مشکل ترین وقت

حالیہ دنوں میں بجلی کے ہوشربا بلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا جس کے بعد حکومت نے کچھ رعایتوں کا اعلان کیا ہے، مگر یہ دونوں اقدامات ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عوام نے احتجاج صرف قیمتوں میں اضافے پر کیا ہے نہ کہ کوئی ایسا مطالبہ کیا گیا کہ بجلی پیدا کرنے کیلئے سستے ملکی وسائل سے استفادہ کیا جائے تا کہ دور رس نتائج بر آمد ہو سکیں۔ دوسری طرف حکومت نے بجلی سرچارج کی مد میں رعایت کا اعلان کیا ہے جبکہ ضرورت اس کو کسی ٹھوس پالیسی کا اعلان کرنے کی ہے۔ آپ کو یقینا اندازہ ہو گا کہ بجلی کی قیمت اور بجلی کی دستیابی‘ دونوں ہی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ یہ امر واضح ہے کہ جس ملک میں انرجی یعنی بجلی اور پٹرول کی قیمتیں حد سے زیادہ ہو جائیں‘ وہاں معیشت کی حالت بھی پتلی سے پتلی ہوتی جاتی ہے اور ہر چیز کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ ویسے تو اس وقت ایک مہنگائی بحران پوری دنیا میں جاری ہے لیکن ہمارے ہاں یہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب تو اس کی پیمائش کرنے والے آلے کی آخری حد بھی ختم ہو چلی ہے۔ اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ ملک کے اندر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ ایک بحران نہ صرف جنم لے چکا ہے بلکہ مسلسل مزید مشکلات کو بھی جنم دے رہا ہے۔ اس بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سے چھ سکیل تک‘ شاید اس سے اوپر والے سکیل کے ملازم بھی‘ اب نہایت کٹھن حالات کا شکار ہیں۔ اس کا تجربہ ایک چھوٹے سے سرکاری شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے مجھے اس وقت ہوا جب چوکیدار اور مالی نے یہ بتایا کہ وہ دونوں مل کر سالن کی ایک پلیٹ خریدتے ہیں اور پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کرتے ہیں کہ ساتھ ایک دہی کی پلیٹ خرید لیتے ہیں۔ ابھی ایک نے یہ بات پوری بھی نہ کی تھی کہ دوسرے نے ٹوک کر کہا: صاحب جی! یہ دہی والی بات بھی دو مہینے پرانی ہے ، اب تو دودھ اور دہی کی قیمتوں میں بھی اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ پہنچ سے باہر ہے۔ یہ دو نچلے پے سکیل کے ملازم سالن کی ایک پلیٹ کے ساتھ دہی کی پلیٹ اس لیے خریدتے ہیں یا خریدتے تھے کہ سالن کی قیمت حد سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گھی کی قیمت میں ہونے والا بے حد اضافہ ہے۔ یہ وضاحت اس لیے کر دی کہ کوئی ''دانشور‘‘ یہ اعتراض نما سوال نہ اٹھا ئے کہ اگر دہی کی پلیٹ خرید سکتے ہیں تو سالن کی دوسری پلیٹ کیوں نہیں خرید لیتے۔ اب یہاں سے ایک ایسا معاشی اشاریہ جنم لیتا ہے جو پہلے آپ نے کبھی سنا نہیں ہوگا۔ اس کو ''برسرِ رُوزگار بیروزگار‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اب اس کی کچھ وضاحت بھی کر لیتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اعدادوشمار میں تو یہ لوگ بر سرِ روزگار متصور اور شمار ہوں گے لیکن اگر یہ مطلوبہ مقدار میں اپنی غذائی ضروریات کو ہی پورا نہیں کر سکتے تو برسرِ روزگا کہاں سے ہوئے؟ یہ دونوں افراد اپنے اپنے آبائی علاقوں سے دور رہتے ہیں‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب مہنگائی اور مہنگے کرایوں کی وجہ سے وہ بمشکل مہینے میں صرف ایک دفعہ ہی اپنے گھر جا پاتے ہیں۔
کچھ یہی صورت حال ان لوگوں کی ہے جن کا روز گار مکمل طور پربجلی سے چلتا ہے، یعنی وہ لوگ جو کپڑوں کی سلائی کاکام کرتے ہیں یا جو خراد کی دکان چلاتا ہے یا وہ جو لکڑی کاٹنے والا آرا چلا رہا ہے۔ یہ تمام لوگ مکمل طور پر بجلی ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ذکر تو پہلے ہو چکا کہ بجلی نہ صرف پہنچ سے باہر ہو چکی ہے بلکہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی جاری ہے۔ درزی کا کام کرنے والے ایک استاد جی سے جب صورتحال کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سال میری زندگی میں پہلی دفعہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں عید سے پانچ دن پہلے تک بھی کپڑوں کی بکنگ جاری تھی۔ بات یہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی درزیوں کی چاندی ہونے کا شور ہوتا تھا۔ بات یہاں تک پہنچ جاتی تھی کہ اخبارات وغیرہ میں باقاعدہ کارٹون بنا کر بتایا جاتا تھا کہ لوگ درزیوں کے پیچھے کسی وی آئی پی شخصیت کی طرح بھاگے پھرتے ہیں لیکن اس سال نئے کپڑے سلوانے والوں کی تعداد میں عجیب و غریب کمی دیکھنے میں آئی ۔ اس میں ''عجیب‘‘ سے زیادہ ''غریب‘‘ کا پہلو نمایاں تھا۔ درزیوں کے پاس چونکہ کام کی کمی تھی‘ اس لیے آخری دنوں تک سلائی وغیرہ کی بکنگ جاری رہی۔
اب چلتے ہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کی طرف! ملک بھر میں ایک عجیب مگر پرانی قیامت برپا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان وہ علاقہ ہے جہاں مون سون کی بارشیں سب سے کم ہوتی ہیں مگر وہاں بھی ہر طرف پانی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ بلوچستان کا تمام صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ ریلوے ٹریکس تباہ ہو چکے ہیں،انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا ہے۔ اس وقت ہمیں 2010ء سے زیادہ شدت کے سیلاب کا سامنا ہے اور حالات کی جو تصویر کشی کی جا رہی ہے ا س کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ مکمل بحالی میں ہمیں کئی سال بلکہ کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔ اگر اس آفتِ سماوی کے حل کی بات کی جائے تو اس کا یک لفظی جواب ہو گا کہ ''ڈیم‘‘۔
بد قسمتی سے پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ڈیمز بنانے کے علاوہ ایک حل جو اس آفت کو قدرے کم کر سکتا ہے وہ مصنوعی بارش کی ٹیکنالوجی ہے۔ بہت سے لوگ حیرانی کا اظہار کریں گے کہ بارشیں تو پہلے ہی بہت زیادہ ہو رہی ہیں‘ ایسے میں مصنوعی بارشیں کیسے اس کا حل ہو سکتی ہیں؟ عرض یہ ہے کہ پاکستان کے وہ علاقے‘ جہاں بڑے بڑے صحرا ہیں‘ ان سیلابوں سے بچنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں‘ وہ اس طرح کہ جب بھی بادل ان صحرائوں پر چھائے ہوں تو ان کو برسنے پر مجبور کر دیا جائے‘ اس طرح یہ سارا پانی‘ جو اس وقت آفت بنا ہوا ہے‘ خشک صحرائی علاقوں میں برس جائے گا اور آبادیوں میں تباہی نہیں مچائے گا۔ اس کا تفصیلی ذکر اگلے کالم میں کریں گے، ان شاء اللہ!
واپس چلتے ہیں مہنگائی اور معاشی مشکلات کی طرف! یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اگر ہم آبی وسائل یعنی پانی سے بجلی بنائیں تو اس پر انتہائی کم لاگت آتی ہے۔ بعض تخمینوں میں یہ لاگت محض چند روپے تک بتائی گئی ہے۔ پاکستان صرف آبی ذرائع سے سالانہ ستر سے پچھتر ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ اگر بجلی بنانے کے جدید سستے طریقوں کو استعمال کیا جائے تو یہ پیداوار ایک لاکھ میگا واٹ تک بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ بجلی افغانستان اور بھارت جیسے پڑوسی ممالک کو ایکسپورٹ بھی کی جا سکتی ہے۔ اس بات پر آپ پتا نہیں حیران زیادہ ہوں گے یا پریشان مگر یہ حقیقت ہے۔ اب ایک نظر اپنے بجلی کے بل پر ڈالیں اور دیکھیں کہ فی یونٹ قیمت کیا ہو چکی ہے۔ راقم نے متعدد بار لکھا ہے کہ جتنا اضافہ آئے روز بجلی کی قیمت میں کیا جاتا ہے‘ اتنے روپوں میں تو عوام کو بجلی کا ایک یونٹ ملنا چاہیے۔ آبی وسائل سے بجلی کی لاگت کتنی ہوتی ہے‘ اس کے لیے چیچو کی ملیاں کے مقام پر ایک درمیانے سائز کی نہر کے اوپر ایک بجلی کے پلانٹ کی مثال کافی ہے جو لگ بھگ تیرہ میگا واٹ بجلی پیدا کرتا تھا۔ اس کی پیداواری لاگت صرف دو روپے فی یونٹ تھی۔ شنید ہے کہ اب یہ پلانٹ بند ہو چکا ہے۔ کیوں؟ یہ بات حکومت ہی بتا سکتی ہے۔ حکومت اگر ملکی ضروریات کی تمام بجلی سستے آبی ذرائع سے بنائے تو سارے ٹیکسز لگا کر بھی دس سے پندرہ روپے فی یونٹ کے حساب سے عوام کو بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
یہیں آپ کو ایک خبر بھی دیتے چلیں کہ ایک یونیورسٹی نے کسانوں کے لیے ایک نہایت کارآمد چیز بنائی ہے۔ زراعت میں چونکہ ٹیوب ویل عام استعمال ہوتا ہے اور جب زمین کو پانی دینے کیلئے ٹیوب ویل چلایا جاتا ہے تو پانی بڑی مقدار میں اور خاصی قوت کے ساتھ باہر نکلتا ہے۔ اب کیا یہ گیا ہے کہ ٹیوب ویل کے ساتھ ایک ٹربائن بھی منسلک کر دی گئی ہے جب پانی نکلتا ہے تو اس سے ٹربائن گھومنے لگتی ہے جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اب اسی بجلی سے ٹیوب ویل بھی چل سکے گا۔ مطلب ٹیوب ویل اپنے نکالے گئے پانی سے بننے والی بجلی ہی سے چل پائے گا۔ اس طرح کم از کم کسانوں کو سستی بجلی میسر آ سکے گی۔ باقی ماندہ معیشت تو مشکل ترین وقت سے گزر ہی رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں