برصغیر کی بربادی اور برہمن بھارت… (2)

گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا جنوبی ایشیا میں بھارت کی برہمن سوچ پر مبنی پالیسیوں کا‘ جن کے نتیجے میں آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی یہ خطہ پسماندگی اور جنگی جنون کا منظر پیش کرتا ہے۔ واضح رہے کہ براعظم افریقہ کے بیشتر ممالک کے بعد یہی خطہ دنیا میں گھبراہٹ اور عدم استحکام کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ ہمارا مدعا یا مقدمہ یہ چل رہا ہے کہ بھارت جو اس علاقے کا ایک بڑا ملک ہے‘ بلکہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے‘ اس علاقے کا احوال اور یہاں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا رخ موڑنے یا طے کرنے کا ذمہ دار بھی بڑی حد تک وہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو چھوڑ کر دیگر چھوٹے ممالک‘ جو بھارت کے تناسب سے تو بہت ہی چھوٹے ہیں‘ کے ساتھ بھارت کے تعلقات اور پالیسیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ کالم میں بھارت کے ناروا سلوک کا شکار ہونے والے دو ممالک‘ نیپال اور سری لنکا کا ذکر کیا گیا تھا۔ آج اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
بھارت کا مالدیپ سے سلوک: سری لنکا کی طرح مالدیپ بھی چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ایسا ملک ہے جس کا صرف ایک‘ بھارت ہی سمندری پڑوسی ہے۔ بھارت کے تجارتی بحری جہاز اپنی سمندری حدود کے علاوہ مالدیپ کی حدود سے بھی گزرتے ہیں۔ یہ ملک بھی برطانیہ کی کالونی رہا۔ اسے برطانیہ سے آزادی 1965ء میں ملی تھی۔ اُس کے بعد یہ بھارت کے زیر اثر چلا گیا۔ کسی قسم کی فوجی قوت نہ ہونے اور آبادی و رقبہ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے یہ ملک شروع سے ہی بھارت کے رحم وکرم پر رہا ہے۔ 1988ء میں ایک ایسا واقعہ یہاں پیش آیا جس کی بدولت اس خطے پر بھارت نے اپنی گرفت خاصی مضبوط کر لی۔ ہوا کچھ یوں کہ مبینہ طور پر سری لنکا سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے ایک ضلع بلکہ ایک تحصیل کے مماثل اس چھوٹے سے ملک کے حکمران کو یرغمال بنا کر اس ملک کو مفلوج کر دیا۔ جب مبینہ سری لنکن شرپسندوں نے مالدیپ کو یرغمال بنایا تو بھارتی فوج نے مالدیپ میں آپریشن کیا۔ ''آپریشن کیکٹس‘‘ نامی ڈرامے میں چند مسلح یرغمالیوںکو مار دیا گیا‘ کچھ فرار ہو گئے۔ اس ڈرامے کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا‘ مالدیپ کو بھارت کے زیرِ اثر لانا۔ اس کے بعد بھارتی فوج سکیورٹی کے نام پر اس ملک میں مستقل قیام پذیر ہو گئی؛ تاہم اب گزشتہ سال سے مالدیپ کے لوگ بھارتی فوج کی مالدیپ میں موجودگی کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔ بھارتی انخلا کے مطالبے پر چلنے والی اس تحریک کا نام ''انڈیا آئوٹ‘‘ ہے۔ مالدیپ کا نجات دہندہ بھی چین ہی ہے۔ سری لنکا کی طرح‘ مالدیپ نے بھی اپنی ایک بندرگاہ لیز پر چین کو دے رکھی ہے۔ بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے کے بعد مالدیپ بھی سری لنکا کی طرز پر اپنے آپ میں ایک قوت محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مالدیپ میں بھارت کے خلاف آئے روز مظاہرے ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مالدیپ کی پانچ لاکھ چالیس ہزار کی کل آبادی میں 98فیصد سے زائد مسلم ہیں۔
بھارت اور بنگلہ دیش‘ نفرت و محبت کی شدت کا تعلق: سب سے پہلے تو ذکر بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کے شرپسند انہ اور تخریبی کردار کا۔ بظاہر متحارب مگر پاکستان کے بڑے مسلم ملک ہونے کے ناتے دنیا کی اس وقت کی بڑی طاقتیں اس بات پر یکسو تھیں کہ اس کو دو لخت کر دیا جائے۔ دو عالمی طاقتوں کی مدد سے بنگلہ دیش میں شورش کو ہوا دی گئی۔ ہمارے یہاں ایک انتہائی اہم بات کا ذکر بہت کم کیا گیا ہے‘ اور یہ بات ہے کہ روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے اہلکاروں کے کتابی اور انٹرویوزکی شکل میں کیے گئے انکشافات کی‘ جن سے پتا چلتا ہے کہ شیخ مجیب روس کی ایجنسی کے پے رول پر تھا۔ البتہ قیامِ بنگلہ دیش کے بعد روسی ایجنسی بھی شیخ مجیب کے قتل میں ملوث تھی۔ کے جی بی کے سابق اہلکاروں کے انکشافات کے مطابق بھارت کے راستے ہر طرح کی مالی، اسلحی اور دیگر مدد بشمول پرنٹ موادسابقہ مشرقی پاکستان پہنچائی جاتی تھی۔ سانحہ اکہتر سے آگے بڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد‘ آج تک بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے سرحدی تنازعات کے ساتھ ساتھ پانی کی تقسیم اور سمگلنگ جیسے مسائل پر تنازع پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ''شیخ مجیب‘‘ نامی جزیرے پر بھی بھارت اور بنگلہ دیش میں تنازع تا حال طے نہیں پا سکا ہے۔ بنگلہ دیش کے حکمرانوں اور عوام میں بھارت سے متعلق دو مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں موجودہ حکمران پارٹی بھارت سے رومانس رکھتی ہے جبکہ خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور دیگر جماعتیں بھارت کو سخت نا پسند کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے گزشتہ انتخابات‘ جس کے نتیجے میں حسینہ واجدنے ناقابل یقین حد تک سیٹیں حاصل کیں‘ میں مبینہ طور پر بھارت ایجنسی نے اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا تھا؛ تاہم اب واضح طور پر بنگلہ دیش کے رویے میں تبدیلی آرہی ہے۔ اس تبدیلی کا محرک بھی چین ہی بن رہا ہے۔ چین نے بنگلہ دیش کو گارمنٹس کی مصنوعات برآمد کرنے میں متعدد رعایتیں دی ہیں جس کے بعد بنگلہ دیش اب بھارت کے اثر سے کافی حد تک نکل چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ مجیب کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ابھی تک پرانے بھارتی تعلق کو نبھا رہی ہیں‘ جیسے ہی یہ حکومت جائے گی‘ بنگلہ دیش واضح طور بھارت سے دور ہوکرچین کے مزید قریب ہو جائے گا۔ چین بنگلہ دیش کی ایک بندر گاہ کو ترقی دینے کے منصوبے پر بھی کام کر رہا ہے جبکہ بنگلہ دیش نے چین کو اپنی دو بڑی بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
بھوٹان‘ بھارت تعلقات: بھوٹان 38ہزار مربع کلومیٹر اور سات لاکھ آبادی کے ساتھ چین اور بھارت کے مابین واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کی خوش قسمتی ہے کہ یہ بھارت کے غاصبانہ تسلط سے بچ گیا وگرنہ 'سکم‘ کی طرح اس پر بھی بھارت کا قبضہ ہو جانا تھا۔ بھوٹان کو بھی بھارت سے ایک سرحدی تنازع کا معاملہ درپیش ہے۔ یہ 'ڈوکلام‘ نام کا علاقہ ہے۔ یہیں پر بھارت‘ بھوٹان اور چین کی سرحد ملتی ہے۔ چین اس علاقے میں سڑک بنا رہا تھا تو بھارت نے حسبِ روایت اس پر تنازع شروع کر دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس علاقے میں بھارت اور چین کی فوجوں کی کشیدگی کی خبریں آتی رہی ہیں۔ یہاں پر سرحدی کشیدگی میں گزشتہ دو سالوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ چین کی طرف سے سڑک بنانے پر بھوٹان کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اس بات پرخوش ہے کہ اس کا بھارت پر انحصار ختم ہو جائے گا۔ چین ہی کی تھپکی ملنے پر اب بھوٹان نے بھارت جانے والے چھوٹے چھوٹے ندی نالوں پر نہ صرف اپنا حق جتا دیا ہے بلکہ اب ان کا پانی بھی روکنا شروع کر دیا ہے۔ نیپال کی طرح‘ بھوٹان کا اس قسم کا رویہ لامحالہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ یہ ملک تسلط نمابھارتی اثر سے نکلنا چاہتا ہے۔ ایک بات یہاں پر یاد رکھنے کی یہ ہے کہ اس چھوٹے سے ملک کے ساتھ بھی دو علاقوں Sarbhang اور Geylengphngپر بھارت کا سرحدی تنازع ہے۔ یہاں پر بائونڈری واضح نہیں ہے۔ بھوٹان کے یہ دونوں علاقے بھارتی ریاست ارونا چل پردیش کی سرحد پر ہیں۔
آخر میں ذکر میانمار کا‘ جو اب بھی اپنے پرانے 'برما‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ملک سے متعلق یہ مت سمجھ بیٹھئے گا کہ اس کے ساتھ بھارت کا کوئی تنازع نہیں۔ یہ بھارت کے شمال مشرق میں تین ریاستوں کے ساتھ سرحد رکھتا ہے۔ اگرچہ بھارت کا ان ریاستوں پر کنٹرول بہت کم ہے جس کی وجہ یہاں چلنے والی علیحدگی کی تحریکیں ہیں لیکن اس کے باوجود Kabaw Valeey، Moreh اور Tamou کے علاقوں پر حسبِ توفیق بھارت کا سرحدی تنازع موجود ہے۔
اب آپ کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہوگا کہ پاکستان اور چین کو الگ رکھ دیں‘ تب بھی بھارت اس علاقے کا مردِ بیمار ہے۔ چونکہ کسی بھی ملک کے لیے انگلش میں مونث کی جنس استعمال ہوتی ہے‘ اس لیے بھارت کو مردِ بیمار کے بجائے ''جنوبی ایشیا کی بیماری‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں