آج کل ملکی سیاست میں امریکی مداخلت اور سازش کے فرق کے حوالے سے ایک عجیب بحث جاری ہے۔اس بحث نے عوام کو واضح طور پر دو سیاسی فرقوں میں تقسیم کردیا ہے۔سوشل میڈیا پر ایک ہیجان نما طوفان برپا ہے‘ جو کافی حد تک گالی گلوچ میں تبدیل ہو چکا ہے۔اس طوفان کی وجہ سے دوستیا ںہی خراب نہیں ہورہیں‘ بلکہ تعلقات ختم بھی ہو رہے ہیں۔ بہت ساری پوسٹیں ایسی ہیں جو اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر جاتی ہیں۔اس آڑ میں ملک دشمنوں نے ملکی سلامتی کے علمبردار اداروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔اس لیے سب لوگوں سے درخواست ہے کہ آپ کسی کی حمایت کریں یا مخالفت‘ مگر شدت پسندی سے گریز کریں اور جعلی خبروں،فوٹوشاپڈ تصویروں کو لائک یا شیئر کرنے سے پہلے تھوڑا غور ضرور کر لیں۔
اب بات مداخلت یا سازش کی‘ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ امریکا کے حوالے سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکا دوسرے ممالک بالخصوص مسلم ممالک میں یہ کام تسلسل سے کرتا آیا ہے۔یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اس کی خارجہ پالیسی کا باقاعدہ حصہ ہے۔وزیر اعظم فیروز خان نون کے دور میں امریکا نے سوویت یونین پر نظر رکھنے کے لیے ہماری کچھ ایئر بیسز اپنے زیر استعمال رکھی ہوئی تھیں۔ 1960ء میں اس وقت کا ایک جدید ترین جاسوس طیارہ پشاور کے قریب سے اڑایا گیا جو افغانستان اور موجودہ سینٹرل ایشیا (جو اُس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا)کو کراس کر کے اہم سوویت تنصیبات تک پہنچ گیا۔اس طیارے میں جدید ترین کیمرے لگے ہوئے تھے جن کی مدد سے حساس علاقوں کی تصویریں لی جانا تھیں مگر روس نے اس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔اس واقعے سے بہت زیادہ کشیدگی پیدا ہو گئی۔اس واقعے پر ایک فلم ''Bridge of Spies''بھی بن چکی ہے۔اس فلم کو دیکھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ امریکا کس طرح دوسرے ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
اس کے بعد ذکر الفاظ کے چنائو کا‘جن کولے کر ایک نا ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔اس کے لیے بھی ہم تاریخ کے متعدد مواقع پر کہے جانے والے الفاظ کا جائزہ لیتے ہیں۔اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے ایک دفعہ بیان دیا تھا کہ ہم اپنے اتحادی ممالک کوCarrot and Stick پالیسی کے تحت چلاتے ہیں۔اس پالیسی کا مطلب خاصاسخت ہے۔اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ اپنے دفتر میں جلد اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اپنے ملازمین کو اچھا اور بہتر کام کرنے پر کچھ انعام کا لالچ دیتے ہیں،لیکن ساتھ ہی کہتے ہیں کہ مطلب اور مرضی کا کام نہ ہونے پر سخت قسم کی سزا بھی دی جائے گی۔اس پالیسی کا دوسرا مطلب وہ خاکہ یا تصویر ہے جس میں ایک جانور کے پیچھے ایک گاڑی پر بھاری بوجھ لاد کر جانو کے آگے ایک گاجر لٹکا دی جاتی ہے، وہ جانور گاجر تک پہنچنے کیلئے مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے لیکن گاجر بھی آگے بڑھتی رہتی ہے، اس لیے وہ گاجر تک کبھی نہیں پہنچ سکتا؛ البتہ اپنے اوپر لادا بوجھ ضرور لے کر چلتا رہتا ہے۔اب آپ خود اندازہ کریں کہ اس خاتون وزیر نے کتنے سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سوویت یونین کے ساتھ ساتھ اس وقت کی دوسری سپر پاور امریکا کی بھی ہر طرح کی تائید شامل تھی۔اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مغربی پاکستان پر بھی حملے کا پلان بنایا تھالیکن امریکا اس بات کے خلاف تھا۔اس موقع پر امریکی صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو فون کیا اور سخت لہجے میں اسے ''اولڈ وِچ‘‘ کہتے ہوئے کہا:Enough is Enough۔ اس کا مطلب تھا کہ بس بہت ہو گیا! پاکستان پر حملے کا سوچنا بھی مت۔ اندرا گاندھی شاید اس دھمکی سے بھی باز نہ آتی مگر امریکا نے بھارتی سفیر کو بلا کر کہا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملے کا سوچا بھی تو پاکستان کو جدید امریکی اسلحہ پہنچا دیا جائے گا۔ بھارتی سفیر کی سخت تنبیہ کی گئی جس پر بھارتی سفیر نے فوری طور پر ایک ''سائفر‘‘ بھارت بھیج کر اندرا گاندھی کو (مغربی) پاکستان پر حملے سے باز رکھا۔اب آپ اس بات سے اندازہ کر لیں کہ جب امریکا کے اپنے مفاد کی بات آئے تو بھارت جیسے بڑے ملک کی اوقات بھی اس کی نظروں میں کچھ نہیں رہتی۔ اسی طرح روس کی خفیہ ایجنسی نے اندرا گاندھی کا جو کوڈ یعنی خفیہ نام دے رکھا تھا‘ وہ VANO تھا‘ جس کا مطلب ہے: ایک بیکار چیز۔اسی طرح بھٹو صاحب کو ہنری کسنجر نے ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی صورت میں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی تھی۔ تعلقات کی تاریخ میں ایک جملہ خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ یہ جملہ ہے: I love you but I am sorry۔ ان الفاظ کو اس وقت ادا کیا جاتا ہے جب کسی کو اپنے مقصد یا مفاد کے لیے ہر حد تک استعمال کر لیا جائے اور پھر اس شخص کو راستے سے ہٹانا مقصود ہو۔ مغرب میں گھوڑوں کو دوستوں کی طرح عزیز رکھا جاتا ہے مگر جب گھوڑا بوڑھاہو جائے تو اس کو گولی مار دی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ گولی مارنے سے پہلے یہی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
اسی سلسلے کے کچھ دھمکی آمیز الفاظ‘ جو قدرے نرم طریقے سے بولے جاتے ہیں‘ یہ ہیں: I don't want to kill you but you've to die۔ اس جملے کا مطلب یہی ہے کہ مارنے والا اپنی مجبوری بیان کر رہا ہے اور مارے جانے والے کی موت کو ناگزیر بھی قرار دے رہا ہے۔اسی طرح جب کوئی مقصد حاصل کرنا ناگزیر ہو توکچھ اس طرح کا جملہ بولا جاتا ہے: Whatever it takes۔ اس کا مطلب ہے کہ جو بھی ہو جائے‘ جتنا بھی پیسہ لگ جائے یا جتنی بھی قیمت دینا پڑے‘ ہر صورت میں یہ کام ہونا چاہیے۔
امریکا کی پالیسی کا ایک عجیب اور منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ حکومتیں گرائے یا پھر حکمرانوں کو راستے سے ہٹائے‘ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد وہ اس کا اقرار یا اظہار برملا کرتا ہے۔ اس امر کو '' ڈی کلاسیفائیڈ‘‘کرنا کہا جاتا ہے۔ امریکا کے اس طرح کے خفیہ منصوبوں کے ڈی کلاسیفائیڈ پیپرز کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ پاکستان سمیت کتنے ممالک میں امریکا کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔اب اس صورت میں تازہ ترین واقعے میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش کو کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ایک واضح فرق ضرور ہے اور سارا جھگڑا اسی فرق کا ہے۔یہ فرق یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے کمال جرأت یا سیاسی چال کے طور پر عہدے پر موجود رہتے ہوئے اس کا اظہار کر دیا تھا‘ اور وہ بھی ایک جلسہ عام میں۔اس کے ساتھ انہوں نے وہ خط کو دکھانے کا دعویٰ بھی کیا۔اگر نیوٹرل ہو کر دیکھا جائے تو یہ سیاسی ترقی کی طرف ایک بڑ اقدم ہے۔
ایک اور بات جس کا ذکر کوئی نہیں کر رہا؛ ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں کہیں نہ کہیں چین اور روس کی طرف سے عمران خان کو کوئی تھپکی ملی ہو کیونکہ اگر خان صاحب دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو پاکستان کا جھکائو واضح طور پر امریکی بلاک کے بجائے چین کی طرف ہو جائے گا۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں امریکا کی حمایت اور امریکی مخالفت کی نام پر سیاست ہو رہی ہے۔