گمان‘ دھیان اور گیان

گمان سے آگے بڑھ کر دھیان دیں۔ آج کا گیان یہی ہے کہ دنیا کے حالات وواقعات ماضی کے مقابل کئی گنا زیادہ تیزی سے اور بھیانک طرز پر بدل رہے ہیں۔اس بات کا عندیہ گزشتہ کئی تحریروں میں دیا جا چکا ہے۔ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اب دنیا ایک دہائی میں کئی دہائیوں کے برابر تبدیلیاں دیکھے گی۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب ایک سال میں جو کچھ بدل جاتا ہے‘ وہ ماضی قریب میں ایک‘ ایک دہائی میں بدلتا تھا۔ اس کی وجہ دنیا میں انتہائی خاموشی سے ایک غیر اعلانیہ اورانتہائی گہری سرد جنگ میں آنے والی تیزی بھی ہے۔ اس جنگ کو سرد اب صرف اصطلاحاً ہی کہا جاسکتا ہے وگرنہ تو یہ جنگ کئی محاذوں پر نہ صرف مکمل گرم ہے بلکہ اس جنگ سے اس وقت پوری دنیا بری طرح متاثر ہو رہی ہے لہٰذا اس کو اب گرم نہیں تو کم از کم نیم گرم کہنا چاہیے۔ تقاضا بھی یہی ہے کہ اب اسے سرد کے بجائے ''نیم گرم عالمی جنگ‘‘ کا نام دیا جائے۔ اس جنگ کے دو بڑے دھڑے تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے؛ امریکا اور چین۔ دونوں ملکوں میں اصل جھگڑا عالمی حکمرانی کا ہے۔چین نے کئی برس قبل سے امریکا کی عالمی حکمرانی کو چیلنج کر تے ہوئے اس کی حیثیت کو کم تر کردیا ہوا ہے۔چین کے علاوہ دوسری قدرے بڑی طاقت روس نے بھی امریکی سربراہی میںچلنے والی مغربی بالا دستی کو یوکرین جنگ کی شکل میں‘ہر طرح کی آزمائش اور مشکل میں ڈال رکھا ہے۔چین اور روس کسی باقاعدہ اعلان کے بغیر ایک دوسرے کا مکمل ساتھ دے رہے ہیں۔اس عالمی بالا دستی کی جنگ صدیوں پرانی ہے۔ یہ درحقیقت مشرق اور مغرب (ایشیا اور یورپ و امریکا)کی کشمکش ہے۔اس کے علاوہ دو نظریات‘ سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم وسوشل ازم‘ کا پرانی سرد جنگ کی طرز پر ٹکرائو بھی اس کا سبب ہے۔
جس طرح مذکورہ صورتحال کے لیے نیم گرم عالمی جنگ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے‘ اسی طرح باقی دنیا جس طرح کے حالات کا سامنا کر رہی ہے ان کو نیم جنگی حالات بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان حالات میں زیادہ تر لوگ معاشی و نفسیاتی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔معیشت پرایک بڑااثر انرجی کے ذرائع اور ان کی قیمتوں کا ہوتا ہے۔اگر انرجی کی سپلائی متاثر ہو یا اس کی قیمت بڑھ جائے تو خود بخود تما م چیزوں کی لاگت اور قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔روس کے یوکرین پر آپریشن کی طرز پر جنگ مسلط کرنے کے بعد عالمی سطح پر روس کا بائیکاٹ ہونے اور یوکرین سے تیل کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں اس وقت بلند ترین سطح پر ہیں۔اس کے علاوہ دنیا ابھی تک کورونا کے باعث متاثر ہونے والی معاشی و کاروباری سرگرمیوں کو بحال نہیں کر سکی اور ان میں پڑنے والے تعطل سے ہونے والے نقصان سے پوری طرح نکل نہیں پائی۔گویا لوگوں کی قوتِ خرید پہلے ہی کم تھی‘ اوپر سے ہر چیز کی قیمت مزید بڑھ گئی۔متعدد انٹرویوز میں مغربی دنیا کے خوشحال لوگ بھی اس بات کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اشیائے خور ونوش سے لے کر دیگر تمام ضروری چیزوں تک‘ ہر چیز کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وہ اپنی خریداری کی لسٹ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اس وقت دنیا میں سب سے بنیادی چیز یعنی خوراک کی نہ صرف قیمتیں بڑھ گئی ہیں بلکہ اس کی قلت کے خدشات بھی منڈلا رہے ہیں۔جب خوراک کی بات کی جائے تو سب سے پہلا ذکر گندم کا ہو گا۔ یہ ایک ایسی جنس ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ ممالک میں کاشت ہوتی ہے اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے۔ زیادہ تر ممالک اس کی پیداوار کے باوجود اس کو در آمد کرتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا زرعی ملک بھی اب اس لسٹ میں شامل ہو چکا ہے۔ اگر گندم درآمد کرنے والے ممالک کی تعداد دیکھی جائے تو یہ ایک سو بیس کے قریب ہے۔اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر گندم کا بحران آ جائے تو فوری طور پر ایک سو بیس ممالک تشویش میں مبتلا ہو جائیں گے۔اب قصہ کچھ یوں ہے کہ روس دنیا میں گندم سپلائی کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے بلکہ سادہ ترین لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ روس اور یوکرین مل کر دنیا کی ایک تہائی گندم برآمد کرتے ہیں جبکہ اس برآمد کا بڑا حصہ یورپی ممالک کوجاتا تھا۔اب اگر کُل گندم کی پیداوار میں سے ایک تہائی مقدار نکل جائے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کی شدت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔روس کی گندم تو کچھ ممالک پابندیوں کے باوجود شاید خرید ہی لیں مگر یوکرین‘ جس کا دنیا کی کل سپلائی میں حصہ تقریباً آٹھ سے دس فیصد ہے‘یا تو جنگ کے باعث اس کی فصل تباہ ہو گئی ہے یا پھر روس کے قبضے کی وجہ سے اس کو برآمد نہیں کیا جا سکتا۔ اس جنگ کی وجہ سے اگلی فصل کی بوائی کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب تو بات مزید واضح ہوچکی ہو گی کہ کس طرح دو ممالک کی نیم گرم جنگ نے پوری دنیا کو متاثر کر رکھا ہے۔
اب اس جنگ کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔اگر روس نے مغربی دنیا کو مشرقی یورپ میں الجھالیا ہے تو اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔اس میں ایک چیز ابھی تک واضح نہیں ہو پائی کہ روس اتنی سست رفتاری سے آگے کیوں بڑھ رہا ہے،کیا وہ صرف یوکرین کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے یا پھر وہ محض اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ نیٹو یوکرین کی شکل میں مزید کوئی توسیع نہیں کرے گا۔اس کے بعدایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا روس یوکرین کے بعد دیگر یورپی ملکوں‘ جو پہلے سوویت یونین کا حصہ تھے‘کے حوالے سے بھی اپنی توسیع پسندی جاری رکھے گا؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ روس کب تک اس کشمکش میں مغربی پابندیوں کے خلاف اپنے آپ کو مستحکم رکھ سکتا ہے۔ اگر یہ صورت حال مزید طول پکڑتی ہے تو اس کے کیا مزیداثرات برآمد ہوں گے اور یہ کہ کیا اس محاذ پر درپردہ چین روس کی مدد کر رہا ہے؟ اب تک یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ امریکا و یورپ اسلحے کے حوالے سے یوکرین کی مدد کر رہے ہیں۔ اگر چین کی روس کی مدد کے حوالے سے اطلاعات صحیح ہیں تو پھر سادہ لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ چین نے امریکا کے خلاف ایک پراکسی جنگ شروع کر دی ہے۔اس بات کا وزن اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ شاید اسی لیے امریکا نے چین کے ایک اہم اتحادی یعنی پاکستان پر 'چڑھائی‘ میں اضافہ کر رکھا ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کا معاشی بازو نہ صرف مروڑا گیا ہے بلکہ اب تو اس کو معاشی طور پر نقصان بھی پہنچایا جا رہا ہے۔صرف بجلی کے نرخوں اور پٹرول و گیس کی قیمتوں کو ہی لیا جائے تو کساد بازاری اور عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے بادل مزیدگہرے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کی صورت حال کو عالمی صورتحال سے جوڑا جا رہا ہے مگر اس عالمی کشمکش میں صرف ایک ملک ایسا ہے جو اس وقت انتہائی کامیابی سے نہ صرف آگے بڑھ رہاہے بلکہ اپنے مقاصد برق رفتاری سے پورے کر رہا ہے اور وہ ملک ہے اسرائیل۔ اس نے اپنے آپ کو پہلے مختلف عرب ممالک میںمختلف طریقوں سے منوایا اور اب کھلے لفظوں میں پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے حالات دیکھ کر یہ سازشی تھیوری دوبارہ زور پکڑ رہی ہے کہ کورونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے پیچھے اسرائیلی دماغ ہی کارفرما تھے۔اگر ایسا نہیں تھا‘ تو بھی ایک بات طے ہے کہ کورونا اور اس کے بعد کی تمام تر عالمی پیچیدگیوں میں صرف یہی ایک ملک ہے جس نے مشکلات کے بجائے کامیابیاں سمیٹی ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ان پر دبائو ڈالا گیا۔ یہاں پر ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ چین اور اسرائیل کے تعلقات انتہائی مثبت ہیں۔اسی طرح بھارت اور اسرائیل بھی گہرے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور بھارت اسرائیلی طرز کے مظالم ہی مظلوم کشمیریوں پر آزما رہا ہے۔اس تناظر میں پاکستان کو چین سے واضح طور پر اپنے خدشات و توقعات کے حوالے سے ضرو ر بات چیت کر لینی چاہئے۔یاد رکھیں عالمی سیاست قومی سیاست سے دس گنا زیادہ ظالم ہوتی ہے اوراس بات کا دھیان اور گیان ہونا بقا کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں