کوئی ملک ہو یا کوئی انسان‘ سب کی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ بظاہر دِکھتا کیسا ہے‘ کن لوگوں سے ملتا ہے‘ اس کے جاننے والے‘ دوست احباب کون ہیں‘ فی زمانہ رائج چیزوں میں سے کون سی وہ استعمال کرتا ہے جبکہ دوسرا پہلو اصل اور حقیقی؛ تاہم قدرے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس میں اس کی آمدن، آمدن میں مستقل مزاجی اور سالانہ اضافہ وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس نے کسی کا قرض تو نہیں دینا اور اگر دینا ہے تو وہ قرض یا اس کی قسط اس کی کل آمدنی کا کتنے فیصد لے جاتی ہے۔ اسی طرح وہ اپنے حقیقی تعلقات کی بنیاد پر کتنا مطمئن اور خوش ہے، وہ اندرونی طور پر کسی کشمکش میں تو مبتلا نہیں ہے‘ نیز یہ کہ اس کے اپنے پڑوسیوں اور دیگر لوگوں سے تعلقات کیسے ہیں‘ اس کے اردگرد کے لوگ اس سے خطرہ تو محسوس نہیں کرتے؟ کرتے ہیں تو کس قدر !کرکٹ ہو یا کوئی اور کھیل‘ ان کا تعلق پہلی کیٹگری سے ہے۔ آپ چین کو دیکھ لیں جہاں حال ہی میں سرمائی اولمپکس منعقد ہوئے۔ امریکا اور اس کے حواری چند ممالک نے ان کھیلوں کا بائیکاٹ کیا جس سے اس ایونٹ کی شہرت کو ہلکا سا دھچکا ضرور لگامگر سفارتکاری کے اعتبار سے سب کی نظریں ان کھیلوں پر جمی تھیں۔ اسی قسم کا ایک سفارتی دھچکا پاکستان کھیلوں بالخصوص کرکٹ کے عالمی مقابلے اپنے ہاں نہ ہونے کی وجہ سے محسوس کر رہا تھا۔ اس کے لیے پہلے چھوٹی ٹیموںکو راضی کیا گیا اور یہاں پر سیریز کھیلی گئیں۔ اس کے بعد پی ایس ایل کے کچھ میچز اندرونِ ملک کرائے گئے اور پھر بالآخر یہ ایونٹ پورے کا پورا ہی پاکستان میں ہونے لگا۔ اس کے بعد بڑی کرکٹ ٹیموں پر فوکس کیا گیا جس کے بعد‘ اب آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان کی سرزمین پر کرکٹ سیریز کھیل رہی ہے۔ اب پاکستان اس سفارتی محاذ پر کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ اس ساری کشمکش میں سب سے بڑا (مجرم نما) ملزم بھارت ہی نکلا جس نے پہلے نیوزی لینڈ کا دورہ ملتوی کرانے کا سامان مہیا کیا اور اب آسٹریلوی دورے کو ناکام بنانے کی ایک ناکام کوشش کی۔ بھارت کی ان مذموم کوششوں پر بھارت نواز لابی پتا نہیں کیوں خاموشی اختیار کیے رکھتی ہے۔ بھارت نے اپنے طور پر پاکستان میں بحال ہوتی انٹرنیشنل کرکٹ کے امیج کو سبوتاژ کرنے کے لیے پہلے ویسٹ انڈیز اور بعد میں سری لنکا کے ساتھ ایک سیریز کا انعقاد بھی کیا مگر پھر بھی پی ایس ایل کا جادو کسی طور کم نہیں ہو سکا۔
اب بات خالص کھیل کے نقطۂ نظر سے! اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایس ایل کے مقابلوںکا معیار ہر اعتبار سے بین الاقوامی تھا جس کی بنیادی وجہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی تعداد اور معیار ہے‘ یعنی اول تو ہر ٹیم میں پاکستان کے وہ کھلاڑی شامل تھے جو عالمی مقابلوں میں شرکت کر چکے ہیں اس کے علاوہ پاکستان کے مقامی کھلاڑیوں کی کارکردگی اور معیار بھی کسی سے کم نہ تھا۔ اس کی ایک مثال پشاور زلمی کا ایک مقابلہ تھا جس میں صرف ایک غیر ملکی کھلاڑی شامل تھا مگر اس کے باوجود مقابلہ بھرپور رہا۔ پاکستان کے بہت سے مقامی فاسٹ بائولرز بھارت کے عالمی فاسٹ بائولرز سے بہتر رفتار پر گیند پھینکتے رہے۔ اس کے ساتھ ایک چیز جو نمایاں طور پر نظر آئی وہ ابھرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کی آل رائونڈ کارکردگی تھی۔ اس سیریز کی ایک اور خاص بات وہ مقابلے تھے جن میں سٹیڈیم 'ہائوس فل‘ تھا۔ ابتدائی طور پر کراچی میں ہوئے میچز میں سٹیڈیم پورا بھرنے کی اجازت نہیں تھی مگر بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی اور زندہ دلانِ لاہور نے کھیلوں سے متعلق اپنے جنون کا ایک دفعہ پھرکھل کر اظہار کیا۔
ان مقابلوں کے ذریعے سفارت کاری کس طرح کی گئی‘ اس کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ تمام میچز کے دوران ''ہمارے ہیروز‘‘ کے عنوان سے کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں سے وابستہ پاکستان کے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا تعارف بھی کرایا گیا۔ ان کھلاڑیوں میں نمایاں طور پر خواتین کھلاڑی بھی شامل تھیں۔ خواتین کی بھرپور شمولیت ہمیں میچز میں کمنٹیٹرز کی شکل میں بھی نظر آئی ۔ خواتین کمنٹیٹرز کمنٹری کے علاوہ میچوں پر ماہرانہ تبصرہ کرتی ہوئی بھی دکھائی دیں۔ ان میں بیشتر پاکستان کی سابقہ اور موجودہ خواتین کرکٹرز تھیں۔ پاکستان میں خواتین ہر طرح سے مردوں کے برابر ہیں اور اس کا ایک اظہار تماشائیوں میں خواتین کی کثرت سے شرکت سے بھی ہو رہا تھا۔ پی ایس ایل کی مقبولیت کا اندازہ کمرشلز کے زاویے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کھلاڑیوں کے یونیفارم پر ایک وقت میں چھ سے آٹھ کمرشل لوگوز نظر آتے تھے۔ مقامی چینلز کے ساتھ ساتھ ان مقابلوں کو عالمی نشریاتی اداروں نے بھی بھرپور کوریج دی۔ اس کوریج سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ایس ایل کی صورت میں پاکستان کی سفارتکاری کتنی مؤثر رہی۔ اسی چیز کو سافٹ امیج کا نام دیا جاتا ہے؛ البتہ اس سپر لیگ کا انعقاد اتنا بھرپور تھا کہ بجا طور پر اس امیج کو سافٹ نہیں بلکہ سٹرونگ اور سولڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔
کرکٹ لیگ کے کچھ مزید پہلوئوں پر بھی بات کرتے ہیں۔ ایک بات جس کی اس لیگ سے قبل بازگشت سنائی دی وہ یہ تھی کہ ترکی اور چین کے کچھ کھلاڑیوں کو بھی ان مقابلوں میں شریک کیا جائے گا مگر یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ اس معاملے میں یقینا مذکورہ ممالک کی دلچسپی اور سفارت کاری بھی پوشیدہ ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان اور پشاور زلمی کے اونر جاوید آفریدی کی کچھ چینی کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر بھی جاری کی گئی تھیں۔ البتہ امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے پی ایس ایل ایڈیشن میں ہمیں ایسے ممالک کے کھلاڑی بھی دیکھنے کو ملیں گے جن کی کرکٹ ٹیمیں عالمی مقابلوں کا حصہ نہیں ہیں۔ امریکا کے برعکس‘ عوام کی واضح اکثریت ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے چین کی دلدادہ ہے۔ پتا نہیں کیوں سفارت کاری کا یہ اہم موقع اس بار ضائع کر دیا گیا۔ پی ایس ایل میچز میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ لاہورمیں ہونے والے ایک میچ میں امریکا کے لاہور قونصلیٹ کی ایک اہم عہدیدار بھی میچ دیکھنے آئی تھیں۔ کمنٹیٹرز نے ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ اس سے پہلے لاہور ہی میں امریکی قونصلیٹ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے تعاون سے ایک مقامی کالج میں خواتین کا کرکٹ کا ایک تربیتی کیمپ بھی لگایا تھا۔
عالمی سطح پر ففتھ جنریشن وار فیئر کی جنگ ہر ممکنہ محاذ پر لڑی جا رہی ہے۔ اس میں کسی بھی قوم کا حوصلہ پست کرنا یا اس میں مایوسی پیدا کرنا ایک اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ ہر قوم سے متعلق کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ اس کی وابستگی جذباتی بلکہ جنونی حد تک ہوتی ہے۔ کچھ کھیل بھی اس کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ پورے جنوبی ایشیا میں کرکٹ سے لوگوں کی وابستگی اسی قسم کی ہے، حالانکہ کرکٹ اس خطے کے کسی بھی ملک کا قومی کھیل نہیں ہے۔ اس وقت آسٹریلیا کے ساتھ راولپنڈی میں‘ چوبیس سال بعد‘ پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا ہے۔ اگرچہ ٹیسٹ میچز طویل دورانیے کی وجہ سے عوام کی دلچسپی کا مرکز نہیں رہے مگر ان میچوں میں بھی شائقین خاصی دلچسپی لے رہے ہیں؛ البتہ ایک روزہ میچ بالعموم اور ٹی ٹونٹی بالخصوص شائقین کی بھرپور توجہ کا محور ہوتے ہیں۔ ان میچز میں ایک گیند بھی عوام اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ موبائل فون کی مدد سے میچ دیکھنے کی سہولت کے باعث اب تو شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو کرکٹ کے جادوئی اثر سے باہر نکل سکے۔ سیاسی ماہرین اس طرح کی تفریح کے ذریعے عوام کو خوش یا مصروف رکھنے کو ''مصنوعی غذا‘‘ کہتے ہیں؛ البتہ یہ اصطلاح بھارت کے لیے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ بھارت میں ٹی ٹونٹی کرکٹ لیگ کئی کئی ماہ تک جاری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی مقابلوں میں ''فکسڈ میچز‘‘ کے ذریعے بھارت کو جتوانے کی حکومتی سطح پر کوششوں کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ نجانے وہ وقت کب آئے گا جب اس خطے کے لوگ اپنے اصل معاشی، سماجی اور ماحولیاتی مسائل سے‘ ٹی ٹونٹی نہ سہی‘ ایک ٹیسٹ میچ کی رفتار سے ہی‘ نبرد آزما ہوں گے۔