آج کے کالم میں ایک ایسی شخصیت کے انٹرویوکا ذکر کریں گے جو ہمارے بہت سارے مغالطے، نظریات اور کچھ لوگوں کے خود ساختہ تصوارت کی نفی کرتے ہوئے ہمیں درست حقائق سے آگاہ کرے گا۔ یہ شخصیت پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان ہیں۔ سفارتکاری کے میدان میں تو شمشاد احمد خان کا ایک الگ مقام ہے ہی مگر ان کی ایک خاص انفرادیت یہ ہے کہ یہ ایٹمی دھماکوں کے وقت سیکرٹری خارجہ کے عہدے پر فائز تھے اور بہت سی باتوں کے عینی شاہد ہیں۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بیورو کریسی کو آج بھی برطانوی دور جیسا اختیار اور پروٹوکول حاصل ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے آخری دور میں چین نے حکومتِ پاکستان سے باضابطہ شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ افسر شاہی سی پیک اور چین کے جاری دیگر منصوبوں میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ واضح رہے کہ چین کی پالیسی اس حوالے سے کافی محتاط ہے مگر سول بیورو کریسی کی شکایت کیے بنا وہ بھی نہیں رہ سکا۔ لیکن آج آپ کو افسر شاہی کے ایک دوسرے روپ سے متعارف کرائیں گے اور اس طرح تصویر کے دونوں رخ آپ کے سامنے آ سکیں گے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ سیکرٹری خارجہ کے عہدے پر فائز شمشاد احمد خان نے نہ صرف ایٹمی دھماکوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا بلکہ آج بھی وہ واشگاف الفاظ میں پاکستان کے اندر ہر سطح پر جاری مغربی بالخصوص امریکی مداخلت کو حقائق، واقعات اور شخصیات کے ناموں کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس حوالے سے دیا گیا ان کا ایک انٹرویو خاصا وائرل ہے۔
شمشاد صاحب نے پاک امریکا تعلقات کا خلاصہ بیان کیا تو سب سے پہلے 1965ء کی جنگ کا ذکر کیا کہ اس جنگ میں پاکستان کی واضح اور مکمل جیت کوکس طرح امریکہ اور مغرب نے ادھورا کر دیا تھا۔ ان کے بقول پاکستانی فوج کے دستے انتہائی تیزی سے کشمیر میں چھمب جوڑیا تک پہنچ گئے تھے۔ اگر آپ نقشہ پر دیکھیں تو یہ کشمیر کا وہ علاقہ ہے جہاں سے دریائے جہلم پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستانی فوج کی اس تیز رفتار پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور ایک یورپی ملک کا ایک ایک اعلیٰ عہدیدار پاکستان آیا اور ہر طرح کا پریشر ڈال کر اس آپریشن کی کمان کو نہ صرف تبدیل کرایا بلکہ اس پیش رفت کو بھی تقریباً رکوا دیا۔ ایک معتبر صحافی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات تسلیم کی کہ اس جنگ میں پیش قدمی کرنے والی کمان کو تبدیل کر دیا گیا تھا، البتہ یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ایسا کس یعنی کون سی عالمی طاقتوں کے پریشر پر ہوا تھا۔ اس جنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک طبقہ یہی واویلا کرتا رہتا ہے کہ یہ جنگ برابر رہی تھی اور کسی کی جیت‘ ہار نہیں ہوئی تھی۔ اس حوالے سے سابق سیکرٹری خارجہ اس وقت کے ایک غیر ملکی سفارتکار کے الفاظ دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے کہا تھا کہ ''جس رفتار سے آپ آگے بڑھ رہے ہیں‘ اس طرح تو آپ چند دنوں میں دہلی تک پہنچ جائیں گے‘‘۔ اب یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہماری نصابی و غیر نصابی کتابوں میں ان حقائق کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟ واقعاتی شواہد چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے اپنے سے تین گنا عددی برتری رکھنے کے باوجود بھارت کے اچانک حملے کو نہ صرف پسپا کر دیا تھا بلکہ اسے شکست سے بھی دوچار کیا تھا۔ سابق سیکرٹری خارجہ کے انٹرویو سے کم از کم یہ بات تو طے ہو گئی کہ اس جنگ میں ہم واضح فتح سے کیوں دور رہے یا کیوں دور کر دیے گئے۔
اب اگر آپ آج کے حالات کو دیکھیں تو مقبوضہ کشمیر آج بھی دنیا کا مظلوم ترین علاقہ ہے، جہاں ایک بڑے ملک کی کل فوج جتنی تعداد میں تعینات عسکری دستے بربریت کی نت نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی کل تعداد دنیا کی تاریخ میں کسی بھی علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک کروڑ آبادی کے لیے سات لاکھ سے زائد افواج اور نیم عسکری دستے تعینات ہیں جبکہ ریاستی پولیس اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح اوسطاً ہر دس افراد پر ایک فوجی اہلکار تعینات ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بلکہ جنگ زدہ علاقوں میں بھی آپ کو کہیں اور یہ تناسب دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے سبب نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا امن دائو پر لگا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ پوری دنیا میں کشمیر کے تنازع کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی سب سے بڑی وجہ اور فلیش پوائنٹ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں دو ایٹمی طاقتوں کے مابین تنازع کا یہ مقام نہ صرف پورے خطے بلکہ پوری دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب بھی مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کی بات کی جائے تو لاعلمی اور بددیانتی کا ایک صحرا نظر آتا ہے۔ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف منائے جانے والے دن ہوں یا تحریریں، تقریریں اور ٹاک شوز، ان میں کشمیر کی قدیم تاریخ سے لے کر تاجِ برطانیہ کی بد دیانتی پر مبنی تقسیم تک‘ ہر بات کا تذکرہ کیا جاتا ہے لیکن یہ بات شاید ہی بیان کی جاتی ہو کہ جب جب یہ مسئلہ اپنے حل کی طرف بڑھا تو کس طرح عالمی طاقتوں نے یہاں مداخلت کی۔ یہاں تک کہ آپریشن جبرالٹر کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی پوری حقیقت بیان نہیں کی جاتی۔ اب بات اس نہج تک آگئی ہے کہ ایک طرف تو مقبوضہ وادی میں بھارت کا ریاستی ظلم و ستم جاری و ساری ہے تو دوسری طرف جن طاقتوں کی طرف سے اس کی پیٹھ تھپتھپائی جا رہی ہے‘ ان کا نام تک نہیں لیا جاتا۔
تاریخ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جس میں طاقتور کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک کہانی لکھی اور بیان کی جاتی ہے، اسی طرح تاریخ دانوں کا ایک مشہور مقولہ ہے: History is half guess and half is biased۔ مطلب یہ کہ آدھی تاریخ اندازوں پر مشتمل ہوتی ہے اور باقی ذاتی پسند و تعصب پر مبنی۔ لیکن ایک بات بہت اہم ہے‘ وہ یہ کہ امریکا اپنے کچھ مظالم و جرائم کو وقت گزرنے کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے، جیسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اس کی مرضی اور خواہش کا شامل ہونا، بھٹو حکومت کا خاتمہ، حتیٰ کہ ضیاء الحق دورکا خاتمہ۔ کچھ باتیں تو سیکرٹ پیپرز کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے سے عوام کے سامنے آ جاتی ہیں اور کچھ اعلیٰ عہدیدار اپنی کتابوں‘ انٹرویوز اور بیانات میں ظاہر کر دیتے ہیں، جیسے صدر ضیاء الحق کی حادثاتی موت پر ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بیان دیا تھا کہ یہ حادثہ ہمیشہ ایک معمہ رہے گا۔ شمشاد احمد خان کا مذکورہ انٹرویو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کی وجہ امریکی سازش کو قرار دے رہے ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ نے اس الزام پر کسی بھی قسم کی حیرانی کا اظہار کرنے یا اسے ایک غیر معمولی بات سمجھنے کی بجائے ایک روٹین کی چیز سمجھتے ہوئے درست قرار دیا۔
راقم نے کالموں کی ایک سیریز میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں غیر ملکی مداخلت کا تفصیلی ذکر کیا تھا۔ اس ضمن میں بھارت کا بھی ایک دعویٰ ہے۔ بھارت کی چین کے ساتھ سرحد لگ بھگ ساڑھے چار ہزار کلو میٹر طویل ہے جو تقریباً تمام کی تمام متنازع ہے۔ اس سرحد پر آئے دن جھگڑے اور جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ چین کے بار ہا چاہنے کے باوجود بھارت چین کے ترقیاتی اور بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبوں میں نہ صرف شامل نہیں ہوا بلکہ ان کو سبوتاژکرنے کیلئے مختلف وارداتیں بھی کرتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ بھارت امریکی اور مغربی شہ پر کر رہا ہے۔ اپنے ملک میں دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کی فکر کرنے کے بجائے وہ اپنی سرحد سے ہٹ کر بھی چین مخالف سرگرمیوں کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے۔ اپنے سبھی پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کے سرحدی جھگڑے چل رہے ہیں اور سب ممالک کے خلاف بھارت پراکسی جنگ چھیڑے ہوئے ہے مگر مغربی مداخلت اور مرضی کا شاید بھارت کو گمان تک نہیں کیونکہ ایک ارب سے زائد آبادی والا انتہا پسند بھارت اب دنیا بھر کے لیے بوجھ بنتا جا رہا ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ جلد یا بدیر‘ چین بھارت سے بھڑنے والا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ جب چین نے بھارت کی جانب پیش قدمی شروع کی تو وہ کسی غیر ملکی مداخلت سے رکے گا نہیں۔ اگر اب بھی بھارت وقت کے تقاضوں اور حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھتا تو جو کچھ اس کے ساتھ ہو گا‘ اس پر یہ کسی غیر ملکی طاقت کو الزام بھی نہ دے سکے گا۔