سابقہ سویت یونین سے سابقہ انڈیا تک

بات چل رہی تھی جغرافیائی اعتبار سے جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک بھارت کی ہٹ دھرمی اور جنگی جنون کی‘ جس کے نتیجے میں پورا جنوبی ایشیا پسماندگی‘ بربادی‘ غربت‘ جہالت‘ انتہا پسندی اور اب سب سے بڑھ کر ماحولیاتی خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک بھارت کی وجہ سے اردگرد کے کئی ممالک بھی ماحولیاتی آلودگی کی زد میں ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال بھوٹان ہے جس کے 60 فیصد رقبے پر درخت اور ہریالی موجود ہے اور جہاں درخت کاٹنے پر سخت سزائیں موجود ہیں‘ اس کے باوجود وہ بھارت کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے شدید ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہے۔ کسی نے بالکل درست کہا کہ انگریز نے خطہ چھوڑتے وقت بھارت کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ شاید اسی لیے برطانیہ نے پاکستان سمیت دیگر ریاستوں کو ادھورارکھا۔ کئی آزاد ریاستوں کو اس حال میں چھوڑا کہ بھارت نے بعد میںبہ آسانی ان پر قبضہ کر لیا۔ بغور دیکھیں تو بھارت کو بھی برہمن کے ہاتھوں میں دیا گیا۔ بھارت کے نامور اکانومسٹ امرتیا سین (Amartya Sen) اپنی کتاب''An Uncertain Glory: India and Its Contradictions‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بھارت میں تیس کروڑ لوگ (پاکستان کی کل آبادی سے بھی زائد)ایسے ہیں جو بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔ آپ کو یہ تعداد شاید غیر حقیقی یا مبالغہ آمیز لگے‘ اسی لیے میں نے اس مصنف کی کتاب کا حوالہ دیا ہے‘ جسے نوبیل انعام مل چکا ہے۔ ویسے کم و بیش یہی اعدادو شمار آپ کو بہت ساری ویب سائٹس بھی بتا دیں گی۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اس سطح کا ملک‘ اپنے تئیں‘ چین جیسی طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ اسے اس صدی کی سب سے احمقانہ اور خود کش حرکت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
بھارت اور چین کی سرحد تقریباً چار ہزار کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ دنیا کی طویل ترین سرحدوں میں سے ایک ہے۔ اس تمام سرحدپر کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ مقبوضہ کشمیر سے شروع ہو کر بھارت کی شمال مشرقی سرحدی ریاست ارونا چل پردیش تک پھیلا ہوا ہے۔ کشیدگی اور تنائو کے لحاظ سے بھی یہ دنیا کی سب سے لمبی سرحد ہے۔ اس سرحدی لائن میں ایک چھوٹا سا ملک نیپال بھی آتا ہے۔ یہ ملک کبھی بھارت کی طفیلی ریاست کا درجہ رکھتا تھا مگر اب اس نے بھی بھارت کے تقریباً چارسو مربع کلومیٹرعلاقے پر اپنا حق جتلا دیا ہے۔ اس نے نیا نقشہ اپنی پارلیمنٹ سے منظور بھی کروا لیا ہے۔ نیپال کے اس دعوے کے پیچھے یقینا چین بول رہا ہے؛ البتہ اس دعوے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع کے بعد بھارت کی اب تقریباً تمام سرحدیں متنازع بن چکی ہیں۔ بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ اس کا کوئی سرحدی تنازع نہیں مگر یہ درست نہیں۔ بھارت‘ بنگلہ سرحد بھی مکمل طے شدہ نہیں ہے۔ بھارت کی چین کے بعد دوسری بڑی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس میں کشمیر‘ سیاچن اور سر کریک کے علاقے متنازع ہیں۔ اس کے علاوہ جوناگڑھ اور مناودر کی ریاستوں پر بھی تنازع ہے۔ یہ دونوں ریاستیں بھارت کی سمندری سرحد پر واقع اور اب ریاست گجرات کا حصہ ہیں۔ ان ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا‘ مگر بھارت نے ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان ریاستوں کے سابق راجائوں کی فیملی آج بھی اپنے آپ کو پاکستان کا حصہ تصور کرتی ہے اور اس کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔
پہلے بھی کہا گیا کہ برطانیہ کے جانے کے بعد اس خطے میں عمل دخل اوربالواسطہ حکم امریکا کا چلنا شروع ہو گیا تھا۔ امریکا تاحال اس خطے کو اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس بھیانک حقیقت کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے دورۂ چین کے دوران میڈیا سے بات چیت میں کھل کر کیا۔ اس بات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ امریکا مغربی ممالک کے بلاک کی سربراہی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ مغربی بلاک بالخصوص امریکا اور برطانیہ ایشیا یا مشرق سے تاریخی عداوت رکھتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں عالمی سطح کی طاقتیں مغرب کے علاوہ صرف ایشیا میں ہیں۔واضح رہے کہ دنیا کی اولین ترین عالمی طاقتیں مشرق میں ہی تھیں۔ اس کے بعد‘ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں‘ پہلے یورپی ممالک اور پھر امریکا عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرے۔ اس دوران روس بھی ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا جس کی شکل میں مغربی سامراج کو ایک بڑا چیلنج درپیش رہا۔ روس نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے لے کر 1990ء تک مغربی بلاک کا خوب مقابلہ کیا۔ اب چین کی شکل میں ایک بار پھر امریکا کی سربراہی میں مغرب کی حاکمیت اوراجارہ داری کو خطرہ ہے‘ جو شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اب واضح طور پر مشرق اور مغرب کی کشمکش شروع ہو چکی ہے ۔ اس سارے قضیے میں ایک نہایت اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ یورپ کے کئی ممالک کا جھکائو چین کی طرف ہونا شروع ہوچکا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ یورپی ممالک اب امریکا کا مکمل ساتھ دینے کے بجائے چین سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ چین میں جاری سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا سلسلہ امریکا نے شروع کیا تھا مگر وہ بڑے ممالک میں سے صرف کینیڈا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا کو ہی شامل کر سکا، بھارت نے بھی بائیکاٹ کیا مگر بہانہ کچھ اور بنایا۔یہ ایک طرح سے امریکا کی شکست اور چین کی فتح ہے۔ چین انتہائی تیزی سے دنیا میں اپنے پر پھیلا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ ایشیا کے ممالک کو ساتھ اپنے ساتھ ملائے۔ چین ایشیا کے ممالک کی اسی طرح سے فکر کرتا ہے جس طرح امریکا نیٹو ممالک کی کرتا ہے؛ البتہ یہ بات چین کی تعریف سے زیادہ اس کی اپنی ضرورت اور خواہش کے زمرے میں آتی ہے۔ چین اپنے ہمسایہ ممالک کی تعدا د کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کی زمینی سرحد چودہ ممالک کے ساتھ ملتی ہے۔ اب کسی بھی بڑی طاقت کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو اس کے ہمسایہ ممالک بالکل چھوٹے اور بے اثر ہوں‘ لیکن اگر یہ ممالک بڑے اور خاص طور پر بڑی عسکری طاقت ہوں تو وہاں معاشی خوشحالی بھی ہو۔ بات بہت صاف ہے کہ اگر وہاں معاشی خوشحالی اور ترقی نہ ہو گی تو ہر وقت افراتفری اور جنگی صورتحال کا خدشہ موجود رہے گا جس کا لامحالہ اثر پورے خطے کی صورتحال پر پڑے گا۔ اس سلسلے میں افغانستان کی صورت میں چین کے سامنے ایک بڑا چیلنج تھا اور کسی حد تک اب بھی ہے۔ اس کے بعد سی پیک منصوبے کے باعث پاکستان چین کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اس خطے کا واحد ملک ہے جو ابھی تک سی پیک سمیت چین کے کسی منصوبے کا حصہ نہیں بنا بلکہ ابھی تک ان کی مخالفت اور خرابی پر اپنی توانائیاں اور سرمایہ خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اسی سلسلے کی ایک تلخ کڑی ہے۔
بات شروع ہوئی تھی بھارت کی صورتحال اور حرکات سے‘ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہ تاحال چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مثبت ڈگر تو درکنار‘ نیوٹرل بھی نہیں کر پا رہا۔ برطانیہ نے تو اس خطے کو دو صدیوں تک لوٹااوربرباد کیا مگر بھارت اس خطے کے اندر ایک خود کش بمبار کی طرح تباہی مچانے کے درپے ہے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ گورے نے اپنی مرضی اور مطلب کیلئے اس خطے کو خراب کرنے کا جو سلسلہ براہِ راست شروع کیا تھا‘ بھارت اس سلسلے کو بالواسطہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چین کو بھارت کی شکل میں جو پیچیدگی اورسپیڈ بریکر ملا ہے‘ چین اس کی وجہ سے رکنے والا نہیں ہے۔ چین براہِ راست بھارت سے سرحدی تنازعات کی وجہ سے بدستور اس کے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ وہ خالصتان کی حمایت میں بھی کھڑا نظر آتا ہے۔ چین کے بانی مائو زے تنگ کے ماننے والے نکسل باری بھارت کے دو سو ضلعوں میں چار دہائیوں سے علیحدگی کے لیے سرگرم ہیں۔ اب بھارت اپنی احمقانہ اور خود کش حرکتوں کی وجہ سے اپنے ہی ٹکڑے کرتا نظر آ رہا ہے۔ میری نظر میں اگر روش نہ بدلی گئی تو بھارت کیلئے زیادہ سے زیادہ پانچ سال بچے ہیں۔ سابقہ سویت یونین کے بعد اب سابقہ انڈیا کی اصطلاح اور نقشہ بھی کتابوں اور تحریروں کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں