عورتوں کے حقوق کا پہلا منشور !

مارچ کا مہینہ جہاں بہار کے موسم کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے‘ وہیں اس مہینے میں خواتین کا عالمی دن بھی دنیا بھر میں‘ ہر سطح پر‘ ریاستی سرپرستی میں بھرپور انداز میں منایا جاتاہے۔ اس حوالے سے پاکستان ایک منفرد ملک اس لیے ہے کہ یہاں اس دن کی اہمیت، معنی اور تاریخ جانے بغیر ایک طبقہ اس کی مخالفت کرنے لگتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اس کے بے ڈھنگے مفاہیم اور خواتین کے حقوق کے بجائے بے لگامی کی طرز پر آزادی کا نعرہ لگا کر اس کو متنازع بنا دیتا ہے۔ آج ہم ایک ایسی حقیقت سے آشنا ہونے کی کوشش کریں گے جس سے اس دن کی مناسبت سے ایک نیا تصور اجاگر ہو گا۔ کوشش کی جائے گی کہ اس کا ایسا رخ پیش کیا جائے کہ اس دن کی مخالفت کرنے والی دائیں بازو کی جماعتیں بالخصوص‘ اصل حقیقت اوراس کی اہمیت کو مدنظررکھتے ہوئے اس کو عورت کی آزادی، خود مختاری اور مرد کی برابری ہی نہیں بلکہ بہتر معاشی و سماجی حیثیت دینے کے عزم کے اعادے کے طور پر اس دن کو منا سکیں۔
یورپ میں آنے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں شہر آباد ہوئے اور اس شہری زندگی نے ازل سے دوسرے درجے کے فرد کے طور پر زندہ رہنے والی عورت کو اپنے مصلوب حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس سلسلے کی ابتداء 1880ء کی دہائی میں دنیا کی اول ترین جمہوریتوں میں سے ایک‘ امریکا میں ہوئی۔ یہ تحریک کسی انقلاب سے کم نہ تھی کیونکہ جمہوری ملک ہونے کے باوجود عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل تھانہ ہی وہ جائیداد خرید سکتی تھی۔ اس کو مرد کے برابر اجرت بھی نہیں ملتی تھی ‘یہاں تک کے اسے ووٹ دینے کا حق بھی حاصل نہ تھا۔ اسی طرح فرانس میں 1789ء میں آنے والے انقلاب کے نتیجے میں ڈرافٹ ہونے والے منشور میں بھی واضح طور پر صرف ''مردوں‘‘کے حقوق لکھے گئے تھے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغرب میں صرف ''مردوں‘‘ کے لیے جمہوریت آئی تھی۔ واضح رہے کہ Third wave of Feminism کے بعد‘ 1920ء میں امریکا سمیت بڑے مغربی ممالک میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا تھا۔ اس سلسلے میں عورتوں کو1917ء میں روس میں آنے والے کمیونسٹ یعنی سرخ انقلاب کا ممنون مانا جاتا ہے جس نے عورتوں سمیت تمام انسانوں کیلئے برابری بالخصوص معاشی برابری کانہ صرف نعرہ بلند کیا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا۔ مغربی دنیا میں سب سے پہلے‘ اشتراکیت کے بانی کارل مارکس نے عورت کو مرد کے برابر کا درجہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی معاشرے کی ترقی کا بڑا پیمانہ وہاں عورت کو ملنے والے مقام سے لگایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین کے عالمی دن سے منسوب بینگنی یا گلابی رنگ کمیونسٹ انقلاب کے سرخ جھنڈے ہی کی ایک کڑی نظر آتا ہے۔
قدیم تاریخ کے اعتبار سے انسانی شعور اور ترقی کے سفر پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات وافکار کی ماخذ سرزمین یونان ہے‘ جہاں چھ سو سال سے زیادہ عرصے تک درجنوں مفکروں نے دنیا کو آزاد سوچ کے ساتھ علم کی شمع سے روشناس کرایا لیکن یونان والے بھی خواتین کے حوالے سے کوئی واضح آئین نما چیز نہیں دے سکے تھے بلکہ اہلِ یونان عورت کو معاشرے میں برابری کا مقام دینے کے تصور سے بہت دور نظر آتے تھے حتیٰ کہ ان کے کئی سکالرز تو عورت کو دوسرے درجے کا شہری ماننے پر ہی مصر رہے تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کئی صدیوں تک علم و تحقیق میں دنیا کی رہنمائی کرنے والے سکالرز میں سے ایک بھی نمایاں خاتون سکالر نہیں تھی۔ اہلِ یونان کے علاقے میں انتشار پھیلنے کے بعد‘ 400ء سے لے کر 1000ء تک کے دور کو تمام تاریخ دان Dark Ages قرار دیتے ہیں، مگر یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اسی دوران‘ ساتویں صدی کے آغاز میں دنیا میں ایک نئے منشور کا نزول عرب کے صحرائی علاقے میں ہوا تھا۔ آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ دینِ اسلام کی بات ہو رہی ہے۔ اس الہامی منشور کی تکمیل خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر یعنی 6 مارچ 632ء کو ہوئی تھی۔ اس دن رسول کریمﷺ نے اپنے جامع اور تکمیلی خطبے میں انسانیت کے دیگر امور کے ساتھ جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کو مردوں کے برابر ہی نہیں بلکہ بہتر قرار دینا تھا۔ یہ Equalityکے بجائے Equityیعنی برابر کے حقوق دینے کی بجائے ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق حقوق فراہم کرتا ہے۔ اس آفاقی منشور کے تحت علم کا حصول عورتوں کا حق ہی قرار نہیں پایا بلکہ اسے لازم بھی قرار دیا گیا۔ جائیداد اپنے نام پر رکھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو وراثت میں بھی حصہ دار قرار دیا گیا۔ تقریباً پوری دنیا میں بیٹے سے نسل چلنے کا تصور پایا جاتا تھاجسے یکسر مسترد کر دیا گیا۔ کسی بھی شخص کے لیے اس پر سب سے زیادہ حق کے معاملے میں ماں کی ہستی کو باپ پر تین چوتھائی فوقیت دی گئی۔ بوڑھے ماں باپ کی باتوں کا کسی طور برا نہ ماننے کی تلقین کی گئی۔ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا گیا۔ اس سلسلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی‘ جو مراکو کے شہر فیض میں 859ء میں قائم ہوئی تھی‘ وہ فاطمہ نامی ایک مسلم خاتون نے بنائی تھی۔ یہ یونیورسٹی آج بھی موجود ہے اور اب ایک سرکاری یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ تمام حقائق بجا طور پراسلامی یا مسلم Feminism کی فخریہ مثال ہیں۔
ذکر ہوا تھا عورتوں کے حقوق کی اس تحریک کا‘ جو مغربی ممالک میں پروان چڑھی، شاید اسی لیے یہ ممالک اپنے آپ کو خواتین کے حقوق کا بانی‘ علمبردار اور وارث سمجھتے ہیں اور اس عالمی دن کو منانے میں نہ صرف نمایاں نظر آتے ہیں بلکہ دنیا کے دیگر اور اپنے زیر اثر ممالک سے بزور طاقت بھی اپنے طے کردہ معیار کے مطابق عورتوں کے حقوق پر عمل کروانے کے لیے ہر ممکن حد تک جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان اس ضمن میں ایک واضح مثال ہے۔ تاہم اس تناظر ایک بد قسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں فیمنزم کا نعرہ ایک متنازع تصور بنا دیا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ نام نہاد تنظیموں کی جانب سے عورتوں کے حقوق اور ''آزادی‘‘ کے نام پر مظاہرے اور متنازع مطالبات ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے اس دن کو مناتے ہوئے ہمارے ہاں جس قسم کے نعرے لگائے جاتے اور جو مظاہرے کیے جاتے ہیں وہ کسی مسلم ملک ہی نہیں بلکہ مشرقی روایات کے بھی برعکس ہوتے ہیں۔ آپ اگر ''میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ کے نعرے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ نعرہ بنیادی طور پر بچوں کی تعداد اور اسقاطِ حمل سے متعلق ہے‘ نہ کہ صنفی آزادی سے متعلق۔ دوسری جانب خواتین سے متعلق ہمارے معاشرے میں تحقیق سے زیادہ سنی سنائی باتوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، جیسے آج بھی جب عورتوں کی بات ہو گی تو انہیں ملکی آبادی کا 51 فیصد بتایا جائے گا حالانکہ مردم شماری کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں‘ خواتین کی تعداد کل ملکی آبادی کا 49 فیصد ہے نہ کہ 51 فیصد۔ البتہ یہ درست ہے کہ عورتوں کی شرحِ تعلیم آج بھی مردوں سے کم ہے‘ وراثت میں حق اور بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد کے الفاظ سے اسے محروم رکھا جاتا ہے جبکہ جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے کتنی ہی بیٹیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں۔ دوسری جانب جنسی استحصال اور بڑھاپے میں اپنوں کے ساتھ رہنے کیلئے کوشاں مغربی خاتون کے اپنے مسائل ہیں۔ اب یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ عورتوں کے مکمل حقوق کا سب سے پہلا منشور 6 مارچ 632 ء کو خطبہ حجۃ الوداع میں پیش کیا گیا تھا مگر مغرب والے اپنے مواد میں اس کاسرسری سا بھی ذکر نہیں کرتے حالانکہ Islamic Feminism دنیا کا سب سے پراناتصورہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، پاکستان میں بھی مقابلے کے امتحان سمیت جینڈر سٹیڈیز کے مضمون میں اس کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے، حالانکہ اس میں کمیونسٹ Feminism سمیت‘ اس کی تاریخ کا پورا ذکر موجود ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع کی مناسبت سے مسلمانوں کو عورتوں کا ایک نہیں بلکہ 6 سے 8 مارچ تک‘ تین دن منانے چاہئیں‘ یا پھر 6 مارچ کو علیحدہ طور پر کسی اور نام سے اپنا ورثہ سمجھ کر منانا چاہئے۔ آج جو کچھ بھی کہا جاتا رہے‘ حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کے حقوق کا درخت نما پودا سب سے پہلے 6مارچ 632ء کو عرب کے ریگزاروں میں اُگا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں