واٹر سینس

گزشتہ کالم میں دیہات میں پانی کی کمی کی وجہ سے گائوں کے باہر موجود جوہڑ نما تالاب کے گندے پانی سے کھیتوں کو سیراب کرنے کی بات ہوئی تھی، اس پر بہت سارے لوگوں نے جہاں تعجب کا اظہار کیا‘ وہیں کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ شہروں میں بھی بعض اوقات گٹروں کا پانی پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ یقینا دونوں ہی باتیں تشویش ناک ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے تدارک کے لیے کیا ہو سکتا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پانی کی کمی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں انفرادی طور پر لوگوں کا رویہ اور پانی کے استعمال کا طریقہ کار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اب اس بات کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کی عادات بدل کر روزانہ کروڑوں لٹر پانی بچایا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلی بات بہت سادہ سی مگر بہت زیادہ اہم ہے۔ یہ بات پہلی دفعہ راقم نے1996ء میں ایک عالمی کانفرنس میں ایک ماہر ماحولیات کے منہ سے اس وقت سنی تھی جب وہ اپنا تحقیقی مقالہ پڑھ رہے تھے۔ بات کچھ یوں ہے کہ صبح کے وقت ٹوتھ برش کرتے وقت اگر ایک انسان پانی کا نل کھلا رکھتا ہے تو دس سے بارہ لٹر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اگر آپ اس دوران پانی کا نل بند رکھیں تو یہ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو یہ بات معمولی لگتی ہے تو یہ سوچیں کہ اگر یہ پانی آپ روزانہ کی بنیاد پر خریدتے ہوں تو کیا آپ اسی طرح نل کھلا رکھیں گے؟ دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ صرف لاہور شہر یا کراچی میں اگر ایک کروڑ لوگ برش کرتے ہیں اور اس دوران دو سے تین لٹر پانی ضائع کرتے ہیں تو ہر روز پانی کی کتنی مقدار ضائع ہوتی ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مرد حضرات جو روز صبح کے وقت شیو کرتے ہیں‘ وہ بھی اتنی ہی مقدار میں پانی بچا سکتے ہیں۔ پانی کی بچت کرتے وقت ایسی تدابیر کو اپنانا واٹر سینس (WaterSense) کہلاتا ہے۔
اگر ہر روز درج بالا مدات میں پانی بچایا جائے تو یہ کروڑوں بلکہ اربوں لٹر پانی بن جاتا ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے گھر میں روزانہ کی بنیاد پر برتن صاف کرنے کی۔ یقینا یہ کام دن میں کم از کم دو‘ تین دفعہ کرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر نل سے بہتے پانی کی رفتار کم کر کے یا پھر ٹب نما بڑے برتن میں ایک ہی وقت میں تمام برتن بھگو کر پانی بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح گاڑی دھوتے وقت اگر پائپ کے ذریعے تیز دھار پانی حاصل کیا جاتا ہے تو گاڑی دھونے میں ڈیڑھ سو سے دو سو لٹرپانی ضائع ہو جاتا ہے۔ گاڑی دھونے کے لیے اگر جدید مشینی طریقے اپنائے جائیں تو ان کی مدد سے بہت ہی کم مقدار میں پانی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح گھروں میں لان اور پودوں کو پانی دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ پانی صرف چھڑکائو کی صورت میں دیں، نہ کہ پانی کا پائپ کھلا چھوڑ دیں۔ اس بات کو معمولی اس لیے تصور نہ کریں کہ پانی کے اس طرح استعمال سے آپ اسّی فیصد تک پانی کا بچائو کر سکتے ہیں۔
اب اگلی بات کا تعلق پھر ہمیں غسل خانے کی طرف لے جاتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ آج کل سخت قسم کی گرمی پڑ رہی ہے۔ اگر ہم دس بجے کے بعد نہانے کیلئے جاتے ہیں تو نل میں سے گرم پانی آتا ہے۔ اب اس پانی سے تو نہیں نہایا جا سکتا، لہٰذا لازم ہو جاتا ہے کہ ہم کچھ دیر ٹھنڈے پانی کے انتظار میں اس گرم پانی کو بہتا رہنے دیں۔ اس سارے عمل میں کتنا پانی بہہ جاتا ہے‘ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اگر وقت دوپہر کا ہو تو ٹھنڈا پانی آنے تک صبح یا شام کی نسبت کہیں زیادہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اب اس کا حل کتنا آسان اور سادہ ہے‘ یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ آپ غسل خانے میں ہمیشہ ایک بلکہ دو بڑی بالٹیاں رکھیں۔ رات کے وقت اگر بالٹی میں پانی بھر کر رکھ لیںتو صبح تک اس میں موجود پانی ٹھنڈا ہو چکا ہو گا اور آپ کو نہاتے وقت تازگی کا احساس بھی ہو گا۔ نہانے کے بعد بالٹی کو دوبارہ بھر کر رکھ دیں۔ بالٹی یا ٹب سے نہاتے وقت پانی کا ضیاع بھی کم سے کم ہو گا۔ واضح رہے کہ شاور سے نہاتے وقت بہت زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ اب اگر آپ کو یہ تدابیر معمولی یا بچکانہ معلوم ہو رہی ہیں تو یقین کریں کہ کسی ایک کے شروع کرنے سے ہی ایسی تحریک شروع ہوتی ہے‘ جس کے نتیجے میں مجموعی شعور بیدار ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ''ایک لاکھ نصیحتوں اور مشوروں سے ایک چھوٹا سا عمل بہتر ہوتا ہے‘‘۔
اسی طرح پانی کے بچائو کے حوالے سے ایک کام اور ہے‘ جو تقریباً پورے مغرب میں لاگو ہو چکا ہے۔ اس کا تعلق بیت الخلا سے ہے۔ شہروں کے اندر فلش سسٹم چلتے ہیں اور رفع حاجت کے بعد آپ فلش کا بٹن یا ہنڈل دبا دیتے ہیں۔ اس عمل میں پانچ سے چھ لٹر پانی بہہ جاتا ہے۔ اب مغرب نے اس معاملے پر تھوڑا غور کیا اور حل یہ نکالا ہے کہ اگر آپ صرف پیشاپ کرتے ہیں تو اس کو بہانے کیلئے چھوٹا بٹن دباتے ہیں جس سے ڈیڑھ‘ دو لٹر پانی بہتا ہے اور صفائی ہو جاتی ہے، جبکہ رفع حاجت کی صورت میں آپ بڑا بٹن دباتے ہیں جس میں پانچ سے چھ لٹر پانی بہتا ہے۔ ہر انسان دن میں متعدد بار پیشاپ کرنے کیلئے واش روم جاتا ہے‘ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اس سے پانی کی کتنی بچت ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے مغربی ممالک میں دو بٹنوں والا فلش سسٹم نہ صرف متعارف کرایا گیا ہے بلکہ لازم قرار دیا گیا ہے۔ ویسے بھی وہاں پر عوام حکومت کے کسی بھی ایسے اقدام پر فوری عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس قسم کے فلش سسٹم متعارف تو ہو چکے ہیں مگر ان کی تعداد بہت محدود ہے۔ مزید یہ کہ جہاں کہیں یہ فلش سسٹم لگے ہوئے ہیں‘ وہاں بھی سب لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ دو بٹن کس لیے لگے ہوئے ہیں۔ مزید ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوںبٹنوں میں کوئی واضح فرق ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ امر لازم ہوجاتا ہے کہ فلش سسٹم بنانے والوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایک بٹن والا سسٹم بنانا بند کر دیں‘ اسی طرح دو مختلف بٹنوں میں واضح فرق ضرور رکھیں۔ اس سلسلے میں لوگوں میں آگاہی کیلئے مہم چلانا بھی بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر فلش سسٹم بنانے کے حوالے سے اس قسم کے قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے تو اس طرح پانی کی بچت کا مزید ایک طریقہ آسانی سے لاگو کیا جا سکتا ہے۔
اب ذکر کاشت کاری میں استعمال ہونے والے پانی کا‘ جو ہمارے ہاں آج بھی صدیوں پرانے طریقے سے استعمال ہو رہا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم زرعی زمین کو سیراب کرنے کے لیے جو طریقہ استعمال کرتے ہیں اس کو flood irrigation یعنی سیلابی آب پاشی کہا جاتا ہے۔ مطلب بہت واضح ہے کہ ہم بے دھڑک ہو کر پانی کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ سارا پانی استعمال بھی نہیں ہوتا بلکہ اس میں سے ساٹھ سے ستر فیصد تک پانی غیر ضروری طور پر کھیتوں میں جاتا ہے اور ضائع ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے کسانوں کو جدید طریقوں سے متعارف کرانا بہت ضروری ہے۔ اس کام کے لیے پہلے اس جدید مشینری کی ضرورت ہے جو کھیت کو مکمل طور پر لیول کرے تاکہ کھیت کا کوئی حصہ اونچا یا نیچا نہ رہے۔ اگر کھیت مکمل طور پرلیول نہ ہو تو جو حصہ نیچا ہو گا‘ وہاں زیادہ پانی چلا جائے گا اور جو حصہ اونچا ہو گا وہاں پانی یا تو کم جائے گا یا پھر بالکل نہیں جائے گا۔ یہ دونوں صورتیں کھیتوں اور فصلوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ایسے اونچے‘ نیچے کھیتوں کو سیراب کرنے کیلئے سیلابی آب پاشی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اگر زرعی زمین کو لیول کر کے استعمال میں لایا جائے تو اس سے بھی زراعت میں پانی کی خاصی بچت ہو سکتی ہے۔ نیز اب ڈِرپ ایریگیشن سمیت متعدد دوسرے طریقوں سے بھی پانی بچایا جا رہا ہے۔
آج ہی سے واٹر سینس کا مظاہرہ کریں۔ نہانے کے لیے پانی بالٹی میں بھر کر پانی ٹھنڈا رکھنے کا طریقہ کتنا مؤثر ہے‘ آزما کر ضروردیکھئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں