں گے اور پھر ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اب آپ یہاں تصور کریں پاکستان کے سیاسی نظام کی۔ یہاں کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے سے لے کر الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ کرنے تک‘ جو صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کا ادراک آپ کو بخوبی ہو گا۔ ابھی لاہور اور پھر خانیوال میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی سر عام خریدو فروخت کا بدترین مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح ایک انتہائی اہم بات الیکشن کے دوران ڈالے جانے والے ووٹوں کا تناسب ہے جو عام طور پر پچاس فیصد سے بھی کم رہتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اکثریت ووٹروں کو کسی بھی پارٹی پر یا تو اعتماد نہیں یا پھر وہ ان سے کوئی توقع نہیں رکھتے۔ اسی حوالے سے ایک مقبولِ عام بیانیہ ہے جو بہت معنی خیز ہے اور وہ ہے :Lesser Evil۔ یعنی آپ کے سامنے دو کرپٹ امیدوار ہیں تو آپ زیادہ سے زیادہ یہی کوشش کر سکتے ہیں کم کرپٹ یا نیم کرپٹ کا انتخاب کریں۔عام آدمی کا اس نظام میں اوپر آنا تقریباً ناممکن ہے، یہ ایک میوزیکل چیئر کی طرح ہے جس میں سب کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ اس موقع پر ایک تبصرہ نما فقرہ یاد آرہا ہے کہ جب سابق حکمران جماعتیں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگارہی ہوتی ہیں تو یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ دونوں جماعتیں سچ بول رہی ہوتی ہیں۔
دوبارہ چین کی طرف چلتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں مشترکہ ترقی کا نعرہ بلند ہی نہیں کر رہا بلکہ عملی طور پر ایسے اقدام بھی کر رہا ہے جن سے امیر اور غریب کا فرق کم سے کم رکھا جاسکے۔ یہاں ایک بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ چین نے پچھلے چند سالوں میں کم از کم دس کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر کھینچا ہے۔ مزید یہ کہ چین کمیونزم کے نعرے کے بجائے‘ اپنی طرز کے سوشل ازم کا پرچار کرتا ہے۔ ان الفاظ کا استعمال چین کے صدر نے کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر اپنے خطاب میں بارہا کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین عالمی طاقت کے طور پر دنیا کے ساتھ کیسا برتائو کرتا ہے۔ ویسے تا حال اس نے بلا جواز کسی ملک پر لشکر کشی نہیں کی اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ذریعے پورے خطے کو ساتھ ملا کر مضبوط کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنے دیرینہ دوست‘ اور پڑوسی سپر پاور پر انحصار کرنے کے بجائے اس سے سیکھتے ہوئے اس کا عملی پارٹنر کب بنتا ہے۔ ویسے حالات اب اس نہج پر آگئے ہیں کہ ایک نیا سیاسی نظام دروازہ توڑنے والی دستک دے رہاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں