سیاسی پنڈت اور پہلی وکٹ

پنڈت عام طور پر خاموش رہتے ہیں‘ حالات و واقعات پر گہری اور دور رس نظر رکھتے ہیں ‘کسی کی ذاتی رائے پر اپنی رائے نہیں بدلتے حتیٰ کہ اگر بڑی اکثریت بھی کسی خاص فر دیا پارٹی کے گن گائے جارہی ہو یا شور مچائے جارہی ہو‘ پھر بھی پنڈت اصل حقیقت سے انکار نہیں کرتے ۔مستقبل سے متعلق چند دنوں یا ہفتوں پر محیط کسی چیز پر خاص توجہ نہیں دیتے ‘لیکن جب ان کا گیان پورا ہو جائے تو پھر وہ آنے والے مہینوں ہی نہیں سالوں کی پیش گوئی کر ڈالتے ہیں ۔اس پیش گوئی کا دائرہ اگر کسی سیاست دان کی بساط لپیٹے جانے کی بات ہو یا پھر پورا نظام ہی خطرے میں ہو اور دس فیصد لوگ بھی اس کا ادراک نہ رکھتے ہوں مگر پھر بھی وہ اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔آج آپ کی ملاقات بھی ایک ایسے ہی پنڈت سے کرواتے ہیں ۔واضح رہے کہ اس پنڈت نے سال2001ء میں پیش گوئی کی تھی کہ چین ایک سپر پاور بننے جا رہا ہے‘ تو لوگوں نے باقاعدہ اس کا تمسخر اڑایا تھا‘ مگر وقت نے ثابت کیا کہ اس کی بات درست تھی ۔اب وہ یہ کہتا ہے کہ چین پورے ایشیا ہی نہیں بلکہ دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا ۔اور اس نقشہ بدلنے کا مطلب اچھے والی تبدیلی ہے ‘مطلب ایشیا کے ساتھ جو سلوک امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت کیا اور اس خطے کا نقشہ بدلا یعنی بگاڑا تھا ‘چین اس کے بالکل برعکس کرے گا ۔اس پنڈت کا مزید کیا کہنا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
چین کے ایسا کرنے کی سب سے بنیادی وجہ چین کی سرحدوں کا چودہ ملکوں سے لگنا بھی ہے ‘واضح رہے یہ کسی بھی ملک کے ہمسایہ ممالک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔اب لازم ہے کی چین یہ چاہتا ہے کہ اس کے پڑوسی ممالک میں نہ صرف امن ہو بلکہ وہاں معیشت کا پہیہ درس سمت میں چلنا چاہیے۔اسی صورت چین کی اپنی معیشت کو اچھی اور بڑی منڈیاں میسر ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی قسم کی شورش اس ملک کا رخ نہیں کرے گی ۔افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد چین کے لیے ایک بڑا خطرہ ٹلا ہے ۔
چین کے لیے سب سے بڑی سر درد بھارت نے بننے کی کوشش کی مگر چین والوں نے بہت پر سکون طریقے سے‘ انتہائی خاموشی اور عقلمندی کے ساتھ اس کو نہ صرف گھیر لیا ہے بلکہ اس کی سرحدوں کے اندر گھس کر مارنے کا عملی مظاہرہ بھی کردیا ہے۔لیکن چین والے اپنے عسکری گرو''سان زو‘‘کے بتائے ہوئے جنگی طریقوں پر چلتے ہوئے‘ایسے طریقے اور ذرائع استعمال کر رہے ہیں جن کا بنیادی قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے بہتر فتح وہ ہے جو آپ لڑے بغیر حاصل کرتے ہیں یا اپنے د شمن کو محکوم کر لیتے ہیں ۔اس طرح کی جنگی ترکیبوں میں ایسی حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں جن میں جنگ کے مسلط کرنے کا اعلان تو کجا احساس بھی نہیں ہونے دیا جاتا۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ‘اتنی احتیاط برتی جاتی ہے کہ جنگ میں بتدریج حاصل ہونے والی کامیابیوں اور فتوحات کا جشن مناناتو ایک طرف اعلان تک نہیں کیا جاتا۔کچھ ایسا ہی چین بھارت کے ساتھ کر رہا ہے اور مکمل تسلسل کے ساتھ چین نے اپنے ساتھ لگنے والی بھارتی سرحد کے تقریباً تمام علاقے پر بھارت کو نہ صرف الجھایا ہوا ہے بلکہ بھارت کی آرمی کوتذلیل کا شکار کر رکھا ہے ۔اس غیر اعلانیہ جنگ کا اختتام بھارت کے راہ راست پر آجانے یا پھر بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کی کامیابی پر ہو گا ۔بھارت کی اس احمقانہ اور بیمار ذہنیت کے نتیجے میں ہونے والی اپنی تباہی میں تیز رفتاری آنے کا بھی امکان موجود ہے اور یہ اس صورت میں ہوگاجب امریکی کردار کی عالمی حیثیت مزید محدود ہو جائے گی۔
اسی طرح اس پنڈت کا ماننا ہے کہ چین نے عالمی تناظر میں امریکہ کو قدرے تنہا کرنا اس صورت میں شروع کر رکھا ہے کہ یورپ کی بڑی طاقتیں بالخصوص فرانس اور جرمنی بتدریج امریکی اثر سے نکل کر چین کا رخ کرنا شروع کر دیں گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معیشت سے متعلقہ فوائد ہیں ۔اس میں سب سے بڑا محرک یورپ کا امریکہ سے فاصلے کے مقابلے میں چین کا قریب ہونا بھی ہے ۔اس سلسلے میں چین نے ٹرین کے ذریعے یورپ سے تجارت شروع بھی کر دی ہوئی ہے۔یورپ کے ساتھ بڑھتی تجارت سے چین کا امریکہ کے ساتھ تجارت پر انحصار کم ہوگا اور اسی طرح یورپی ممالک کی امریکہ کے ساتھ تجارت کا نعم البدل چین کی صورت میں میسر آجائے گا بلکہ آچکا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ کے یورپ میں ایک تھانیدار کا کردار محدود ہوتا نظر آرہا ہے۔اس کے بعد ایک اور تصویر واضح طور نظر آرہی ہے۔ یہاں پنڈت قدرے احتیاط مگر اعتماد سے ایک ایسی بات کرتا ہے جوبہت ناقابل یقین لگتی ہے مگر پنڈت پُر یقین ہے اور بات یہ ہے کہ چین امریکہ کے کردار کو نہ صرف اپنے علاقے تک محدود کر دے گابلکہ عالمی تناظر میں چین امریکہ کے ساتھ ایک عالمی طاقت نہیں بلکہ چین دنیا کی سب سے نمایاں‘ مطلب اکیلی سپر پاور کے طور پر براجمان ہو جائے گا ۔اگر ایسا ہونے کے لیے وقت کا ذکر کیا جائے تو پنڈت زیادہ سے زیادہ دس سال کے انتظار کی نوید سنارہا ہے ۔
اس بات کی ایک وضاحت کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو خود بھی پورا ادراک نہیں ہے کہ وہ پانچویں نسل کی جنگ کا شکار ہو چکا ہے ۔اگرچہ امریکہ کے پاس وسائل بے پناہ ہیں ‘جدید ترین ٹیکنالوجی بھی موجود ہے مگر پھر بھی امریکی نظام ایک اَن دیکھی اور محسوس نہ ہونے والے مرض کا شکار ہو چکا ہے‘ اور اس کو لاحق مشکلات اسے تاریخ کے سب سے انوکھے طریقے سے سر نگوں کرتی نظر آ رہی ہیں ۔اس کا ذمہ دار صرف چین نہیں بلکہ امریکہ کا اپنا طرزِ عمل اور اس کی روس کے ساتھ ایک نظر نہ آنے والی جنگ بھی اس کا عروج چھیننے کا باعث بنے گی۔
اب پنڈت کی باتوں کا رخ بڑی مشکل سے پاکستان کی طرف موڑا تو اس نے قدرے ناگواری اور افسوس کا اظہار کیا ۔اس کی وضاحت میں اس کا کہنا تھا کہ پاکستان حسب سابق تاریخ کی طرف سے فراہم کردہ سب سے بڑے اور یقینی موقع سے فائد نہیں اٹھا پایا ۔اس پر بات کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ تک آزمانے بلکہ اس کے ہاتھوں استعمال ہونے کے باوجود امریکی آلہ کار‘سول بیوروکریسی بالخصوص اور سیاسی قیادت کی وجہ سے پاکستان نے سی پیک جیسے منصوبے کو وقت پر پورا نہ ہونے کے اندیشے کا اظہار کیا ہے۔
اس کا ماننا ہے کہ ابھی تک چین کی بدولت جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس میں پاکستان کا اپنا کمال اور کردار بہت کم ہوتا جارہا ہے۔گویا جتنا کام چین اپنے طور پر کر رہا ہے وہی ہو رہا ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ چین کے تجویز کردہ منصوبوں اور شعبہ جات کی بجائے پاکستان کو آگے بڑھ کر اس سے زیادہ کرنا چاہیے تھا‘ مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کی ایک بڑی مثال آئے روز بجلی کی قیمت میں اضافے ہی سے لے لیں‘حالیہ اضافہ چار روپے پچاس پیسے ہے جبکہ اگر سولر انرجی اور ہائیڈل کے منصوبوں کو آگے بڑھایا جاتا تو اتنی فی یونٹ بجلی کی کل قیمت ہونی چاہیے تھی ۔یہاں پر پنڈت نے کرکٹ کے کھیل کی زبان استعمال کرتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ حکومت تو ابھی تک پہلی وکٹ بھی حاصل نہیں کر سکی ‘باقی باتیں آپ خود سمجھ جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں