گزشتہ کالم میں بات چلی تھی کمیونزم اور کیپٹل ازم کے موازنے اور ان دو نظاموں کی وجہ سے ہونے والی سرد جنگ کی‘ جس کا سب سے بڑا مرکز ایشیا بنا تھا۔ یہاں کمیونزم کے بانی کا ایک فلسفہ بہت اہم ہے‘ جو سادہ لفظوں میں کچھ یوں ہے کہ ''دنیا میںمعاشی ابتری کی بنیادی وجہ وسائل کا نہ ہونا نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ‘‘ـ۔ آپ کو معلوم ہو گاکہ ایک سو سال کے دورانیے کو صدی کہا جاتا ہے اور ایک ہزار سال کو میلینیم (Millennium) کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک انتہائی اہم بات جس کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا‘کچھ یوں ہے کہ 1990ء کی دہائی کے آخر میں بی بی سی نے ایک سروے کروایاتھا‘ اس وقت چونکہ ایک ہزار سال پورے ہونے جا رہے تھے‘ لہٰذا لوگوں سے پوچھا گیا کہ اس پورے عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی اثر پذیر عالمی شخصیت کون سی تھی۔ اس فہرست میں آئن سٹائن، نیوٹن اور دیگر سائنس دانوں، فلاسفروں سمیت تمام اہم شخصیات کا احاطہ کیا گیا تھا مگر آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ واضح ترین اکثریت نے جواب دیا تھا کہ وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ اشتراکیت کا بانی کارل مارکس تھا۔ برطانیہ چونکہ امریکا کے بعد دنیا کا سب سے بڑ اکیپٹل ازم کا حامی اور اشتراکیت کا مخالف تھا‘ اس لیے یہ بات زیادہ حیران کن تھی کہ برطانوی ادارے نے اس سروے کے نتائج بلا جھجک جاری کر دیے۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں اشتراکیت کا مرکز‘ سویت یونین ٹوٹ چکا تھااور دنیا سمجھتی تھی کہ اس نظریے کا مستقبل ختم ہو چکا ہے۔ اسی لیے جاپانی نژاد امریکی پروفیسر فوکویاما نے End of History کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کتاب کاعنوان ہی اس کتاب کا مدعا بیان کر دیتا ہے‘ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اب چونکہ دنیا میں صرف مغربی طرزکا سیاسی اور معاشی نظام چلے گا‘ لہٰذا تاریخ یعنی ہسٹری یہاں آ کر ختم ہو گئی ہے۔
اشتراکیت سے متاثر اور ہندوستان کی آزادی کی خاطر جان دینے والا انقلابی رہنما بھگت سنگھ بھی جیل میں اشتراکیت کی کتابیں منگوا کر پڑھا کرتا تھا۔ بھگت سنگھ سے جیل میں سوال کیا گیا کہ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنا مقدمہ بھرپور طریقے سے کیوں نہیں لڑا؟ اس پر اُس نے تاریخی جواب دیتے ہوئے کہا ''انقلابیوں کو مرنا ہی ہوتا ہے اور جان دینے سے انقلابیوں کا مقصد زیادہ پُر اثر ہوجاتا ہے‘‘۔ گزشتہ کالم میں یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی کہ عالمی سطح پر مانے گئے مفکر اور پاکستان کے تصور کے خالق علامہ اقبال بھی کارل مارکس کے معترف تھے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں کارل مارکس کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا تھا۔
آزادی کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ تقریباً پوری مسلم دنیا امریکی بلاک کا حصہ بن گئی تھی۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا اور مسلم دنیا میں اشتراکیت کے خلاف رائے عامہ بنانے کے لیے مذہب کارڈ بھی بھرپور طریقے سے کھیلا گیا۔ اشتراکیت کو کفر کے برابر تک قرار دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ کارل مارکس کے اپنے کچھ نظریات تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ کارل مارکس بنیادی طور پر مذاہب کی مخالفت کرتا تھا مگر یہ بات بھی قابلِ ذکرہے کہ اس کی زندگی میں عیسائیت اور یہودی مذہب کا عمل دخل بہت زیادہ تھا۔ اس کے نظریات کے پیروکاروں نے روس کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد وہاں تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو بند کر دیا تھا‘ اسی بات کو بنیاد بنا کر پاکستان میں اشتراکیت کی اندھی مخالفت کی گئی۔ اسی دوران جب روس نے 1979ء میں افغانستان پرفوج کشی کی تو پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے اس جنگ میں کودنا پڑا ‘اس حوالے سے مکمل امریکی اشیر باد بھی میسر تھی۔ پوری مسلم دنیا سے لوگ اس جنگ میں شرکت کے لیے پاکستان آئے۔ اب بھی یہ بات کی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر تنظیموں نے اشتراکیت اور سوویت یونین کی جو مخالفت کی تھی‘ وہ اپنی جگہ بالکل درست تھی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اشتراکیت کی مخالفت کے سرکردہ لیڈر مولانا مودودی کا انتقال 1979ء میں ہوا تھا۔ جب روس نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی اس وقت مولانا امریکا میں بسترِ علالت پر تھے۔ اگر سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی کریں تو اس بات کی ترغیب اشتراکیت کا نظام نہیں دیتا، فوج کشی کی ظلم نما غلطی روس کی اپنی تھی‘ اشتراکی نظام کی نہیں؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں مالی امداد سے کمیونسٹ کے خلاف جوتحریک پیدا کی گئی‘ آج مغربی سکالرز اسے ''پیٹرو ڈالر ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
اسی حوالے سے جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ پورا ایشیا ہی امریکا اور مغرب کو کھٹکتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی امریکا بہادر نے پوری مسلم دنیا کو یکے بعد دیگرے‘ تمام جائز و ناجائز ہتھکنڈوں اور کمزور قیادت کی مدد سے جنگی کیفیت کا شکار بنا دیا۔ اس سلسلے میں سب سے بھیانک حال ان ممالک کا ہوا جو ایشیا میں واقع ہیں۔ بنیادی وجہ یہی تھی کہ نہ صرف مسلم دنیا بلکہ براعظم ایشیا کو بھی کسی نہ کسی طرح انتشار کا شکار رکھا جائے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تاریخ کی سب سے بڑی‘ بیس سالہ فوج کشی افغانستان پر کی گئی۔ اسی تناظر میں بات کو مزید گہرائی اور سنجیدگی سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ کشیدگی آج بھی براعظم ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ تاریخی طور پر جتنی بھی عالمی طاقتیں رہی ہیں‘ وہ ایشیا سے ہی تھیں۔ مغل سلطنت، سلطنتِ عثمانیہ، جاپان، سوویت یونین‘ اور اب چین۔ اس سے قبل فارس کی سلطنت بھی۔ سلطنت ِروما کو انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا‘ مشرقی سلطنت اور مغربی سلطنت۔اس سے مشرق یعنی ایشیا کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اب اگرچہ گزشتہ چار‘ پانچ سو سال سے زمامِ کار مغرب کے ہاتھ میں ہے مگر اس ''عظمت‘‘ کی بنیادوں میں مشرقی دنیا کا استحصال نمایاں نظر آئے گا۔ ایشیا اور یورپ کی اسی کشمکش کو مشرق اور مغرب کا مقابلہ کہا جاتاہے۔ اگر آبادی اور رقبے کے تناسب کی بات کی جائے تو ایشیا میں لگ بھیگ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی مقیم ہے جبکہ اس کا رقبہ دنیا کا محض تیس فیصد ہے۔ اپنی کثیر افرادی قوت کے باعث ہی یہ بر اعظم مغربی دنیا کو چیلنج کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر بات کریں بھٹو صاحب کی‘ جوامریکا کی نظروں میں کھٹکتے تھے‘ تو اس کی بنیادی وجہ ان کا سوشل ازم کی طرف مائل ہونا تھا۔ یہاں قارئین کے لیے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ کمیونزم اور سوشل ازم میں فرق ہے۔ دراصل کمیونزم ایک بہت سخت گیر نظریہ ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کو قابلِ عمل بنانا بہت مشکل ہے۔ اس کے مطابق تمام لوگوں کی معاشی حیثیت مکمل طور پرایک جیسی ہونی چاہیے،تمام تر ذرائع پیداوار حکومت یا ریاست کی ملکیت میں ہونے چاہئیں جبکہ سوشل ازم اس کی ایک نرم اور قابلِ قبول صورت ہونے کے ساتھ قابلِ عمل نظریہ بھی ہے۔ اس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ نظام سارے ذرائع حکومتی ملکیت میں رکھنے کے بجائے‘ لوگوں کو پیداوار کے ذرائع ایک حدتک ذاتی ملکیت میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ بنیادی بات جس پہ اس کا زور رہتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ لوگوں کی معاشی حیثیت میں بہت زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیے۔
اب بات آج کی دنیا کی سب سے بڑی مشکل‘ یعنی غربت کی۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ دنیا کے صرف ایک فیصد لوگوں کے قبضے میں دنیا کی 83فیصد دولت ہے اور یہ فرق مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس ایک حقیقت سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں غربت کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؛ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔ اسی طرح جو معاشی فرق عالمی سطح پر ہے‘ وہ مقامی سطح پر بھی پایا جاتاہے۔ اس وقت چین ہی ایک ایسی عالمی طاقت ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی کوغربت سے نکال کر خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کیا ہے جبکہ بھارت اب بھی دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی والا ملک ہے۔ ایشیا‘ افریقہ کے بعد دوسرا بڑا غریب براعظم ہے‘ جس وجہ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ سرخ ہے نہ سبز ہے‘ ایشیا کو معاشی قبض ہے۔