بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس دعوے کی وجہ اس کی آبادی کا حجم ہے۔ اگرچہ چین آبادی کے اعتبار سے اس سے بڑا ملک ہے لیکن مغربی ممالک چین کو جمہوری ملک نہیں مانتے لہٰذا سب سے بڑی جمہوریت کا 'اعزاز‘ بھارت کو دیا جاتا ہے۔ یہاں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اب چین کی حکومت ہی نہیں بلکہ اس کے اہلِ دانش بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بھی ایک جمہوری ملک ہیں۔ اگر چین میں ہر شخص ووٹ نہیں ڈالتا تو کیا ہوا‘ وہاں سیاسی جماعت تو موجود ہے اور اس کے تمام ارکان ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کا رکن بننے کے لیے آپ کا صاحبِ صلاحیت، صاحبِ کردار اور کارکردگی کا حامل ہونا ضروری ہے۔ بات کو آگے بڑھائیں تو پتا چلتا ہے، بھارت آبادی کے اعتبار سے اگلے سال چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ اس طرح اگلے سال سے وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ضرور کر سکتا ہے۔ میں نے ''سیاسی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس کی وضاحت آگے چل کر ہو گی۔ آج کے مدعے کی طرف چلیں تو پتا چلتا ہے کہ بھارت میں دنیا کی سب سے کرپٹ قوم اور سب سے کرپٹ حکومت ہے۔ یہ اعزاز اس کے حصے میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہونے کی وجہ سے آیا ہے۔ مطلب یہ کہ پوری دنیا میں ہونے والی کرپشن کے حجم کو شمار کیا جائے تو بھارت سب سے بڑا کرپٹ ملک ہے۔ اس اعتبار سے اس کی برابری چین ہی کر سکتا تھا مگر وہاں کرپشن پر موت کی سزا ہے جس کی وجہ سے وہاں کرپشن کا حجم خاصا کم ہے۔
ابھی حال ہی میں بھارت کے اندر چند افراد پر مشتمل ایک ایسے گروہ کا پردہ چاک ہوا ہے جو ایک سوکروڑ یعنی ایک ارب روپے میں لوگوں کو گورنر کا عہدہ دلانے کا جھانسا دیتا تھا۔ اس کے علاوہ اتنی ہی رقم میں یہ گروہ راجیا سبھا (سینیٹ) کی نشست دلانے کا بھی وعدہ کرتا تھا۔ یہ گروہ بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں سرگرم تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند ہفتے قبل بھارتی بینکوں میں میگا کرپشن کا ایک بڑا کیس سامنے آیا تھا۔ 34ہزار کروڑروپوں کی کرپشن کے اس کیس پر بھارتی حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح حال ہی میں بھارت کی ریاست مدھیا پردیش میں بننے والی ایک بڑی سڑک اپنے افتتاح کے پانچ دن بعد ہی بیٹھ گئی اور اس میں کئی بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے۔ اس سڑک کی تعمیر پر پندرہ ہزار کروڑبھارتی روپوں کی لاگت آئی تھی۔ یہ رقم امریکی کرنسی میں تقریباً ایک ارب اٹھاسی کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ مطلب سب سے بڑی سیاسی جمہوریت کو تقریباً پونے دو ارب ڈالرز سے زائد کا زہریلا معاشی ٹیکا لگ گیا۔ اس سڑک کا افتتاح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اسی مہینے کیا تھا۔ اس سڑک کا نام ''Bundelkhand Expressway‘‘ رکھا گیا ہے اور اس کی لمبائی 296کلو میٹر ہے۔ اب یہ بھارت کی جمہوریت کی سب سے ''بھیانک خوبصورتی‘‘ ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کے سیاست دان اپنی معاشی بد تری کا ذمہ دار کسی اور کو اس لیے بھی نہیں ٹھہرا سکتے کہ وہاں کبھی بھی جمہوریت کی ریل پٹڑی سے نہیں اتری۔
بات یہ ہے کہ اور کچھ بھی نہ ہو‘ آپ نے بھارتی فلموں میں سیاست دانوں کی کرپٹ حرکات یا کرتوتوں کا ذکر تو بہت زیادہ سنا اور دیکھا ہو گا۔ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ وہاں کے سیاست دان کس طرح الیکشن پیسے کی بدولت جیتتے ہیں اور اس کے بعد کس طرح حکومتیں بنانے کیلئے خرید و فروخت کرتے ہیں۔اس موضوع پر کئی بالی وُڈ فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک فلم کا ڈائیلاگ بہت مشہور ہے جس میں اداکار کہتا ہے کہ ''ایک سے ایک بڑا بے ایمان؍ پھر بھی میرا دیس مہان‘‘۔ مجھے بھار ت کے مشہور صحافی کلدیپ نائر سے ایک ٹی وی شو میں کیا گیا وہ سوال یاد آگیا کہ جب میں نے بہت احترام سے ان سے پوچھا کہ سر! ہم تو کبھی افغانستا ن کی جنگ کا حصہ بن گئے‘ کبھی کسی اور مسئلے میں الجھ گئے لیکن آپ کے ہاں تو کبھی جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی‘ پھر بھی آپ وہیں کے وہیں (پسماندہ)کیوں کھڑے ہیں۔ مجھے کبھی نہیں بھولے گا کہ انہوں نے صرف اتنا جواب دیا تھا: ''نہیں! بہتری آ رہی ہے‘‘۔ اگر بات اس خطے کے دیگر ممالک کی کی جائے تو صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آپ نے پاکستان میں حالیہ کئی ماہ سے جاری سیاسی و معاشی منڈی کا تو بخوبی مشاہدہ کر لیا ہو گا۔ اس حالیہ لہر نے ماضی کی دہائیوں میں کی جانے والی اسی طرز کی خرید وفروخت کی بھی یاد تازہ کر دی ہے۔ اس کو خرید و فروخت کے بجائے کرایہ پر لینا کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ اسی لیے کمیونسٹ ممالک اس طرزِ سیاست کو ''Political Prostitution‘‘ کا سخت گیر مگر انتہائی مناسب نام دیتے ہیں۔ اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ کوئی محض روپے پیسے کی خاطر اپنی وفاداری بدل دے یا بیچ دے۔ اسی طرح کے چال چلن کا شکار ہو کر اسی خطے کا ایک چھوٹا سا ملک سری لنکا پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا بھی کرپشن کے کیسز میں جیل کاٹ رہی ہے۔ بھارت کے علاوہ دیگر علاقائی ممالک کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ کہیں یہ نہ لگے کہ اس خطے میں کرپشن صرف بھارت میں ہو رہی ہے۔
اب بات واپس بھارت کی! ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بھارت صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت اس خطے یعنی جنوبی ایشیاکا سب سے بڑا ملک ہے۔ آزادی کے بعد اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کے بجائے اس نے تمام ہمسایہ ممالک پر اپنی دھونس جمانے کی پالیسی اپنائی اور اس میں اپنا سب کچھ جھونک دیا۔ اس کے لیے اس نے اپنے اداروں اور ایجنسیوں کے ونگز تمام ہمسایہ ممالک میں کھولے۔ ایک بات واضح کرتے چلیں کہ اگر بھارت ایٹمی طاقت نہ بنتا تو پاکستان شاید ہی کبھی اس صلاحیت کو حاصل کرنے کا سوچتا۔ اسی طرح اگر بھارت دنیا کی دوسری بڑی فوج نہ بناتا تو باقیوں کا تو پتا نہیں‘ کم از کم سری لنکا جیسا چھوٹا سا ملک فوج بنانے پر مجبور نہ ہوتا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں اگر سری لنکا یورپ جیسے کسی علاقے میں ہوتا تو اس کے ہاں صرف پولیس ہوتی۔ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک کو دیکھ لیں جہاں فوج نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ بھارت کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ افغانستان میں امریکا کے بیس سالہ جنگی قیام ہی کا مطالعہ کر لیں۔ اس جنگ میں بھارت امریکا کا سب سے بڑا اور مستقل اتحادی رہا۔ اس نے ان بیس سالوں میں افغانستان کی سرزمین صرف اس لیے استعمال کی کہ وہ پاکستان پر ایک پراکسی جنگ مسلط کر سکے اور پاکستان کو زیرِ حملہ رکھ سکے۔ اربوں ڈالر اس مقصد کے لیے جھونکے گئے، دہشت گردوں کو تربیت دی گئی، اسلحہ دیا گیا اور انتہائی بھاری رقوم کی ''ناقابل انکار پیشکشیں ‘‘ کر کے پاکستان کی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کا نقصان پہنچانے کے علاوہ اسّی ہزار لوگوں کی جان بھی لی گئی۔
اب واپس آتے ہیں بھارت کی سیاسی جمہوریت کی طرف‘ جہاں لوگوں کو ووٹ کا حق تو حاصل ہے مگر جینے کا نہیں۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہی ہے۔ بھارت کا ایک اور اعزاز یہ ہے کہ یہاں ''دنیا کی سب سے بڑی غربت‘‘ آباد ہے۔ مطلب غربت کی لکیر سے نیچے جینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ بھارت میں‘ پچاس کروڑ سے زائد ‘ہے۔ یہ تعداد آبادی کے اعتبار سے دنیا کے تیسرے بڑے ملک امریکا کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت کی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی 'را‘ کے نام کو الٹا کر کے دیکھیں تو یہ لفظWARبنتا ہے‘ جو شاید اس ایجنسی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر دیگر ممالک کو مسائل میں جھونکنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے بھارت ان وسائل کو اپنے عوام پر خرچ کرے اور اپنے ملک میں ہونے والی اربوں ڈالرز کی کرپشن کا کچھ سدباب کرلے تو یہ عمل ہند‘ سندھ(جنوبی ایشیا) کو کرپشن کی دیوی سے نجات دلانے کا باعث بن جائے گا۔