طوائف الملوکی

طوائف الملوکی سیاست کی ایک کثیر الاستعمال اصطلاح ہے۔ اس کے معنی عمومی طور پر یہ بیان کیے جاتے ہیں کہ ایسا نظامِ حکومت یا ایسا معاشرہ جس میں اختیارات کا مرکز کوئی ایک ذات یا ایک ادارہ نہ ہو‘ جہاں بہت سارے چھوٹے بڑے حاکم ہوں۔ اسے سیاسی بدنظمی، انتشار اور حکومتی زوال سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں ہر کسی کو یہی فکر ہوتی ہے کہ کس کو کیا ملے گا ،کس طرح ملے گا اور کیا کیا ہے‘ جس میں سے ملے گا۔ اس کی وضاحت یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ ملک کے وسائل اور مقام میں سے کس طبقے کو کیا حاصل ہو گا۔ یہاں وسائل کے ساتھ مقام کا ذکر شاید نیا لگے؛ تاہم یہ Prestige کے طور پر استعمال کیا گیا ہے یعنی کن کن شعبوں کو اعلیٰ مقام حاصل ہو گا۔ اس کو سمجھنے کیلئے ہم امریکا کی مثال لیتے ہیں‘ جہاں اساتذہ کا رتبہ عوامی نمائندوں کے برابر ہوتا ہے۔ خاص طور پر یونیورسٹی کے پروفیسر کا رتبہ ایک سینیٹر کے برابر مانا جاتا ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کا رتبہ اعلیٰ ترین شمار ہوتا ہے جبکہ ایک پولیس افسر یا کسی اور سرکاری عہدے پر فائز افسر کو زیادہ نمایاں مقام نہیں ملتا۔ اگرچہ یہ سب کچھ ہمارے نظام سے یکسر الٹ ہے‘ مگر حقیقت یہی ہے۔ سیاست کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے بعد حکومت کو معاشرے کے افراد میں ہم آہنگی کی فکر بیدار کرنا ہوتی ہے، اس کو ہم عرف عام میں قومی دھارا کہتے ہیں۔ مختلف مکاتب کے لوگوں میں دو طرح کے مسائل کو پیدا ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔ پہلی چیز یا ممکنہ مسئلے کو Clash of opinions یعنی رائے کا ٹکرائو کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا ممکنہ چیلنج Clash of interests یعنی مفادات کا ٹکرائو ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ حکومت معاشرے کے ان تصادموں یا تضادات کی روک تھام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ Society is Irrational، یعنی معاشرے میں تضادات ہوتے ہی ہیں البتہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان تضادات کو rationalize کرے‘ معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرے۔
اب علمی اور تاریخی سیاست کے نچوڑ کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کریں کہ ہمارے ملک کی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کو کس مقام پر رکھا جا سکتا ہے؟ ذیل میں ہم سیاست کی مختلف اقسام کا جائزہ لیتے ہیں‘ شاید ملکی سیاست کی بہتر تفہیم ممکن ہو سکے۔ ایک نظامِ حکومت‘ جو دراصل نظامِ حکومت کے عدم وجود کی علامت ہے‘ انارکی (Anarchy) کہلاتا ہے۔ اس میں کسی بھی صورت اقتدار کے حصول کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کا مرض ایک نشے کی مانند لاحق ہو جاتا ہے۔ ''کچھ بھی کر گزرنا‘‘ ایک خطرناک مرحلہ ہوتا ہے ۔
اب کشمکش اور تصادم کی کیفیت کے ایک اور پہلو کی طرف چلتے ہیں‘ جس میں کسی بھی فرد کو کسی مفاد میں رکاوٹ ہونے کی وجہ سے عہدے سے یا راستے سے ہٹانے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس کیلئے براہ راست اور واضح الفاظ کی جگہ فلسفیانہ طریقے سے پیغامات دیے جاتے ہیں جن کے معنی آخری حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس کیلئے ایک پیغامFinal Solution استعمال ہوتا ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے کے درجات بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز ہیں۔ کسی مخالف یا ٹارگٹ کردہ فرد کو سب سے پہلے قائل یا مائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر اس سے مطلوبہ نتائج نہ نکلیں تو پھر اس بندے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے اس کو influence کا مرحلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے اگلے مرحلے پر دھمکی دی جاتی ہے اور سب سے آخر میں اسے راستے سے ہٹانے کے لیے باقاعدہ حملہ کر دیا جاتا ہے‘ کئی بار یہ حملہ تنبیہی ہوتا ہے اس کے بعد مقام آتا ہے ''آخری حل‘‘ کا۔ اس میں کئی مزید پیغامات بھی ہوتے ہیں، جیسے ''میں تمہیں مارنا تو نہیں چاہتا لیکن تمہیں مرنا ہوگا‘‘۔ اسی طرح کسی کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کے بعد مارنے سے پہلے کچھ اس طرح پیغام دیا جاتا ہے کہ ''I love you but I am sorry‘‘۔ اب ان پیغامات کے بعد یہ تجسس ابھرے گا کہ حالیہ دھمکی والے پیغام میں پتا نہیں کون سے الفاظ میں دھمکی بھیجی گئی۔ واضح رہے کہ ہم سیاسیات کے طالبعلم کے طور پر اس منظر نامے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسی حوالے سے جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ حکومتوں اور حکمرانوں کیلئے مخصوص قسم کے خفیہ نام یعنی کوڈ ورڈز بھی رکھے جاتے ہیں۔ اگر اس کے حوالے سے کوئی پیغام بھیجا جائے تو اس کے اصل نام یا عہدے کے بجائے وہ کوڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت کی مثال لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اس کی خفیہ ایجنسی کے کچھ پیپرز چوری کر کے بعد ازاں کتابی شکل میں شائع کیے گئے تھے۔ ان میں لاتعداد انکشافات موجود تھے۔ کے جی بی کے ان پیپرز کے مطابق بھارت مکمل طور پر روس کے اشاروں پر چلا کرتا تھا۔ سوویت خفیہ ایجنسی بھارت میں نہرو خاندان کے مخالفوں کو راستے سے ہٹایا کرتی تھی۔ اس حوالے سے ایک بڑی مثال بھارت کے دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی پیش کی جاتی ہے۔ اسی طرح روسی ایجنسی اندرا گاندھی سمیت کانگریس کے متعدد رہنمائوں کو بھاری رقوم رشوت کے طور پر دیا کرتی تھی۔ ایجنسی کے ایجنٹس کے انکشافات کے مطابق‘ روس اندرا گاندھی کے حق میں چلنے والے اخبارات اور دیگر قریبی لوگوں کو بھی غیر ملکی کرنسی کی صورت میں بھاری رقوم دیا کرتا تھا۔ اب ذکر اس خفیہ نام کا‘ جو روسی ایجنسی نے اندرا گاندھی کو دے رکھا تھا۔ وہ نام تھا: VANO۔ اگر آپ اس لفظ کا مطلب ڈھونڈیں تو بہت حیرت ہو گی کہ بھارت جیسے بڑے ملک کی وزیراعظم کو کیا سمجھا جاتا تھا۔ اس لفظ کے معنی ہیں؛ بیکار چیز۔ اب اس کی وضاحت پتا نہیں کیا ہو گی کیونکہ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں؛ ایک یہ کہ روس کی نظر میں اندرا گاندھی کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ دوسرا‘ وہ روس کیلئے وہ کام نہیں کر پا رہی تھی جس کی وہ توقع کرتا تھا۔
اب ذکر اردو کی اس اصطلاح کا جو کسی بھی انگریزی لفظ سے بہتر صورتحال بیان کرتی ہے اور جو کالم کے ابتدا میں بیان کی گئی یعنی طوائف الملوکی۔ اگر یکے بعد دیگرے حکومتیں یا حکمران بدل رہے ہوں تو بھی یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس اصطلاح کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے کہ ناچ گانے اور رقص و سرود کی محفلیں سجانے والوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر روز کبھی کسی کے پاس تو کبھی کسی کے پاس جا کر محفل سجاتے ہیں۔ ہم نے ذکر کیا روس کی خفیہ ایجنسی کا تو اس کا ایک مشہور افسر جو بھارت میں تعینات رہا‘ ایک اور سیاسی تصور بھی پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے حکمران جو بڑی طاقتوں کا کہنا مان کر چلتے ہیں اور اس کام کیلئے اپنے ملکی مفاد کو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں دراصل وہ political prostitute ہوتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو اقتدار میں لانے کیلئے کچھ بھی کیا جاتا ہے، مثلاً ان کے حق میں مہم چلائی جاتی ہے، لکھنے اور بولنے والوں کو خریدا جاتا ہے یا کرایے پر حاصل کیا جاتا ہے، الیکشن جیتنے کیلئے بھاری رقوم فراہم کی جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر حکومت سازی کیلئے دیگر اہم لوگوں کو خریدا جاتا ہے۔
اس وقت ملک میں جاری سیاسی کشمکش، بیانات، دعووں،خود ساختہ عہدوں پر منتخب ہونے وغیرہ کی کیفیت کے حساب سے پتا نہیں مذکورہ بالا مراحل‘ مقامات‘ مراتب میں سے کون سی کیفیت اور اصطلاح مناسب معلوم ہو گی۔ یہ فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں