''جنگ، دفاع، حملے‘‘ یہ وہ الفاظ اور تصورات ہیں جو کبھی محض سرحدوں اور فوجوں تک محدود ہوتے تھے مگر دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دنیا دو عالمی دھڑوں‘ سوویت بلاک اور امریکی اتحادیوں میں تقسیم ہو گئی‘ جس کے بعد دنیا میں ایک سرد جنگ شروع ہوئی جس میں براہِ راست جنگ کے بجائے نت نئے جنگی ذرائع دریافت اور استعمال کیے گئے۔ اس میں مسلح جنگ کی جگہ معاشی، نظریاتی اور نفسیاتی حربے استعمال ہونا شروع ہوئے۔ اس جنگ میں دونوں عالمی طاقتیں بنیادی طور پر ایک دوسرے کو معاشی طور پر نڈھال کرنے کے درپے تھیں۔ دونوں طاقتیں عالمی سطح پر اپنے حلیفوں میں اضافہ کرنے میں کوشاں رہتیں اور یوں اپنے حریفوں کو شکست دینے کی جستجو میں مگن رہتیں۔ اس جنگ کی سب سے پڑی وجہ دو مختلف ہی نہیں بلکہ دو متضاد سیاسی و معاشی نظریات کمیونزم اور کیپٹلزم تھے۔ بہر حال سوویت یونین یعنی روس یہ جنگ ہار گیا، امریکا اپنے حلیفوں سمیت اس جنگ کا فاتح ٹھہرا مگر اس جنگ نے دنیا بھر میں غیر مسلح طریقۂ جنگ کو فروغ دیا۔ یہ سرد جنگ در اصل چوتھی نسل کی جنگ یعنی فورتھ جنریشن وار فیئر تھی۔ اس کے بعد انہی خطوط پر سوچتے ہوئے پانچویں نسل کی جنگ کی بنیاد رکھی گئی جس عمومی طور پر ففتھ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر اس اصطلاح کا جتنا استعمال ہوتا ہے‘ ہمارے عوام اتنا ہی اس جنگ کی تفہیم سے دور کھڑے ہیں۔ پاکستان میں اس کا سب سے زیادہ تذکرہ سابقہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کیا کرتے تھے۔ وہ اس لیے بھی اس کا تذکرہ زیادہ کیا کرتے تھے کیونکہ اُس وقت یہ جنگ پورے زوروں سے پاکستان پر مسلط کی گئی تھی۔ پاکستان پر یہ جنگ امریکی چھتر چھایہ میں‘ بھارت نے براہِ راست افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر مغربی سرحد سے مسلط کی تھی۔ واضح رہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے امریکا نے تقریباً پوری مسلم دنیا کو زیر عتاب رکھا ہوا تھا، اور پاکستان بھی اس کے نشانے پر ہے‘ اور آج تک کی تاریخ میں صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے اس پانچویں نسل کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کی حقیقی تکمیل گزشتہ سال افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہوئی۔
پانچ جنوری کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں بہت اہم باتیں کی ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں یہ باتیں غیر عسکری لگتی ہیں لیکن اگر تھوڑا غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ امور نہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خطے کے لیے ایک سبق ہیں۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت سارے سیاسی تجزیہ کار رات ہوتے ہی چینلز پر یہ بحث شروع کر دیتے ہیں کہ نواز شریف کی ڈیل ہو رہی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے اور بھی بہت سارے مسائل ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے پانچ مسائل کا ذکر کیا، تعلیم، صحت، آبادی میں اضافہ، انفراسٹرکچراور زراعت۔ اس کے بعد انہوں نے پانچویں نسل کی جنگ کے سب سے اہم ہتھیار یعنی پروپیگنڈا اور اس میں استعمال کیے جانے والے ذرائع ابلاغ کا ذکر کیا۔ اس پوری گفتگو میں ایک نکتہ نہایت اہم تھا۔ انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ آج کی دنیا سچ سے آگے کی دنیا ہے۔ سچ سے آگے سے مراد سچ کے بغیر کی دنیا ہے جس کو اصل الفاظ میں Post Fact (Truth) World کہا جاتا ہے۔ اس کو مزید واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانچ فی صد حقیقت کے ساتھ باقی جھوٹ شامل کر لیاجاتا ہے‘ قیاس آرائیوں، جعلی خبروں، ذہنوں کو منتشر اور اضطراب میں مبتلا کرنے والی تحریروں اور لفظوں کے ساتھ لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے Spin Masters کے الفاظ کو انتہائی بجا طور پر استعمال کیا۔
سپن کا لفظ کرکٹ میں عام استعمال ہوتا ہے اس لیے سب بہ آسانی اسے سمجھ جائیں گے۔ اب چکر سارا یہ ہے کہ جس طرح سپن بائولر گیند پھینکتے تو آہستہ ہیں لیکن اسے گھماتے بہت زیادہ ہیں‘ اسی طرح ''سپن ماسٹر‘‘ سچی جھوٹی خبروں کو اس طرح آہستہ تھرو کریں گے کہ اپنی خواہشات بھی تجزیہ اور اپنا تجزیہ بھی خبر بنا کر بلکہ ''اندر کی خبر‘‘ بنا کر عوام کو سنائیں گے۔ سپن بائولر ز میں لیگ سپنر وہ ہوتا ہے جو گیند کو سب سے زیادہ گھماتا ہے۔ اس دور کی ٹیکنالوجی اس قابل ہو چکی ہے کہ گھومنے والی گیند نے کتنا ٹرن لیا‘ یہ بھی کیمرے کی مدد سے ماپ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی فاسٹ بائولر کی گیندبیس کے زاویے کو کراس کر جائے تو اس کو بہت زیادہ ٹرن کہا جاتا ہے۔ اگر سپن بائولر کی گیند چالیس کے زاویے کو عبور کر جائے تو اس کا ہر طرف چرچا ہونے لگتا ہے۔ البتہ جن سپن ماسٹرز کا ذکر پریس کانفرنس میں کیا گیا‘ وہ تو نوے کا زاویہ چھوڑیں، ایک سو اسی کا زاویہ بھی کراس کر جاتے ہیں۔ اس طرح کے بولنے اور لکھنے والے‘ کچھ تو ایسے ہیں جو وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہیں‘ یعنی لکھتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں‘ ا نتہائی مہارت سے۔ کسی بھی حکمران کے دفاع کیلئے‘ چاہے اس کا دامن کتنا ہی داغدار کیوں نہ ہو‘ اپنی باتوں کو کچھ اس طرح گھماتے ہیں کہ سپن بائولر بھی شرما جائے۔ ان لوگوں کو کس طرح اتنی سپن پر قائل اور مائل کیا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک آڈیو سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس آڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر ''ٹوکری‘‘ کے لفظ سے ایک طوفان برپا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر جس قدر ٹوکری کی تصاویر گردش کر رہی ہیں‘ کسی بڑے سے بڑے تہوار پر بھی ایسا نہیں دیکھا گیا ہو گا۔ اس تناظر میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ سپن ماسٹرز کیلئے پچ کا ٹرننگ ہونا ضروری نہیں بلکہ ٹوکری کا ہونا ضروی ہے اور ٹوکری اگر غیر ملکی ہو تو ٹرن اور زیادہ ہوگا۔
آج کل چونکہ میاں صاحب سے ہونے والی نام نہاد ڈیل کا کافی ذکر ہو رہا ہے تو اسی تناظر میں ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک سیاسی شخصیت کی رحلت کے موقع پر ایک صاحب اتنے جذباتی ہو گئے کہ انہوں نے جنازے کا ذکر کرتے ہوئے ''کامیاب‘‘ کا لفظ بول دیا۔ وہ یقینا اسے ایک بڑا اور تاریخی جنازہ کہنا چاہ رہے تھے‘ جو بعد ازاں ہلکی سی شرمندگی محسوس کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ یہ سپن ماسٹرز اربوں کے گھپلے کرنے والے کسی مفرور کی مثبت تصویر پیش کرنے کے لیے اس کی جانب سے کسی کو اپنے ہاتھوں سے پیش کی جانے والی چائے کا ذکر یوں کر تے ہیں جیسے اس نے اپنا گردہ کسی کو دے دیا ہو۔ ایک ایسے ہی صاحب کی اہلیہ کی رحلت کے موقع پر ایک اور سپن ماسٹر نے کچھ یوں اس کی تعریف کے پل باندھے کہ وہ اپنے شوہر کی مشیر کا درجہ رکھتی تھیں‘ دونوں صبح چائے اکٹھے پیتے تھے۔ یعنی میاں اور بیوی کا اکٹھے چائے پینا بھی ان کے نزدیک کوئی بہت بڑا‘ اہم اور قابلِ بیان واقعہ ہے اور یہ اسے ایسے بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کا دل فرطِ محبت سے پسیج جائے، مگر یہ سپن ماسٹرز کسی صورت باز نہیں آتے اور اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے باقی کسر پوری کر دیتے ہیں۔
اب ذکر اس پریس کانفرنس میں بتائے گئے دیگر مسائل کا‘ تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں بے ہنگم نہیں بلکہ تباہ کن حد تک پہنچ جانے والے اضافے کا ہے۔ پاکستان میں آبادی میں سالانہ اضافہ پچاس لاکھ ہے، یہ پریس کانفرنس یقینا بھارت میں بھی بغور سنی گئی ہو گی تو بات کچھ یوں ہے کہ بھارت کی آبادی میں سالانہ اضافہ ایک کروڑ ستر لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ بنگلہ دیش اگرچہ اس مشکل پر کافی قابو پا چکا ہے مگر پھر بھی اس کی آبادی میں سالانہ اضافہ تیس لاکھ کا ہے۔ اس طرح جنوبی ایشیا کے ان تین ملکوں میں کل اضافہ اڑھائی کروڑ سالانہ ہے، جو پوری دنیا کی کل آبادی میں اضافے کا 33 فیصد ہے۔ مجھے پتا نہیں کیوں لگا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دیگر مسائل سمیت یہ مشورہ پورے خطے کو دیا ہے۔