اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی بھی منا چکے ہیں مگر اب بھی بر صغیر کے ممالک وہیں کھڑے ہیں‘ جہاں بظاہر آزادی کے وقت کھڑے تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی غربت بن چکا ہے۔ سب سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکوں اور انتہائی تیزی سے مذہبی جنونیت کے طرف بڑھتے اُس ملک کے وزیر اعظم کا ایک بیان ملاحظہ فرمائیں ''میں دنیا کے مختلف حصوں میں تامل زبان کو متعارف کرواتا ہوں اور لوگوں کو بتاتا ہوں کہ یہ دنیا کی ایک قدیم ترین زبان ہے‘‘۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ہی ملک کے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے۔ یہ انٹرویو دیکھ کر بخوبی علم ہو رہا تھا کہ یہ انتہائی دوستانہ انٹرویو ہے جس میں صرف اسی طرز کے سوالات پوچھے جارہے تھے، جن کے جوابات مودی اپنی ساکھ بنانے یا بچانے کیلئے دے رہے تھے۔ اب آپ بھارت کی غربت، اندرونی تحریکوں اور مذہبی جنونیت کے علاوہ دیگر امور پر غور کریں تو علم ہو گا کہ یہ ملک ایک عالمی دلدل میں پھنس چکا ہے اور یہ دلدل ہے چین کے ساتھ مسلسل بڑھتی ہوئی کشیدگی کی۔ اس وقت بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے مگر مودی جی سے ان تمام مسائل کے متعلق کوئی سوال پوچھا گیا اور نہ ہی انہوں نے خود اپنی باتوں کا رخ اس طرف موڑا اور گھنٹے کا انٹرویو ختم ہو گیا۔
بھارت کی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں پردہ کرنے پر پابندی کی خبر بھارتی چینلز پر بھی ہاٹ موضوع بنی ہوئی ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی اس حوالے سے مودی سرکار پر کڑی تنقید کی ہے۔ ویسے اپوزیشن جماعتوں کے بیانات کو زیادہ اہمیت اس لیے نہیں دی جانی چاہیے کہ اس خطے میں اپوزیشن میں ہونے کا مطلب حکومت پر بہرصورت تنقید کرنا ہی ہوتا ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ پردہ کرنا کسی کا انفرادی فعل ہے‘ اس پر پابندی کی نہ تو اخلاقیات میں کوئی اجازت ہے اور نہ ہی جمہوریت میں۔ مذہبی جنونیت کو فروغ دینے کے لیے مودی سرکار ایسے اوچھے ہتھکنڈے اپناتی رہتی ہے۔ البتہ بھارت کی جانب سے موصول ہونے والی دیگر خبروں پر نظر دوڑائیں تو اس وقت سب سے بڑی خبر بھارت کی پانچ بڑی ریاستوں میں ہونے والا الیکشن ہے۔ ان الیکشنز کے حوالے سے مختلف پارٹیوں کے لیڈروں‘ جو اصل میں حکمران ہی ہیں اور مختلف ریاستوں میں یہ جماعتیں برسراقتدار ہیں‘ کے بیانات سنیں تو سبھی اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے اپوزیشن پر الزامات کی بوچھاڑ، شاعرانہ طرز کے بے بنیادوعدے اور دعوے، بھڑکیلے اور دل لبھانے والے بیانات کے سہارے ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ ان تمام نیتا لوگوں میں سے کسی نے بھی اپنی استعداد اور اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والی ملکی مشکلات کو دور کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ کسی نے بھی بیروزگاری، ماحولیاتی آلودگی، دنیا میں سب سے زیادہ بڑھنے والی آبادی جیسے مسائل پر بات نہیں کی۔ واضح رہے کہ بھارت میں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔
یہاں پھر مودی جی کے خیالات ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ وہ ایک مسئلے پر دل کھول کر بول رہے تھے اور وہ مسئلہ تھا راہول گاندھی کا ایک بیان۔ جس کا جواب مودی صاحب اپنے انٹرویو میں دے رہے تھے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ مودی نے ایک بیان میں خاندانی سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے نہرو خاندان پر تنقید کی تھی۔ اس کے جواب میں راہول گاندھی نے کہا کہ ان کے دادا نے پندرہ سال جیل کاٹی تھی‘ اس کی دادی‘ اندرا گاندھی کو تیس گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا‘ ان کے والد راجیو گاندھی کے بم دھماکے میں ٹکڑے ہو گئے تھے۔ المختصر راہول نے ایک جذباتی بیان دے کر مودی کو جواب دیا بلکہ یوں کہیں کہ حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔ اب اپنے انٹرویو میں مودی صاحب نے دوبارہ خاندانی سیاست کے مضر اثرات بیان کرنا شروع کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندانی سیاست کے نتیجے میں سار ے اختیارات‘ وسائل اور توجہ کا محور بس ایک خاندان بن جاتا ہے۔ عوام تو درکنار‘ پارٹی کے دیگر سینئر لوگ بھی نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد انہوں نے بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ صرف وہ خود اور آنجہانی اٹل بہاری واجپائی دو ایسے وزیر اعظم ہیں جو کسی سیاسی خاندان سے نہیں تھے۔ اپنے اس بیان کو وہ تھوڑا زیادہ بڑا اور چونکا دینے والا بنا سکتے تھے اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ بھارت کے تاریخ میں 52 سال حکومت برہمن وزرائے اعظم نے کی جبکہ مدت پوری کرنے والے غیر برہمن وزرائے اعظم میں صرف دو نام ہیں، اٹل بہاری واجپائی اور وہ خود، مگر وہ اتنی جرأت نہیں کرسکے کہ برہمن ذات کے خلاف کوئی بیان دے سکتے۔ اب بات واضح ہو چکی ہو گی کہ دنیا کی 'دوسری بڑی‘ جمہوریت والے ملک کے حکمرانوں کی گفتگو کا محور کیا ہے۔ واضح رہے کہ چین والے اپنے نظام کو ایک علیحدہ طرز کی جمہوریت کہتے ہیں اور آج کل اس دعوے میں بہت تیزی اور شدت آچکی ہے‘ اس لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا بھارت کا متنازع دعویٰ بھی اب چین کی جانب سے چیلنج ہو چکا ہے۔ اگر کسی بڑے ملک کے غیر سنجیدہ حکمرانوں کا ملک کے اندرونی‘ بالخصوص دیو ہیکل بیرونی مسائل سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہ ہو تو اس ملک کے مستقبل کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت حجم کے اعتبار سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے مگر اس نے صرف جنگی جنون ہی کا رجحان اس خطے میں پروان چڑھایا ہے۔ اس کے تمام پڑوسی اس کی جارحیت سے اپنے آپ کو بچانے پر لگے رہتے ہیں۔یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اگر بھارت ایٹمی طاقت نہ بنتا تو پاکستان بھی اس طاقت کی حصول کی جانب نہ بڑھتا نہ ہی یہ پاکستان کی ترجیحات میں تھا کہ وہ ا یٹمی قوت بنے‘ یہ تو بھارت کے جارحانہ عزائم تھے جن کے نتیجے میں پاکستان میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر بھارت 1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکہ نہ کرتا تو شاید پاکستان کو ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باوجود اس کا ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ یاد رہے کہ پاکستان 1984ء میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا مگر دھماکااس نے چودہ سال بعد بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کیا تھا۔
اب ذرا چین کی طرف چلتے ہیں‘ جس نے جنوبی ایشیا کے ممالک سے دو سال بعد بادشاہت سے آزادی حاصل کی تھی۔ یہ آزادی کے وقت بادشاہت کے بوجھ تلے اتنا زیادہ دبا ہوا تھا کہ وہاں نہ کوئی سسٹم تھا اور نہ کوئی انفراسٹرکچر۔ مطلب ان کے ہاں غربت جنوبی ایشیا سے بھی زیادہ تھی۔ اس حقیقت کا اندازہ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں چھپنے والی اس خبر سے لگائیں کہ ''اب چین کے رہنے والے دو لوگ ملنے پر سلام کرتے ہیں‘‘ ۔ عام شخص کو یہ خبر کبھی بھی سمجھ نہیں آ سکتی اگر اس کا پس منظر نہ پڑھا جائے۔ خبر کی تفصیل میں لکھا تھا کہ چین میں اس سے پہلے کا دور اتنا پسماندہ تھا کہ وہاں جب دو لوگ آپس میں ملتے تھے تو وہ ایک دوسرے سے صرف یہ پوچھتے تھے کہ کیا تم نے کھانا کھا لیا ہے۔اب اندازہ کر لیجیے کہ چین کن حالات میں سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے۔
اب بھارت کے ایک چینل پر چلنے والے ایک پروگرام کا ذکر‘ جس میں اینکر پرسن چیخ چیخ کر بھارت کے اندر بڑھتی غربت اور بیروزگاری کا رونا رو رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ معاشی بہتری محض حکومت کا دعویٰ ہے‘ حقیقت میں ایسی کوئی ویب سائٹ نہیں ‘ کوئی ڈیٹا بیس نہیں جس سے حکومت کو اندرونِ بھارت کے حوالے سے درست اعداد و شمار دستیاب ہو سکیں۔ یہ سن کر ایک خیال بہت شدت سے آیا کہ روٹی کا مسئلہ سب سے زیادہ چین کو درپیش تھا‘ جس کا حال اوپر بیان ہوا ہے مگر پتا نہیں اب کیوں یہ لگ رہا ہے کہ چین والی صورت حال اب بھارت کو درپیش ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں پیدا ہونے والے آدھے سے زیادہ بچوں کا وزن کم ہوتا ہے، کتنے ہی دیہی علاقوں میں لوگ صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ بھارت کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ملک میں اناج کی کمی کی وجہ سے لوگوں سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ ہفتے میں ایک وقت کا کھانا نہ کھائیں۔ باقی حساب اب آپ خود لگا لیں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ بھوکے پیٹ والے دو لوگ جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کا حال نہیں پوچھ پاتے۔