دنیابھر میں رائج بلکہ مسلط کردہ افکار، نظریات، فلسفے اور ہیروز‘ سبھی مغربی دنیا کے تراشیدہ ہیں۔ یہ سلسلہ پانچ سو سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ طرزِ سیاست ہو‘ معاشی نظام ہو‘ معاشرتی ترتیب ہو یا پھر لوگوں کی زندگی‘ مذہب اور خاندان کی حیثیت اور کردار کا تعین‘ یہ سب کچھ مغرب کی مرضی، مفاد اور مقاصد کے تحت چل رہا ہے۔ یہ سلسلہ مغربی ممالک میں 'جمہوریت‘ اور پھر ان کے صنعتی انقلاب کے بعد شروع ہوا تھا۔ صنعتی انقلاب نے دیہی طرز کی زندگی کو میگا سٹی کے مصروف زندگی میں بدل دیا۔ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں سب سے پہلے آبادی کی اکثریت شہروں میں آباد ہوئی۔ شہری زندگی نے لوگوں کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی اور تیزی برپا کی۔
مغرب میں جمہوریت کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام نے بھی جڑیں پکڑیں۔ اس نظام کی ایک خاصیت بلکہ خصلت یہ ہے کہ یہ لوگوں کو صرف اور صرف معیشت یعنی نفع اور امیر سے امیر تر ہونے کی کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں لگا دیتا ہے۔ ایک فقرہ بہت مشہور ہے کہ شہری مطلبی جبکہ دیہاتی ملنسار ہوتے ہیں۔ اس بات کو مصدقہ اس لیے بھی مانا جاتا ہے کہ شہروں میں مقیم افراد کی زندگی وقت یعنی گھڑی کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے اور وہ ایک کام کرنے والی مشین کی طرح ہوتے ہیں۔اگر کوئی شخص کسی سرمایہ دارانہ ملک کا شہری ہو گا تو اس کی رفتار اور مصروفیت عام افراد کے مقابل دو گنا تک ہو گی۔ اس کے نتیجے میں اس کی معاشی ترقی کا گراف تو بلند ہو جاتا ہے مگر اس کے نفسیاتی اور معاشرتی امور بری طرح مجروح ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے معاشروں میں ہر شخص شعوری اور لا شعوری طور پر صرف معیشت یا دولت کے گرد گھومتا ہے۔ اس سارے گھن چکر میں اس کے اندر انسانی احساسات اور مروت و ملنساری جیسے جذبات کم ہی نہیں‘ رفتہ رفتہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے Contractual Life کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب بہت واضح مگر خاصا تلخ ہے۔ ہمارے ہاں اسے 'غرض کا تعلق‘ اور'مطلب کی دنیا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں نفسا نفسی اور افراتفری کا ماحول غالب آتا ہے۔
بات واپس مغرب کے غلبے کی کرتے ہیں‘ یورپ نے اپنی علمی اور تحقیقی برتری کا استعمال اپنے ہاں تو بہت اچھا کیا مگر اس کے بدولت مغرب باقی دنیا‘ بالخصوص ایشیا پر انتہائی بھیانک اور استحصالی حاکم کی صورت میں مسلط ہوا۔ جدیدمغرب نے نہ صرف مشرق کا استحصال کیا بلکہ اس کو ماضی کی پستیوں کی طرف بھی لڑھکا دیا۔ جن بھی ایشیائی ممالک پر برطانوی راج رہا وہاں پر معاشی تباہی‘ ہرطرح کی سماجی تقسیم‘ فسادات اور سیاسی مسائل پیدا ہوئے‘ یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسائل پیدا کیے گئے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال جنوبی ایشیا یعنی بر صغیر کی ہے۔ چین بھی اب اس تلخی کا ذکر بڑھ چڑھ کر کر رہا ہے کہ مغرب نے اس پر ایک صدی تک ظلم کیا اور مقامی افراد کا استحصال کیا گیا۔ حالانکہ چین کے بہت ہی کم علاقے پر کالونی کی طرز کا قبضہ ہوا تھا۔ عالمی طاقت کے طور پر چین اپنے میڈیا کے ذریعے اس کا ذکر ''A Century of Humiliation‘‘ کے عنوان کے ساتھ تواتر سے کر رہا ہے۔ چین مجموعی طور پر مغرب کو مشرق کے پانچ سو سال کے دورانیے پر محیط استحصال کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ چین کے لکھنے اور بولنے والے انتہائی بے باک طریقے سے اس تلخ تاریخی تجربے کو مغرب کے جابرانہ تسلط کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
یہاں انتہائی تلخ حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ اگر پورے نوآبادیاتی دور کا جائزہ لیا جائے تو مغربی ا ستعماری طاقتوں نے سب سے زیادہ نقصان اگر کسی ایک خطے کو پہنچایا تو وہ جنوبی ایشیا ہے مگر اس کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید کا لفظ یہاں ہر گز مناسب نہیں لگتا‘ اس لیے غالب ہی نہیں قوی امکان یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ ابھی تک محکوم ہے۔ پہلے یہاں برطانوی راج تھا اور پھر یہ امریکا کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس بات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں؛ تاہم تسلیم کرنا خاصا مشکل محسوس ہوتا ہے۔
ہمارا افسر شاہی کا نظام جو ہماری پالیسیاں اور نصاب طے کرتا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ یہ وہی بیوروکریٹک نظام ہے جو گورے نے اپنا آمرانہ تسلط جاری رکھنے کے لیے وضع کیا تھا۔ یہ شاہانہ آفیسرز آج بھی پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں پوری آب وتاب سے نہ صرف جگمگا رہے ہیں بلکہ کسی ریتلے صحرا میں مئی‘ جون کے مہینے میں سورج کی تپش کے طرح آج بھی پوری نظام پر مسلط ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ گورے کا ورثہ وہ عمارات ہیں جو اس نے یہاں تعمیر کیں حالانکہ اس کی اصل وراثت تو یہ بیوروکریسی ہے جس نے جنوبی ایشیا جیسے بڑے اور متنوع خطے کو ابھی تک پسماندہ بنا رکھا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ان شاہانہ افسروں کی ماہانہ مراعات‘ تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کے اساتذہ اور ڈاکٹروں کو میسر سالانہ مراعات سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں اساتذہ اور ڈاکٹر اپنے حقوق کے لیے آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
واپس آتے ہیں جنوبی ایشیا کی دو سو سالہ تباہی کی طرف جو گورے نے یہاں برپا کی اور جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تاجِ برطانیہ کے مظالم کے ذکر سے پہلے اس سوچ کا بھی ذکر کر لیں جو اس خطے کی اشرافیہ بڑے خاص طریقے اور اہتمام کے ساتھ آج بھی عوام کے ذہنوں میں راسخ کرتی رہتی ہے۔ اس سوچ کے مطابق اس خطے میں جتنی بھی ترقی ہوئی وہ گورے کی وجہ سے ہے‘ اس حوالے سے انگلیوں پر گنے جانے والے تعلیمی اداروں کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ پھر ریلوے کے نظام کا ذکر کیا جاتا ہے جو گورے نے اپنی استحصالی تجارت کیلئے بنایا تھا‘ اسی طرح کچھ اور خود ساختہ تاویلیں گھڑی جاتی ہیں لیکن اب چلتے ہیں تصویر کے اصل رخ کی طر ف! گورے کی شاطرانہ آمد کے وقت جنوبی ایشیا پوری دنیا کا سب سے امیر خطہ تھا اور اس کی سالانہ آمدنی دنیا کی کل آمدنی کا 23 فیصد تھی جوگورے کے اقتدار کے اختتام پر محض دو فیصد رہ گئی تھی۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ اگر گورا اس خطے کو جدید دور کے مطابق تعلیم کا کلچر دے کر جاتا بلکہ دو صدیوں کے اپنے اقتدار کے دورانیے میں بھی دیتا تو اس کے جاتے وقت اس خطے کی تعلیمی شرح دس فیصد سے بھی کم نہ ہوتی۔ جنوبی ایشیا پر برطانوی ظلم و ستم کا ذکر مکمل کرنے کے لیے مزید کئی کالمز درکار ہوں گے‘ جو ایک سیریز کی شکل میں لکھے جائیں گے مگر آج اس خطے کی پسماندگی کی بنیادی وجہ بیان کی جارہی ہے۔
اس خطے میں برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے دور میں پیدا کردہ قحط کا ذکر کیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بنگال کے اس قحط میں تیس لاکھ سے زائد لوگ مر گئے تھے۔ آپ نے ہٹلر کے ہاتھوں مارے جانے والے چند لاکھ یہودیوں کے مسئلے پر نہ جانے کتنی کتابیں، فلمیں اور ڈاکیومنٹریز دیکھی ہوں گی۔ آج بھی صرف یہودی ہی نہیں‘ پوری دنیا اس کا سوگ سالانہ طور پر مناتی نظر آتی ہے بلکہ اس کے لیے ایک مخصوص اصطلاح ''ہولوکاسٹ‘‘ بھی وضع کی گئی ہے لیکن کتنی تلخ اور تکلیف دہ بات ہے کہ بنگال میں مارے جانے والے تیس لاکھ لوگوں کا ذکر تاریخ میں کبھی بھی مناسب اور مکمل طور پر نہیں کیا گیا جبکہ ضرورت اس تاریخی ظلم کو ایک اصطلاح کی صورت میں بیان اور اجاگر کرنے کی ہے۔ میرے نزدیک گورے نے سائوتھ ایشیا کو Sadasiaبنادیا تھا اور اس عظیم قحط کی داستان Sorrow of Asia ہے۔