علامہ اقبال، بھگت سنگھ اور وہ…

علامہ اقبال شاعر اور فلاسفر سے بڑھ کر ایک مفکر (تھنکر)تھے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لگ بھگ ایک صدی قبل‘1930ء کی دہائی میں کمیونزم کے بانی کارل مارکس کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ آج بھی ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ''کارل مارکس کی آواز‘‘ اور ''اشتراکیت‘‘ جیسی نظموں کے علاوہ بھی علامہ نے شاعری میں کارل مارکس کو اپنا موضوع بنایا۔ واضح رہے کہ اس وقت تک دنیا میں کمیونزم کا نام لیوا صرف سوویت یونین ہی تھا۔ اس کے علاوہ‘ اس وقت کے ایک پسماندہ لیکن بڑے ملک (چین) میں کمیونسٹ پارٹی کا قیام 1921ء میں عمل میں آ چکا تھا لیکن محدود ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اس کا زیادہ چرچا نہ تھا اور ویسے بھی یہ پارٹی اس وقت ایک نوزائیدہ حیثیت رکھتی تھی۔ اس وقت برطانیہ سمیت تمام مغربی طاقتیں کمیونزم کو ایک شجرِ ممنوعہ کا درجہ دے کر دبانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھیں۔ اگر اس بات کا کھوج لگایا جائے تو پتا چلتا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران روس میں آنے والے کمیونسٹ انقلاب کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ روس نے کمیونسٹ انقلاب کے بعد انتہائی تیزی سے ترقی کی اور دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود وہ امریکی سپر پاور کے مقابل ایک عالمی طاقت کے طور پر قائم رہا۔
آج بات ہو رہی ہے کمیونزم اور علامہ اقبال کے افکار کی۔ علامہ سے ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ کمیونزم، سوشل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام میں سے کون سا نظام دینِ اسلام کے زیادہ قریب ہے؟ اس پر علامہ نے جواب دیا کہ سوشل ازم میں کوئی بھی نئی بات نہیں‘ اگر اس میں خدا کا تصور شامل کر لیں تو یہ عین اسلام ہے۔ اسی تناظر میں یہ تذکرہ بھی برمحل ہے کہ علامہ مغربی طرزِ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے بہت بڑے ناقد تھے۔ اگر آپ اس اہم نکتے کی کھوج لگائیں کہ علامہ کو ان کے افکار‘ نظریات اور شاعری کی بنیاد پر کبھی نوبیل انعام کیوں نہ ملا تو اس کی بنیادی وجوہات یہی تھیں‘ جن کا ابھی ذکر ہوا۔
اس دور میں‘ برصغیر میں چونکہ برطانوی استعمار چل رہا تھا‘ اس لیے تعلیمی اداروں اور علمی مباحث میں اشتراکیت کو پنپنے نہیں دیاگیا، مگر اس کے باوجود اشتراکیت کا پیغام نہ صرف پرائمری تعلیم رکھنے والوں تک‘ اور ان کی بدولت دیگر تمام لوگوں تک پہنچ گیا تھا بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام بھی 1921ء میں عمل میں آ گیا تھا۔ اشتراکی نظریات سے متاثر ایک دیہاتی نوجوان نے گورے کو بہت مشکلوں سے دوچار کیا تھا۔ یہ نوجوان سکھ‘ بھگت سنگھ تھا۔ اس کمیونسٹ باغی نے اشتراکیت کے نظریات کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کی طرز پر انقلابی پارٹی بھی بنائی۔ جدوجہدِ آزادی کے اس ہیرو کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ اس سے جج نے یہ سوال کیا تھا کہ اس خطے پر مسلمان بھی تو حکومت کرتے رہے ہیں‘ پھر وہ تاجِ برطانیہ کے اس قدر خلاف کیوں ہے؟ اس پر اس انقلابی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس علاقے کو لوٹتے نہیں تھے‘ جو یہاں سے کماتے تھے وہ اسی علاقے پر خرچ کرتے تھے نہ کہ تم لوگوں کی طرح لوٹ کر سات سمندر پار لے جاتے تھے۔ اس باغی رہنما کو پھانسی دیتے وقت گورا سرکار نے اپنے ہی بنائے ہوئے ایک قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی تھی کہ لوگوں کے مظاہروں سے بچنے اور بغاوت کے خدشے کے پیشِ نظر مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی اسے تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس خطے کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ آزادی کی جنگ کے ایک صدی پر محیط دورانیے میں چھ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی (واضح رہے کہ اس میں تقسیم کے وقت مارے جانے والے مہاجرین شامل نہیں)۔ 23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ کواس کے دو ساتھیوں سمیت لاہور میں پھانسی دی گئی تھی۔ اب پوری دنیا میں موجود سکھوں کی وجہ سے اس کی برسی ہر سال 23 مارچ کو انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر ایک شعر بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے جو بھگت سنگھ کی آزادی کی کوششوں کے دوران‘ بہار کے معروف شاعر بسملؔ عظیم آبادی نے لکھا تھا:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اب چلتے ہیں پاکستان کے قیام کی طرف‘ پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت دنیا میں دو مختلف بلکہ دو متضاد نظریات‘ اشتراکیت اور کیپٹل ازم کی بنا پر امریکا اور سوویت یونین میں سرد جنگ جاری تھی۔ امریکی بلاک کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بھی اشتراکی سوچ رکھنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس دور کے اخبارات میں مولانا مودودی کے اشتراکیت مخالف بیانات تواتر سے چھپا کرتے تھے اور مولانا کا ایک بیان کیلنڈروں سمیت جا بجا نظر آتا تھا کہ ''ایک وقت آئے گا جب اشتراکیت کو ماسکو کی گلیوں میں بھی جگہ نہیں ملے گی‘‘۔ اسی طرح‘ اس دور میں یہ نعرہ بہت مشہور تھا کہ ''سبز ہے، سبز ہے... ایشیا سبز ہے‘‘۔ واضح رہے کہ سرخ رنگ اشتراکیت کا جبکہ سبز رنگ سرمایہ دارانہ نظام کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر پاکستان میں اس رنگ کو پاکستان اور مذہب کے رنگ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
اب یہاں سے چین کی طرف چلتے ہیں‘ جو اِس وقت تقریباً پورے ایشیا کی بقااور ترقی کا سہارا بن چکا ہے۔ اپنے وسیع ترقیاتی منصوبوںاور اپنی طرز کے کمیونزم کی بنیاد پر بھوک، افلاس اور سب سے بڑھ کر دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف لڑتے ہوئے وہ اب ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ مغربی طرزِ سیاست اور معاشی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے طرزِ حکومت اور اپنی پالیسیوںکو دنیا کا نجات دہندہ قرار دے رہا ہے۔ اور کچھ نہ ہو تب بھی ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ چین کم از کم مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور انسانی حقوق کی آڑ میں کسی ملک پر فوج کشی نہیں کرتا۔ اسے آپ چین کی مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں جس کے تحت اس کو مقامی سطح پر استحکام کے لیے اپنے پڑوسی ممالک میں نہ صرف امن بلکہ معاشی استحکام کی بھی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی بڑی طاقت کو پنپنے کے لیے اپنے ارد گرد سمیت پورے خطے میں استحکام اور امن کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین کے پڑوسی ممالک کی تعداد چودہ ہے۔ ان میں سے پاکستان اور افغانستان سمیت پانچ مسلم ممالک ہیں‘ لہٰذا چین کو معاشی وسعت کے لیے آگے پاکستان اور مسلم ممالک سے ہی واسطہ پڑے گا۔ اس سلسلے میں چین پہلے ہی ایران کے ساتھ معاہدہ کرکے اسے اپنے بلاک میں شامل کرچکا ہے۔ حالیہ او آئی سی کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ کی بھرپور شرکت اس کی مسلم ممالک میں دلچسپی کا کھلا اظہار ہے۔
اب اشتراکیت سے متعلق ابہام پیدا کرکے اس کی مخالفت کی بات کرتے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے اشتراکی نظام کو اپنے قریب تر ماننے کا کھل کر ذکر نہیں کیا جاتاحالانکہ اسلامی سوشل ازم کی اصطلاح بخوبی اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔ ہمیں علامہ اقبال کے خیالات کے روشنی میں اشتراکی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ خیالات ہمارے چین کا ہم خیال بننے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ چین والے تو فخر سے علامہ کے چین سے متعلق اشعار کا ذکر کرتے ہیں۔ رہی بات دائیں بازو کی اشتراکی مخالف سیاست کی تو اُن کو بھی اب اپنی غلطیوں کا ادراک ہونا چاہیے۔ ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر نے اپنی کتاب میں ایک صاحب پر اشتراکیت کی مخالفت کے عوض لاکھوں ڈالر وصول کرنے کا الزام بھی لگایا ہے‘ اس کا ذکر پھر سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں