آج کل آپ ایک لفظ کافی سنتے ہوں گے؛ آلودگی۔ اس سے مرا د قدرت کی طرف سے پیدا کردہ اجزائے ترکیبی میں سے کسی ایک جز میں کمی واقع ہونا یا اضافہ ہونا ہے‘ تیسری شکل کسی ایک نئے جز یا مادے کا اس میں شامل ہو جانا ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہوا کی مثال لیں۔ اگر اس میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جائے یا دوسری شکل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہو جائے یا تیسری شکل یہ ہے کہ کسی ایسی گیس کی شمولیت ہوا میں ہونا شروع ہو جائے جو قدرتی طور پر ہوا میں پائی ہی نہیں جاتی تو مذکورہ بالا کوئی ایک بھی صورت فضا کی آلودگی کہلائے گی۔ پاکستان نے اپنے سب سے بڑے ہمسایہ ملک سے اٹھنے والی ایک انوکھی ہوائی اور فضائی آلودگی کا پانچ برس سامنا کیا ہے اور اب بھی کر رہا ہے جس کا نام سموگ ہے۔ پہلے تو یہ اکتوبر اور نومبر کے مہینے تک محدود رہتی تھی اور ایک بارش کے بعد ختم ہو جاتی تھی مگر اس سال متعدد دنوں تک جاری رہنے والی بارشیں برس چکی ہیں‘ اکتوبر‘ نومبر تو چھوڑیں‘ جنوری کا مہینہ آگیا ہے مگر یہ زہریلی دھند نما آلودگی ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔
اس سے قبل شہروں کو دیہی علاقوں کے مقابل قدرتی ماحول بالخصوص ہوا کے حوالے سے قدرے خراب علاقہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کی بڑی وجوہ شہروں کے اندر آبادی کا گنجان ہونا‘ گھروں کا سائز چھوٹا ہونا اور گلیوں کا تنگ ہونا تھیں۔ اس کے علاوہ شہروں میں ٹریفک کا زیادہ ہونا اور ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والا دھواں آلودگی کی ایک بڑی وجہ سمجھا جاتاتھا۔رہی سہی کسر شہروں کے اندر موجود صنعتی کارخانے پورے کر دیتے تھے جو اپنا پیداواری نظام جاری رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں انرجی کے استعمال پر انحصار کرتے ہیں اور خاصا زہریلا دھواں فضا میں مسلسل خارج کرتے رہتے ہیں۔ صنعتی پیداوار سے زہریلے دھویں کی ایک بڑی وجہ حدت پیدا کرنے کے لیے کوئلے کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ میں ایندھن کے طور پر ڈیزل کا استعمال تھا۔ واضح رہے کہ عالمی منڈی میں ڈیزل کی قیمت پٹرول کے مقابلے میں تیس سے چالیس فیصدتک کم ہے‘ اسی لیے بھاری وزن لانے‘ لے جانے والی گاڑیاں ڈیزل کا استعمال زیادہ کرتی ہیں۔ چونکہ ڈیزل قدرے گھٹیا درجے کا ایندھن ہوتا ہے اس لیے اس پر چلنے والی گاڑیاں زیادہ دھواں‘ مطلب زیادہ آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے شہروں میں ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کا داخلہ سرے سے بند کر دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو پہلی بات یہ ہے کہ یہاں ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں فرق اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے شہروں میں ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں پر پابندی تو کجا‘ ایک چھوٹے کارخانے جتنا دھواں پیدا کرنے والی گاڑیوں کے داخلے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں ڈیزل پر چلنے والے بیشتر ٹرکوں کا ماڈل بیس سال سے بھی زیادہ پرانا ہے مگر یہ آج بھی سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ واضح رہے کہ مشین جس قدر زیادہ پرانی ہو گی‘ اسی قدر زیادہ آلودگی پیدا کرتی ہو گی کیونکہ ''کلین اینڈ گرین انرجی‘‘ کا تصور گزشتہ کچھ عرصے سے رائج ہونا شروع ہوا ہے جس کے بعد سے کم سے کم آلودگی پیدا کرنے والی مشینری کے استعمال کو فروغ ملا ہے۔
آلودگی کے حوالے سے آپ لاہور شہر ہی کی مثال لیں‘اگرچہ دن کے وقت اندرونِ شہر ٹرکوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے مگر جیسے ہی رات ہوتی ہے‘ چہار اطراف سے یہ ٹرک شہر کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد چونکہ شہروں میں گھروں اور پلازوں کی تعمیر دن رات جاری رہتی ہے‘ اس لیے ٹریکٹر ٹرالیاں اور ان پر لادا گیا تعمیراتی سامان‘ مثلاً مٹی، ریت وغیرہ‘ شہروں کی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ہمارے ہاں ٹرالیوں کی ساخت اس طرح کی ہے کہ ان پر لادی گئی ریت اور مٹی مسلسل سڑکوں پر گرتی رہتی ہے‘ خاص طور پر جب یہ کسی سپیڈ بریکر سے گزرتی ہیں یا جب اچانک بریک لگتی ہے‘ تو ایک ڈھیر ریت؍ مٹی کا سڑک پر بھی گر جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان ٹرالیوں کو زیادہ سے زیادہ بھر نے کے بعد اوپر سے خالی چھوڑ دیا جاتا ہے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کے اوپر کم از کم ایک سخت ساخت کا کپڑا یا کوئی پلاسٹک شیٹ ڈال کر اوپر سے بھی ڈھانپا جائے‘ لیکن ایسا نہیں ہوتا اسی لیے شہر کے اندر مٹی اور ریت کی آمیزش والا یہ مواد ہوا کے اند ایسے ہی اُڑ رہا ہوتا ہے جیسے کوئی آندھی آئی ہو۔ یہ مواد شہروں کی فضا کو سب سے زیادہ آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اب باری آتی ہے دھویں اور کاربن کے ذرات کی‘ جو تمام طرز کی گاڑیوں اور کارخانوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کاربن اور دھواں فضا کے اندر معلق ہو کر ہوا کو زہر آلودہ کر دیتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں یہ کاربن‘ سورج کی جو حرارت زمین پر پہنچتی ہے‘ اس کو واپس جانے سے روک دیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ گرمیوں کے موسم میں اندرونِ شہر درجہ حرارت بیرونِ شہر اور شہر سے ملحقہ دیہی علاقوں سے خاصا زیادہ ہوتا ہے۔ اس زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے شہروں کو ''گرم جزیرے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد آلودگی کا اگلا سبب اور بھی زیادہ بھیانک ہے اور وہ ہے شہروں میں درختوں کی شدید کمی۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ شہروں میں اب جگہ مرلوں‘ کنالوں میں نہیں بلکہ فٹ کے حساب سے بکتی ہے۔ مطلب آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہروں میں ایک ایک انچ قیمتی ہو جانے کی وجہ سے لوگ ڈربوں جیسی جگہوں پر رہائش پذیر ہونے پر مجبور ہوتے ہیں‘ لہٰذا ایسی صورت میں درخت لگانے کی گنجائش کہاں سے نکلے گی۔ اب درخت ہی وہ واحد قدرتی ذریعہ ہوتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنی غذا کے طور پر کھا جاتے ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کی زندگی کا براہِ راست تعلق درختوں کے ساتھ ہے۔ چونکہ انسان بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے اور آکسیجن سانس کے ذریعے اندر کھینچتے ہیں‘ اس لیے جس قدر آبادی زیادہ ہو گی‘ درختوں کی اہمیت اسی قدر بڑھ جائے گی۔
بات واپس سموگ نام کی آلودگی کی کرتے ہیں‘ جس کے بڑھتے دورانیے کی سبب اب فضائی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ لاہور جیسے شہر میں ایک دن یعنی چوبیس گھنٹوں تک سانس لینا بیس سگریٹوں کے برابر دھواں اپنے حلق سے نیچے اتارنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ سانس لینے کا عمل تو سویا ہوا انسان بھی جاری رکھتا ہے۔ اس لیے آلودہ ہوا کا ہر ایک سانس زہر خوری کا عمل ہے۔ آپ اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کو بازار کی خوراک پر اعتماد نہیں تو آپ کھانا گھر میں تیار کر سکتے ہیں‘ پانی کی آلودگی سے بچنے کے لیے آپ پانی ابال سکتے ہیں‘ فلٹر استعمال کر سکتے ہیں مگر اس آلودہ ہوا کا کیا کریں گے‘ جو ہر لمحے آپ کے سانس کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔ اگرچہ اب آکسیجن کے سلنڈر اور اس سے بھی آگے گھروں اور دفتروں کی ہوا کو صاف کرنے والی مشینیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں مگر ان تمام وسائل کے باوجود آپ کا سامنا کھلی ہوا سے بہر صورت ہونا ہی ہوتا ہے لہٰذا یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ آپ کا ہر سانس خطرے سے بھرپور ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ پروفیسر صاحب! آپ کی باتوں سے بہت خوف آتا اور ڈر لگتا ہے مگر میں یہی جواب دیتا ہوں کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے‘ یہ باتیں کرتے ہوئے مجھے تقریباً بیس سال ہو گئے ہیں۔ پہلے بھی لکھا ہے‘ انٹرویوز میں بتایا ہے کہ لاہور شہر جیسے تمام شہروں کی زندگی پانچ سے دس سال تک باقی رہ گئی ہے۔ اب موجودہ صورتحال دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میری پیشگوئی ایک صورت میں غلط ثابت ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ یہ آلودہ اور زہریلی فضا‘ جس کا تخمینہ میں نے دس سال لگایا تھا‘ پہلے ہی پیدا ہو چکی ہے۔ ان یہاں دو مزید خبریں ہیں‘ ایک اچھی اور ایک بری۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حالات ابھی تک بد تر نہیں ہوئے مگر بری خبر یہ ہے کہ ان کے اچھا ہونے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے کہ لاہور جیسے تمام شہر اب ''آلودہ اور زہریلے جزیرے‘‘ بن چکے ہیں‘ جہاں دو نوالے روٹی اور دو گھونٹ پانی سے زیادہ مشکل صاف ہوا کی دوسانسوں کا حصول ہے۔