کہا، سنا، دیکھا

ایک تحریر میں کسی ایک ہی موضوع پرلکھنا نسبتاً آسان ہوتا ہے‘ اس حوالے سے تمام تحقیقات‘ ریسرچز اور رپورٹس کے مدد سے موضوع کو قدرے آسان کر کے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسے الفاظ کا چنائو کیا جائے جو کسی بھی موضوع پر ایک نچوڑ کی حیثیت رکھتے ہوں تو پورا مفہوم چند سطروں میں ادا ہو جاتا ہے۔ اس طرزِ تحریر کو انگلش میں Literature Review کہا جاتا ہے۔ اس طرز کے مطالعے اور تحریر کو بہت زیادہ عروج اس لیے بھی ملا کہ اس سے آپ پوری کتاب کا حاصل چند پہروں کے اندر ہی پڑھ سکتے ہیں۔ اس کی اہمیت کی ایک اور بڑی وجہ دنیا کے اندر آنے والی معلومات کا ایک سمندر ہے، جو کتابوں، اخبارات، میگزینوں، مضامین، خبروں، ٹی وی پروگراموں اور دیگر ذرائع سے ہماری طرف امنڈ آیا ہے یا یوں کہیں کہ مسلسل امنڈتا آ رہا ہے۔ اس لیے آج مختلف موضوعات پر چند سطروں میں بحث سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ملک کے اندر تمام تر سیاسی جماعتوں، حتیٰ کہ پریشر گروپ کی حیثیت رکھنے والی جماعتوںکی طرف سے بھی ایک بحرانی کیفیت برپا ہے۔ آئین، پارلیمنٹ، ارکانِ اسمبلی، وزیر اعلیٰ، گورنر، ریفرنس، تحریک، سیاست، ریاست؛ یہ وہ الفاظ ہیں جو مسلسل لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہے ہیں اور اس کثرت اور شدت سے ٹکرا رہے ہیں کہ نفسیاتی جغرافیے کی اصطلاح میں یہ صوتی آلودگی بن چکے ہیں۔ اس وقت سیاسی ٹاک شوز میں سب سے زیادہ جو لفظ سننے کو ملتا ہے وہ آئین کا لفظ ہے جس کی ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں تشریح کر رہا ہے۔ اگر ان حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس سارے قصے میں سب سے اہم چیز جو نظر انداز ہو رہی ہے وہ ''عوام‘‘ ہیں۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، افراتفری، ہنگامہ آرائی؛ ان سب کا شکار عوام ہیں؛ بالخصوص درمیانے اور نچلے طبقے کے لوگ۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ ''صرف حکمرانی نہیں راہ نمائی کرو‘ محض جمہوری نہیں عوامی تقاضے پورے کرو‘‘۔
دوسرا موضوع ہلکا پھلکا اور قدرے مزاحیہ ہے مگر ہے بہت اہم۔ اہم ہونے کی وجہ اس حوالے سے بیان کیا جانے والا واقعہ ہے‘ جس کا مفہوم آپ کو سمجھنا ہوگا۔ ہوا یوں کہ ایک صاحب نے ایک تحریر لکھی جو پاکستان کی ایک سیاسی شخصیت کے حوالے سے تھی‘ ویسے طرزِ تحریر بھی بہت دلچسپ تھا مگر اس تحریر کا موضوع کافی خاص تھا۔ ہیڈنگ یا سرخی کچھ یوں تھی کہ اس شخصیت کی سیاست کو سمجھنے کے لیے سیاست کے موضوع پر آپ کو پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔ اب بھلا اس انقلابی سیاسی ماحول میں اس تحریر پر کوئی پھبتی یا کوئی چبھتا ہوا تبصرہ یا جوابی تبصرہ نہ کسا جاتا‘ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ سلسلہ شروع ہوا تو سب سے اچھوتا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ بات صحیح ہے کہ اس شخصیت کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے مگر وہ موضوع سیاست کے بجائے کرمنالوجی ہے۔ اس وقت پی ایچ ڈی سے آگے کوئی ڈگری نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جس ڈگری‘ مطلب جس درجے کی کرپشن اس شخصیت سے منسوب ہے‘ اس سے آگے کوئی درجہ موجود نہیں۔ ایک ترقی پذیر اور معاشی طور پر ڈگمگ ملک سے تعلق ہونے کے باوجود موصوف کا شمار دنیا کے امیر ترین سربراہان میں ہوتا تھا۔ اب رہی بات ان کی طرف داری کی تو ایک سوشل میڈیا تبصرہ یاد آ رہا ہے، جو کچھ یوں ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ یا کامیاب ممالک کا دستور ہے کہ جو بھی بندہ صحیح اور حق پر ہوتا ہے‘ دنیا اس کے ساتھ ہو جاتی ہے جبکہ ہم جس کے ساتھ ہوں اسی کو صحیح اور حق پر مانتے ہیں۔
اب ذکر ایک ایسی بات کا‘ جو یقینا پوری دنیا کے ان لوگوں کے لیے اہم ہے، جو پڑھائی‘ لکھائی اور تحقیق کے شعبوں سے منسلک ہیں۔ اگرچہ اس بات کا ذکر پہلے بھی کیا گیاہے لیکن آج اس کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سالانہ کل آبادی میں اضافے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس سے پہلے یہ مقام آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے پاس تھا جبکہ پہلے نمبر پر ہمارا مشرقی پڑوسی ملک بھارت براجمان ہے۔ اگر آپ کو اس خبر پر تعجب ہو رہا ہے بلکہ یقینا ہو رہا ہو گا کہ یہ بہت ہی بڑی اور بری خبر ہے تو حقائق پر غور کریں۔ چین بے شک آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے مگر اس کی آباد می میں سالانہ شرحِ اضافہ محض 0.30فیصد ہے اور اس شرح سے اس کی آبادی میں سالانہ 45 سے 48 لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی کل آبادی اس وقت 23کروڑ کو عبور کر چکی ہے اور اس میں اضافے کی شرح کم از کم 2.30 فیصدسالانہ یا شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو یہ سالانہ اضافہ پچاس لاکھ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ یوں سالانہ کل اضافے کے حساب سے ہم بھارت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکے ہیں۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ اپنے قیام کے وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چودہواں بڑا ملک تھا جو اس وقت دنیا کا پانچوں بڑا ملک بن چکا ہے۔ اب سیاست دانوں سے بھی گزارش ہے کہ تقریروں کی حد تک ہی سہی‘ عوام کی تعدا د کو بائیس نہیں تیئس کروڑ بولا کریں۔ اس خبر سے ہم یہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ ملک میں محض مہنگائی ہی نہیں‘ آبادی بھی بے قابو ہے ۔ اس مسئلے کو حکومت کس طرح کنٹرول کرے گی کہ جب گن ہی نہیں سکتے توتلافی کیا کریں گے؟
اگرچہ یہ خبر ایک بریکنگ نیوز کا درجہ رکھتی ہے مگر آپ نے اس کا ابھی ذکر بھی نہیں سنا ہوگا لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ گیارہ جولائی‘ جو زیادہ دور نہیں‘ کو جب آبادی کا عالمی دن منایا جائے گا تو شاید اس کا حوالہ بھی دیا جائے۔ اس بات سے آپ کو ایک اور اہم موضوع کی بنیادی وجہ بھی سمجھ آجائے گی اور وہ موضوع ہے گرمی کی حالیہ شدید لہر، پانی کی کمی اور آلودگی وغیرہ۔ لیکن سب سے تشویش کی بات تو ابھی باقی ہے‘ اور وہ یہ کہ پاکستان میں ابھی تک مہم چلانے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے اقدامات محض ذکر کی حد تک ہی محدود ہیں جبکہ مقام جنگی بنیادوں پر قانون سازی کا آچکا ہے۔ اگر آپ کو یہ باتیں اور حقائق بہت خطرناک لگتے اور تشویش میں مبتلا کر رہے ہیں تو عرض کرتا چلوں کہ یہ سب زمینی حقیقت ہے۔ اگر آپ ان کا ازالہ اور مداوا کرنے کے بجائے اس معاملات کو بھی قسمت پر چھوڑنا چاہتے ہیں تو یقین رکھیں قسمت بھی اب خراب ہو چکی ہے۔ وجہ بہت سادہ ہے، وہ کہتے ہیں نا کہ مہلک مرض محض وہ نہیں ہوتا جو ہلاکت خیز ہو بلکہ وہ مرض بھی ہلاکت خیز ہوتا ہے جس کا علاج نہ کیا جارہا ہو‘ لہٰذا یہ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آپ دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی ان مسائل سے نمٹنے کی کوئی حکمتِ عملی دکھائی نہیں دے گی۔ مگر ذرا رکیں! ہم تو آج اختصار سے کئی موضوعات پر بات کرنا چاہ رہے تھے مگر اس آبادی کے موضوع نے طوالت ہی پکڑ لی ہے۔ بات کچھ یوں بھی ہے کہ آبادی میں طوفانی اضافہ نہ صرف ایسا مرض ہے جس کا علاج نہیں کیا جارہا بلکہ یہ جتنے زیادہ مسائل پیدا کرتا ہے بلکہ کر چکا اور کر رہا ہے‘ اس حوالے سے یہ مرض بذاتِ خود جان لیوا ہے۔ اب آپ کو علم ہو چکا ہے کہ محض کرپشن کے حوالے سے ہی ہم پوزیشن حاصل نہیں کر رہے بلکہ سالانہ آبادی میں کل اضافے کے حساب سے بھی پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اب بات پھر تھوڑی پھیل جائے گی اور وہ اس طرح کہ مستقبل میں اگر کوئی ملک آبادی کے حوالے سے پاکستان کو پیچھے چھوڑے گا‘ تو وہ نائیجیریا ہو گا جو اس وقت پاکستان کی طرح کرپشن اور پولیو سمیت انہی مسائل کا سامنا کر رہا ہے جن کا سامنا اس وقت ہمیں ہے۔ اگر مسلم دنیا کی بات کریں تو سبھی مسلم ممالک سالانہ آبادی کے اضافے کے اعتبار سے دنیا بھر میں آگے ہیں۔ بات تو ابھی مزید موضوعات پر بھی کرنا تھی مگر آبادی کا موضوع آج کی تحریر کو ایسے ہی کھا گیا ہے جس طرح ملکی آبادی ہمارے وسائل کو کھا گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں