سب سے پہلی بات یہ کہ یوکرین رقبہ کے اعتبار سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے دوسرا نہیں۔اس بات کی وضاحت اس لیے ضروری پیش آئی کہ سوشل میڈیا کے دانشور اس کو دوسرا بڑا ملک اس لئے لکھ رہے ہیں کیونکہ وہ روس کو پہلا ملک تصور کر رہے ہیںجبکہ روس کا بہت تھوڑا علاقہ یورپ میں آتا ہے۔ اس تصحیح کے اندر ہی ایک خبری حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ یورپ والے روس کو کسی بھی طور اپنے جیسا نہیں سمجھتے اور اسے مشرق ہی کا نمائندہ ملک گردانتے ہیں۔یورپ یا مغربی دنیا کئی صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کر رہی ہے ۔مغربی دنیا والے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو عقیدے کی طرح مانتے ہیں ‘اسی طرح انسانی حقوق اورحقوقِ نسواں سمیت جدید دور میں کئی نظریات کے سرخیل ہیںلیکن ایک بات بہت واضح رہنی چاہیے کہ وہ ان باتوں کا خیال صرف اپنی مقامی آبادی کے لیے کرتے ہیں۔اگر ایسا دہرا بلکہ متضاد رویہ نہ ہو تو افغانستان پر قابض ہونے کے لیے کئے گئے حملے کے بعد بھی اسی طرح نہ سہی ‘اس سے کم تر درجے کا ہی رد عمل یورپ کے ممالک کی طرف سے آنا چاہیے تھاجبکہ روس کی فوجی کارروائیاں صرف تنصیبات تک محدود ہیں‘لیکن امریکہ نے افغانستان میں ہر اس ذات پر حملہ کیا تھا جس میں جان تھی۔اسی قسم کا سلوک عراق اور شام میں ہوا بلکہ اب بھی جاری ہے۔اس کے علاوہ بھی مسلم و ایشیائی ممالک میں کسی نہ کسی طرح مغرب افراتفری‘ہیجان اور جنگی کیفیت کو نہ صرف پیدا کرتا ہے بلکہ اسے طول دینے کے بھی ہر ممکن اقدامات کرتا ہے مگرسب کو روس اس وقت سب سے زیادہ کھٹکا تھا جب وہاں اشتراکیت کا انقلاب ابھی شروع ہی ہوا تھا۔یہ سب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوا تھا ۔1917ء میں روس دنیا کا پہلا ملک تھاجہاں مغربی دنیا کو ہلا دینے والاسرخ انقلاب آیا تھا ۔یہ سرخ انقلاب مغرب کے معاشی اور سیاسی نظام سے مختلف ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر متصادم تھا۔ چین 1949ء میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا جہاں سرخ انقلاب آیا۔اس بات سے دنیا ایک دفعہ ہل کر رہ گئی کیونکہ روس رقبے کے اعتبار سے جبکہ چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا ‘یہ درجے آج بھی برقرارہیں‘اسی لئے روس اور چین کو کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ممالک نہیں بلکہ براعظم ہیں۔
اس بات کو مزید واضح اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ روس رقبے کے اعتبار سے پورے یورپ سے بڑا ہے جبکہ چین آبادی کے اعتبار سے امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا سے بڑا ہے۔ اب تاریخ ایک ایسے موڑ پر آگئی ہے جس نے مغربی دنیا کو مروڑ کر رکھ دیا ہے جہاں‘ روس اور چین ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ روس کی فوج کشی کے بعد چین نے اپنا سفارتی بیان مکمل طور روس کے حق میں دیا ہے۔اسی کا اثر ہے کہ یورپ کے تمام ممالک مل کر روس کی مخالفت کا سوچ بھی نہیں پائے۔ اس وقت جنگی میدان میں کیا ہو رہا ہے اس کو جاننے کے لیے یوکرین کے صدر کی تقریر کے الفاظ سب سے زیادہ معنی خیز ہیںجس میں انہوں نے کہا کہ میں نے یورپ کے 27ممالک کے سربراہان سے(مدد کے لیے) بات کرنے کی کوشش کی مگر ہر کوئی ڈرا ہوا ہے۔اب اس موقع پر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر عملی طور پر ختم ہوگیا ہے جبکہ اس خاتمے کا آغاذ چین پہلے ہی کر چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی روس کے سرخ انقلاب کی جس کے نتیجے میں وہ سالوں میں عالمی طاقت بن گیا۔دوسری عالمی جنگ میں نقصان اٹھایا مگر فاتح رہا۔اس جنگ کے بعدامریکہ اور روس دنیا کی دو طاقتوں کے طور پر ابھرے‘اور ان دونوں کے درمیاں سرد جنگ کے نام سے طویل ترین جنگ لڑی گئی۔اس جنگ کے نتیجے میں روس چودہ حصوں میں بٹ گیا‘یوکرین انہی میں سے ایک بڑا حصہ ہے۔روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں سب سے پہلا اور بڑا محاذ یورپ ہی تھا ۔دونوں طاقتیں یورپ کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھیںلیکن اکثریت امریکہ کے ساتھ مل گئی اور ایک اتحاد بن گیا جس کا نام نیٹو ہے۔یہ دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا عسکری اتحاد ہے ۔اس کا ممبر بننے کا مطلب ہے کسی ایک ممبر پر حملے کا مطلب تمام ممبرز پر حملہ ۔اس کودفاع اور سکیورٹی کی چھتری بھی کہا جاتا ہے ۔اب آج کی دنیا میں جو نئی سرد جنگ امریکہ اور چین کے درمیان جاری ہے اس کا پہلا گرم محاذ یورپ میں کھل گیا ہے ۔واضح رہے پرانی سرد جنگ میں تمام گرم محاذیورپ اور امریکہ سے دور ہی کھلے تھے جن میں سے سب سے زیادہ ایشیا میں تھے۔یہاں ایک بات بہت اہم ہے جو کچھ اس طرح سے ہے کہ اس جنگ نما صورت حال کے موقع پراس کو '' ہمار ے بر اعظم پر حملہ‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔جنگ کہیں بھی ہو نقصان دہ ہوتی ہے لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ پہلی دفعہ اس کے محرکات کا سامنا اور تجربہ کر رہا ہے۔امید ہے وہاں کے لوگوں کو دنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی جنگوںبلکہ جنگ نما کیفیات کے بھیانک اثرات اور محسوسات کا اندازہ ہو رہا ہو گا۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے جو اس طرح ہے کہ پہلی دونوں عالمی جنگوں میں یورپ والے آپس میں لڑے تھے یا یوں کہہ لیں کہ ان دونوں جنگوں کا آغاز انہوں نے خود کیا تھا‘دیگر ممالک بعد میں شامل ہوئے تھے ‘اسی طرح یورپ کے کسی بھی ملک پر کسی ایشیائی ملک نے حملہ نہیں کیا تھا۔اس لیے یوکرین پر روس کی فوج کشی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں ایک ایشیائی طاقت نے یورپ کو اپنی طاقت ‘جرأت اور مرضی دکھائی ہے۔یورپی مبصر اور میڈیا اس بات کو اپنی خفت محسوس کرتے ہوئے اس کا ذکرکسی صورت بھی نہیں کر رہے۔اس سے پہلے آخری دفعہ مسلمان ہی ایک فاتح کے طور یورپ میں گئے تھے۔اس جنگی کیفیت بلکہ اس تاریخی موڑ کے مضمرات بڑے معنی خیز ہیں۔اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب اور اثرات علامتی اور عملی دونوں ہی نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔روس اس کا اختتام وہاں اپنی مرضی کی نئی حکومت قائم کر کے یا یوکرین کو حصوں میں تقسیم کر کے کرے‘لیکن یورپ والے بھی صرف امریکہ یا مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے مشرق کی طاقتوں ‘روس اور چین ‘کی طرف دیکھنے پر بھی مجبور ہو جائیں گے‘بلکہ ہو چکے ہیں۔
اس فوج کشی کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوا ہے کیونکہ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دھیان‘وسائل اور وقت روس پر لگے گا ۔اس کو عسکری اصطلاح میں Engageہونا کہا جاتا ہے اور جو بھی طاقت‘ چاہے جتنی ہی بڑی ہو ‘جتنے زیادہ محاذوں پر Engage ہوتی ہے اس کی سکت اور صلاحیت اتنی ہی کم ہوتی ہے۔اب یہاں ایک اہم ترین محاذ یا کشمکش کچھ اس طرح بنتی نظر آرہی ہے کہ کون سے یورپی ملک اپنا جھکائو مشرق کی طرف کرتے ہیں ۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ابھی تک یورپ کے کئی ممالک نے روس کے اس عمل کی نہ صرف مذمت نہیں کی بلکہ غیر جانبدارانہ بیان تک نہیں دیا۔یہاں روس کے صدر کے دھمکی خیز بیان کا ذکر بھی لامحالہ آتا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ اگر کوئی روس کے ساتھ ٹکرایا تو اس کو وہ سبق سکھایا جائے گا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہوگی۔انہوں نے نیٹو کے تمام ممبرز کو اشارہ کرتے ہوئے‘ایٹمی جنگ کی بھی دھمکی دی ۔
ورلڈ آرڈر کا مطلب دنیا کی ترتیب اور دنیا پر حکمرانی دونوں ہوتے ہیں۔اب ایک بات تو چمکتے سورج کی طرح ظاہرہے کہ جہاں امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈرعملی طور پر ختم ہو گیا ہے تو اس کے ساتھ ہی دنیا میں اولڈ ورلڈ آرڈر واپس آنا شروع ہو گیا ہے جو مشرق یا ایشیا کا ہی بنتا ہے۔