تعلیم اور تحقیق کی دنیا میں اس وقت بالخصوص ایک بات یا رجحان پر بہت زور ہے اور یہ رجحان اس بات کے گردگھومتا ہے کہ سیاست ہو‘ معیشت ہو یا قدرتی ماحول ‘آپ مستقبل کی بات کرتے ہیں ۔اس حوالے سے اب سب سے زیادہ شورقدرتی ماحول کا ہے۔اس حوالے سے تمام تر حقائق یعنی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے کس حصے کی آب و ہوا اس قابل ہے کہ آپ وہاں آسانی یا محفوظ طریقے سے زندہ رہ سکتے ہیں ۔ اس تناظر میں دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ جنوبی ایشیا ہے ۔عالمی ماہرین اس خطے کے متعلق وثوق سے خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں کہ اس خطے کا قدرتی بیلنس آئوٹ ہونے جا رہا ہے ۔اس بیلنس سے مراد اس خطے میں پینے کے صاف پانی کی کمی‘ ہوا کی آلودگی ‘زمین کی زرخیزی میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ اس ضمن میں پہلے بھی گزارش کر چکا ہوں کے اس خطے کے تمام بڑے شہروں میں ایک دن کے دورانیے میں ہر شخص بیس سگریٹ کے برابر دھواں پی رہا ہے ۔یہ بات سب سے پہلے 2010ء میں امریکی صدر بارک اوباما کے دورۂ بھارت کے دوران سامنے آئی تھی ۔حد تو یہ ہے کہ اس خطے کی ہوا کتنی آلودہ اور خطرناک ہو چکی ہے یہ بات بھی ہمیں امریکیوں نے بتائی۔اس بات کو بتانے کا سٹائل بھی امریکیوں کا اپنا ہی تھا ‘قصہ یوں ہے کہ امریکی صدر کی ٹیم میں شامل ایک ماہر نے اپنے صدر کو بتایا کہ آپ کی زندگی کے کچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں ‘امریکی صدر کے پوچھنے پر اس کو وجہ بتائی گئی کہ اس نے دنیا کے سب سے آلودہ شہر ‘مطلب نیو دہلی‘ میں دو دن گزارے ہیں۔واضح رہے کہ جنوبی ایشیا دنیا کا وہ خطہ ہے کہ دنیا کی سالانہ کل آبادی میں اضافے کا تیسر احصہ اسی علاقے سے ہوتا ہے ۔اس میں مزید خطرناک بات یہ ہے کہ سوائے بنگلہ دیش کے دیگر ممالک مطلب بھارت اور پاکستان میں اس اضافے کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ پالیسی یا قانون موجود نہیں ہے ۔بنگلہ دیش جب ہم سے علیحدہ ہو تو اس کی آبادی پاکستان سے تقریبا ًپچاس لاکھ زیادہ تھی‘مگر اب اس ملک کی آبادی ہم سے کم از کم پانچ کروڑ کم ہے۔زیادہ تر لکھنے اور بولنے والے جب بنگلہ دیش کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو وہ اس امر کو بیان نہیں کرتے جو یقینا ان کی لا علمی کی وجہ ہو گی مگر آج کے بعد آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بنگلہ دیش کی ترقی کا ایک رازاس کی آبادی کا کنٹرول میں ہونا ہے۔
آج کل ذکر ہے پانچویں اور آخری موسم کا جس کو آلودگی کا موسم کہا جاتا ہے ۔اس سے مراد سموگ اور دیگر آلودگیوں سے پیدا ہونے والی زہریلی فضا ہے ۔اس زہریلی فضا کے دورانیے نے اکتوبر اور نومبر سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے پنجے سردی کے موسم پر بھی پھیلا دیے ہیں۔ان دنوں جنوری اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے مگر سموگ نہیں جا رہی ۔ ہمارے ادارے جس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس سے یہ واضح ہے کہ جب تک مارچ کا مہینہ نہیں آئے گا یہ فضا اسی طرح آ لودہ بلکہ زہریلی ہی رہے گی ۔
اسی تناظر میں ایک بیان یہ تھا کہ '' لاہور شہر کی زندگی پانچ سے دس کی رہ گئی ہے ‘‘۔میں نے یہ بات گزشتہ سال ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی‘ بلکہ دہرائی تھی ۔اس سے پہلے یہ بات کرتے ہوئے بھی پانچ سال ہو چکے ہیں ۔ اس کی وجوہات اور تفصیلات گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں ۔لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کے بعد لاہور ختم ہو جائے گا یا یوں کہہ لیں کہ وضاحت مانگتے ہیں کہ یہ جو آپ لاہور شہر کی زندگی کے صرف پانچ سال باقی رہنے کی بات کرتے ہیں یہ بہت خطرناک ہے اور یہ سمجھ سے با لاتر ہے۔اب اسی بات کی وضاحت کرتے ہیں ۔بات کچھ یوں ہے کی اگر آپ کا گزر ایک ایسے نالے سے ہوتا ہے جس میں سے گندا پانی گزرتا ہے ‘تو آپ کو یقینا بد بو آتی ہو گی اور اسی کے ساتھ سانس لینے میں دشواری بھی ہوتی ہو گی۔ اسی طرح آپ اگر کسی ایسی جگہ سے گزرتے ہیں جہاں پر کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا ہو تو بھی آپ کو ہوا کے آلودہ اور بد بو دار ہونے کا احساس ہوتا ہو گا ۔اب یہ ایک مثال ہے کہ جس طرح ایسی آلودگی والے علاقے سے گزرنا محال ہوتا ہے ‘عین اسی طرح جس علاقے کی فضا آلودہ ہو جائے وہاں بد بو تو نہ سہی مگر آنکھوں میں چبھن ‘سانس لینے میں دشواری‘ آنکھ‘ ناک اور گلے کی بیماریاں لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔اس کے بعد اس آلودگی کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی بدستور آلودہ ہوتا جاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب فضاکے اندر آلودگی والے ذرات موجود ہوتے ہیں تو جیسے ہی بارش ہوتی ہے تو یہ ذرات زمین پر واپس آجاتے ہیں اور زمین کا حصہ بن جاتے ہیں ‘اس صورت میں بارش کا پانی اسی آلودہ مٹی میں سے ہو کر زمین میں جذب ہوتا ہے تو خود بخود ہی آلودہ ہو جاتا ہے ۔پانی کی آلودگی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہیں‘جیسے صنعتوں کا فضلہ اور آلودہ پانی وغیرہ ۔یہاں پر ایک پیمانہ آپ کو بتاتا چلوں کہ جس شہر میں آلودگی بڑھ جاتی ہے وہاں سے بہت سے پرندے بھی نقل مکانی کر جاتے ہیں اور اس آلودگی کہ وجہ سے کوے اور چیل جیسے پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
بات ہوئی تھی گندے نالوں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر وں کی تو ایک بات ذہن میں رکھیں کہ ان دونوں جگہوں پر بھی لوگ مستقل طور پر رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔خاص طور پر ایک بڑا گندا نالہ لاہور شہر میں سے گزرتا ہے تو اس نالے کے دونوں طرف رہائشی اور کمرشل بلڈنگز موجود ہیں ۔اب آپ کو شاید بات سمجھ میں آجائے کہ ہوتا یوں ہے کہ لوگ عادی ہو جاتے ہیں لیکن عادی ہو جانے کا مطلب خطرہ ٹل جانا نہیں ہوتا ۔آپ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی آلودہ ہوا اور غیر محفوظ پانی در اصل سلو پوائزن کی طرح کام کرتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو بتدریج بیماریوں کی سمت لے جاتے ہیں ۔
ہاں ایک بات اور غور طلب ہوتی ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ ایک ہی شہر کے کچھ علاقے قدرے بہتر ہوتے ہیں اور کچھ مکمل طور پر خطرناک ہو جاتے ہیں ۔آپ لاہور شہر کے حوالے سے ڈیفنس ‘ماڈل ٹائوں وغیرہ کے علاقوں کو دیکھیں تو فضا قدرے بہتر ہوتی ہے جبکہ اندرون شہر اور ایسے علاقے جہاں صنعتیں اور کارخانے لگے ہیں یا جس سڑک سے زیادہ ٹریفک گزرتی ہو اس کے دونوں اطراف کے علاقوں میں آلودگی خطرناک ہوتی ہے۔اب بات مزید معنی خیز مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو گزارش ہے کہ حالات کو بہتر کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو کہ عام زندگی کی طرز پر بھی نہیں ہو رہا ۔ایسے میں لاہور شہر کے اندر موجود پراپرٹی کی قیمتیں گرنے کا خدشہ منڈلا رہا ہے ۔اسی طرح لاہور پاکستان کا سب سے بڑا مرکز ہونے کارجحان بھی کھو دے گا ‘یہ سب ویسے ہی ہو گا جس طرح لاہور کبھی باغوں کا شہر تھا مگر اب فی کس درختوں کے اعتبار سے ایک نہم صحرائی شہر بن چکا ہے ۔
ان حالات میں آپ اپنے حصے کا حق اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی کو اس حالت میں رکھیں کہ یہ دھواں نہ دے ‘اس شعور کو اپنے حلقۂ احباب میں بھی پھیلائیں ۔اسی طرح سرکاری مشینری کو جگانے کے لیے سول سوسائٹی کو ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر لاہور کا حسن ہی نہیں زندگی بھی خطرے میں ہے ۔