خراب خوراک، گدلا پانی اور آلودہ ہوا

روزنامہ دنیا میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان غذائی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ مطلب دنیا میں صرف آٹھ ممالک ایسے ہیں جہاں غذائی قلت ہم سے زیادہ ہے۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔ خاص طور پر ایک زرعی ملک ہونے کے وجہ سے یہ ایک قومی المیے سے کم نہیں۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر کانگو‘ دوسرے پر افغانستان‘ تیسرے پر ایتھوپیا‘ پھر یمن‘ اگلا ملک نائیجیریا‘ اس کے بعد جنگ زدہ شام‘ ساتویں اور آٹھویں نمبر پر سوڈان اور سائوتھ سوڈان ہیں۔ ان پسماندہ ترین ممالک کے بعد اگلا نمبر پاکستان کا ہونا کس حد تک تشویش کی بات ہے‘ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 25فیصد آبادی مکمل یا جزوی طور پر غذائی قلت کا شکار ہونے کے قریب ہے۔ اس شرح کے حساب سے ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد لوگ غذا جیسی بنیادی ضرورت کی کمی کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار آپ کے سامنے رکھنے کی وجہ آبادی میں بے پناہ اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشان دہی کا سلسلہ ہے جو گزشتہ کالم سے جاری ہے۔ اِس فہرست کے دیگر ممالک کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ پاکستان سے بدتر صورتحال کا شکار ممالک جنگی کیفیت اور افراتفری کا شکار ہیں لیکن ان جنگ زدہ ممالک کے بعد اگلا نمبر پاکستان کا ہے جہاں پر جنگی کیفیت تو نہیں ہے مگر بیرونی مداخلت‘ سیاسی افراتفری‘ کرنسی کی تنزلی تو اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ کسی بھی جنگ زدہ ملک سے کم نہیں۔ اسی طرح کووڈ کے مضر اثرات اب بھی معاشی میدان پر بھیانک بادلوں کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔اب اس بھیانک تصویر کے اصل رخ کی جانب مڑتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں ہر سال پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا اضافہ خوراک کی طلب میں ایسا اضافہ ہے جو مسلسل جاری ہے۔ یاد رہے آبادی اگر پڑھی لکھی‘ ہنر مند اور صاحبِ صلاحیت ہو تو وہ اتنا کما سکتی ہے کہ اپنی خوارک بخوبی خرید سکے۔ اس طرح کی آبادی وسائل کے زمرے میں آتی ہے لیکن اگر آبادی ناخواندہ‘ بغیر کسی ہنر کے ہو تو وہ ایک ایسا بوجھ بنتی ہے جو دیگر کئی طرح کے بوجھ مزید پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے آبادی کا بے ہنگم اضافے کو Slow & Gradual Bomb کہا جاتا ہے۔ اور یہ بم نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے اندر بھی اب ہولناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑا مزید غور کرنا پڑے گا۔ شروع کرتے ہیں۔
سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جب غذا یا خوراک کی بات کی جاتی ہے تو اس میں دال روٹی کے ساتھ ایک اور عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پانی کی بات ہو رہی ہے۔ اگر آپ کسی شہر کے باسی ہیں تو آپ کو پانی بھی خریدنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ پانی تو آپ کو سارا دن پینا پڑتا ہے۔ اگر آپ نے کسی ہوٹل سے کھانا کھایا تو آپ کو پانی کے بھی پیسے بلکہ روپے دینا پڑتے ہیں جس سے کھانے پر آنے والی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اور اگر آپ پانی کھلے نل سے پیتے ہیں تو اس کے صاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ نے کھانا تو کھا لیا اور بعد میں پانی ایسا پیا جو صحت مند نہیں تھا تو آپ کی غذا غیرمحفوظ ہو گئی۔ پانی کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ پاکستان کے کم از کم اسی فیصد علاقوں کا پانی مکمل صحت مند نہیں ہے۔ اور اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ بہت بنیادی ہے کیونکہ پاکستان میں مصنوعی کھادوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور ابھی یہ تہہ ہونا باقی ہے کہ یہ مصنوعی کھادوں کا معیار کیا ہوتا ہے۔ مصنوعی کھاد جب کھیت میں پھینک دی جاتی ہے تو یہ پانی کے ساتھ زیر زمین جذب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے زیر زمین پانی میں آرسینک شامل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس بنیادی اور مسلسل جاری رہنے والے عمل کی وجہ سے زیر زمین پانی لا محالہ طور پر آلودہ ہو جاتا ہے۔
اب اسی بات کے ایک اور پہلو کی طرف چلتے ہیں۔ پاکستان میں جب فصلیں کاشت کی جاتی ہیں تو ٹیوب ویل کے ساتھ زمین میں سے پانی نکالا جاتا ہے‘ جس طرح پہلے کہا گیا کہ زیر زمین پانی آلودہ ہو چکا ہے تو پھر کاشت کی جا نے والی فصل کو جو پانی لگایا جائے گا لازمی طور پر اس کے اثرات فصل میں منتقل ہوں گے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اگر آپ فیصل آباد ڈویژن کے علاقے سے چاول خرید کر ان کو پکائیں گے تو وہ ہر گز کھِلے ہوئے نہیں پکیں گے۔ اسی طرح اس علاقے کی گندم کی روٹی ہر گز خستہ قسم کی نہیں پکے گی۔ میں نے فیصل آباد کے ہی اپنے ایک دوست کسان سے اس کا حل پوچھا تو کہنے لگا: ہم اپنے کھانے کے لیے دوسرے علاقے کی گندم اور چاول منگواتے ہیں۔ واضح رہے خراب ترین پانی میں سرگودھا اور فیصل آباد کے علاقے پنجاب میں پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ آپ اگر کبھی ان علاقوں میں گئے ہیں یا یہاں کے باسی ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان علاقوں کا پانی پینے کے قابل ہرگزنہیں ہے۔ فیصل آباد کے لوگ تو اس شہر میں سے گزرنے والی نہر کے کنارے لگے پمپس کی مدد سے حاصل کیا گیا پانی قیمتاً خرید کر پیتے ہیں۔ چلیں بات کے اصل رخ کی طرف آتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے کہ آلودہ پانی والے علاقوں کی فصلیں اور سبزیاں جو لوگ بھی کھاتے ہیں‘ ان کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ دراصل کافی حد تک آلودہ خوارک کھا رہے ہیں۔ اب واضح یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کا غذائی بحران تو سنگین تر ہو چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جن کو غذا پوری مقدار میں میسر نہیں تو دوسری طرف وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے غذا تو کھائی مگر آلودگی والی۔ کسی ایک انسان کو مطلوبہ غذا نہ ملنا Under Nutrition کہلاتا ہے جبکہ غذا کا صحت مند نہ ہونا Malnutritionکہلاتا ہے۔
اب اس بحران کے ایک اور پہلو کی جانب چلتے ہیں جو فضائی آلودگی ہے۔ آب و ہوا میں موجود آلودگی کس طرح کسی بھی فصل کی صحت اور معیا پر اثر انداز ہوتی ہے‘ اس پہلو کو فی الحال چھوڑ دیں مگر زندہ رہنے کے لیے پانی کی طرح یہ عنصر بھی زندگی کی کس قدر لازم ترین ضرورت ہے‘ اس پر غور کریں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم سانس لینے کے لیے آکسیجن یعنی صاف ہوا کی بات کر رہے ہیں۔ اس پہلو پر تھوڑا اور غور کرنا پڑے گا! معاملہ بہت سنجیدہ ہو گیا ہے کیونکہ سانس لینے کے لیے صاف ہوا تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے علاوہ کہیں میسر ہی نہیں ہے۔ پہلے اپنا تصور مکمل کر لیتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے کہ انسان کو جو چیزیں‘ کم از کم زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں‘ اُن میں غذا کے ساتھ پہلے صاف پانی کا ذکر ہو ا تو اب اس میں صاف ہوا‘ مطلب آکسیجن بھی شامل ہو گئی۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘ خوارک دن میں دو سے تین دفعہ‘ پانی متعدد بار لیکن آکسیجن تو ہر لمحہ لازم ہے۔ اب آکسیجن کی بات کریں تو اکتوبر کے مہینے میں پید ہونے والی سموگ نام کی زہریلی دھند تو آپ کو یاد ہی ہو گی۔ اب ذرا رکیں اور مزید یاد کریں تو گزشتہ سال یہ آلودہ اور زہریلی دھند پورے موسم سرما کے دوران چھائی رہی تھی۔ صرف بارش کے بعد ایک دو روز کے لیے مطلع صاف ہوتا تھا‘ اس کے بعد سموگ نامی دھند پھر سے چھا جاتی تھی۔
اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح غذا کے نہ ملنے یا خراب غذا کے ملنے سے صحت خراب ہوتی ہے تو اسی طرح خراب پانی بھی مسائل پیدا کرتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خراب ہوا بھی مستقل طور پر صحت کو خدشات لاحق کرتی ہے۔ ہم نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ دال روٹی کے ساتھ صاف پانی اور ہوا بھی مکمل طور پر خوارک کا حصہ ہیں۔ اب اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ اس معیار کے مطابق بھارت‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک اس بحران میں باقی دنیا سے کہیں آگے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں