گزشتہ کالم میں مصنوعی غذا کا ذکر بہت تفصیل سے کیا گیا تھا لیکن ایک چیز ایسی ہے‘ جس کا نام تو مصنوعی ہے مگر یہ ہوتی باکل خالص اور اصلی ہے۔ جی ہاں ! یہ چیز ہے مصنوعی بارش‘ جو محض نام کی حد تک مصنوعی ہے اور وہ بھی شاید اس لیے کہ اس کو انسانی کوششوں سے برسایا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں جو پانی حاصل ہوتا ہے‘ وہ کسی قدرتی بارش جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ جب بادل بن چکے ہوں لیکن برسنے کے مرحلے تک نہ پہنچے ہوں یعنی ان میں برسنے والی شدت ابھی نہ بنی ہو تو ایسے حالات میں ان بادلوں پر نمک چھڑک کر یا خشک برف کو پائوڈر کی شکل میں چھڑک کر ان بادلوں کو بارش برسانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اب یہی کام ڈرونز کے ذریعے بادلوں کو شاک یعنی جھٹکادے کر بھی کیا جارہا ہے۔ سب سے پہلے تو ''مصنوعی بارش‘‘ کا نام بدلنے کی ضرورت ہے لیکن جو چیز زیادہ اہم ہے‘ وہ یہ کہ اس کو برسانے پر دسترس حاصل کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ آپ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کس موسم اور کیسے حالات میں مصنوعی بارش کاذکر کیا جا رہا ہے۔ آج کل تو بارشوں کے نام سے بھی خوف آ رہا ہے۔ چلیں پہلے اس کا ذکر کر لیتے بلکہ تفصیلات جان لیتے ہیں کہ کس طرح مصنوعی بلکہ کنٹرولڈ بارشیں ہمیں سیلابوں سے بچنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
پاکستان کا وہ سرحدی حصہ جو بھارت سے ملتا ہے‘ پنجاب کا جنوبی اور صوبہ سندھ کا تقریباً شمالی حصہ‘ درحقیقت ریت والا صحرا ہے۔ مَون سون ہوائیں (یہ لفظ MOON نہیں ہوتا بلکہ MON ہے، اس لیے اس کو میم پر پیش کے بجائے زبر کے ساتھ پڑھنا او ربولنا چاہیے بلکہ میرے خیال میں تو اس کو مان سون لکھا اور بولا جانا چاہیے۔ اگر ہم ابھی تک اس کا تلفظ ہی صحیح نہیں کر سکے تو ان ہوائوں سے ہونے والی بارشوں پر قابو کیسے پائیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سارے لکھنے اور بولنے والے حتیٰ کہ پروفیسر حضرات بھی اس لفظ کو نہ تو صحیح طورپر لکھتے اور نہ ہی بولتے ہیں)بنیادی طور پر بھارت کی جانب سے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں اس لیے جب یہ پاکستان پہنچتی ہیں تو پاکستان کے میدانی علاقوں بالخصوص صوبہ پنجاب اور سندھ کے صحرائی علاقوں کے اوپر سے ہو کر آگے بڑھتی ہیں۔ اگر ملک کے اندر سیلابی کیفیت چل رہی ہو تو چولستان اور نارا کے صحرائوں کے اوپر بنے بادلوں کو نمک یا خشک برف چھڑک کر یا دیگر مروجہ طریقوں سے بارش بن کر برسنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اب نیچے چونکہ صحرائی یعنی ریتلا علاقہ ہو گا تو یہ بارش زحمت کے بجائے رحمت بن سکتی ہے۔ چونکہ بادلوں کو اس ریتلے علاقے پر برسنے پر مجبور کر دیا جائے گا‘ اس لیے یہ بادل پانی سے خالی ہو جائیں گے اور میدانی علاقوں میں جا کر بارش نہیں برسا سکیں گے۔ اسی طرح جو ہوائیں بحیرہ عرب کی طرف سے پاکستان کی طرف چلتی ہیں‘ ان کے نتیجے میں بننے والے بادلوں کو بھی ملک کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی برسنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے اندر صوبہ پنجاب میں ایک صحرا تھل کے نام سے بھی ہے، یہ بھکر اور لیہ کا علاقہ ہے۔ سیلابی صورت حال میں بادلوں کو اگر اس طرح کے ریتلے علاقوں میں برسنے پر مجبور کیا جائے تو دیگر علاقوں کو سیلابی بارشوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ ریت والے علاقے بارشوں کے پانی کو بہ آسانی اپنے اندر جذب کر سکتے ہیں۔
شاید آپ کو لگ رہا ہو کہ یہ صورت حال‘ جو بظاہر بہت خوشگوار معلوم ہو رہی ہے‘ کہیں افسانوی خیالات یا محض تجربات کے لیے دی جانے والی تجاویز کی حیثیت تو نہیں رکھتی؟ اس بات کی وضاحت کے لیے آپ کو 2008ء میں چین میں ہونے والی سمر اولمپکس کی طرف لیے چلتے ہیں۔ ان مقابلوں کا افتتاح 8 اگست کو ہونا تھا مگر چین کے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا کہ اس دن بارش ہونے کے امکانات سو فیصد ہیں۔ اس صورتحال میں حکام کو افتتاحی تقریب کے خراب ہونے کا خدشہ لا حق ہو گیا لیکن انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے کے بجائے تدبیر پر بھروسہ اور یقین کرتے ہوئے افتتاحی تقریب سے ایک یا دو دن پہلے ہی ان بادلوں کو شہر سے باہر ہی برسنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بات آج سے چودہ برس پرانی ہے۔ اس لیے لا محالہ طور پر بادلوں کو برسنے پر مجبور کرنے والی ٹیکنالوجی مزید جدت اور طاقت اختیا کر چکی ہے۔ اس کے لیے زمین سے خلا میں چھوٹے راکٹ بھی فائر کیے جاتے ہیں جن میں نمک شامل ہوتا ہے اور یہ نمک بادلوں میں پھٹ کر انہیں برسنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ جہازوں کے ذریعے بادلوں پر نمک چھڑکنا اور اب جدید ڈرونز کے ذریعے بادلوں کو بجلی کے شاک دینا وغیرہ بھی بادلوں کو برسانے کے طریقے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین پر ایک مخصوص طرز کے کھمبوں سے منفی چارج فضا میں چھوڑ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس سموگ کے دنوں میں آپ نے مصنوعی بارش کا غلغلہ سنا ہو گا، اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ پاکستان2001ء میں سرکاری طور پر پورے پاکستان میں مصنوعی بارشوں کا تجربہ کر چکا ہے لیکن سرکاری سورمائوں مطلب افسر شاہی نے اس منصوبے کو اب فائلوں کے قبرستان میں کہیں دفن کر دیا ہوا ہے جبکہ اگلے ماہ سے سموگ کا عفریت ایک بار پھر سے پاکستان کو گھیرنے کے لیے تیار ہے۔
اب آپ کو دوبارہ ماضی میں لیے چلتے ہیں۔ یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ امریکہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ ویتنام پر قابض تھا۔ مقامی لوگ سوویت یونین کی مدد سے پوری شدت کے ساتھ امریکی افواج کا مقابلہ کر رہے تھے۔ واضح رہے اس جنگ میں امریکہ کو نہ صرف شکست ہوئی تھی بلکہ اس کے تقریباً ساٹھ ہزار فوجی بھی مارے گئے تھے۔ امریکہ نے اس جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ ہر ممکن حربہ اور ہر قسم کا ہتھیار استعمال کیا تھا اور ان ہتھیاروں میں مصنوعی یعنی کنٹرولڈ بارشوں کا ہتھیار بھی شامل تھا ۔ بارشوں کے اس منصوبے یا حملے کو آپریشن Sober Popeye یا ''پروجیکٹ کنٹرولڈ ویدر پوپائے‘‘ کے نام دیے گئے تھے۔ امریکہ اس آپریشن کے تحت اپنی مرضی کی جگہوں پر بارشیں برساتا تھا اور ویتنام کے اندر مون سون بارشوں کے دورانیے کو بڑھا دیتا تھا۔ ان بارشوں سے مقامی آبادی اور گوریلا جنگ لڑنے والوں کی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بارشوں ہی کی مدد سے سڑکوں کو متا ثر کیا جاتا تھا تا کہ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں‘ اسی طرح سڑکوں کے قریب پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کی جاتی تھی تاکہ امریکہ کے خلاف لڑنے والوں اور دیگر مقامی آبادی کی مشکلات میں اضافہ ہو ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان بارشوں کے دوران امریکی افواج کے خلاف ہونے والی مزاحمت تھم جاتی تھی اورامریکی فوج کے لیے یہ دورانیہ امن یا جنگ بندی کی سی صورتحال اختیار کر لیتا تھا۔انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ جتنا بھی نقصان ہوتا تھا‘ مقامی آبادی اور گوریلا فوج اس کو قدرتی آفت سمجھ کر خاموش ہو جاتی تھی۔ مطلب ان کا دھیان ہر گز امریکی افواج کی طرف نہیں جاتا تھا کیونکہ یہ امریکی آپریشن مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا تھا۔ اس سے متعلق امریکا نے دنیا کو 1970ء کی دہائی میں آگاہ کیا تھا۔ امید ہے کہ آپ کو اب یقین آگیا ہو گا کہ انسان اپنی پسند، ضرورت اورمرضی سے بارشیں برسانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سیلابوں سے بچنے کا ایک اور بھی طریقہ ہے۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ایک مصنوعی نہر‘ جس کا سائز ایک دریا کے برابر ہو‘ کھودی جائے تو اضافی پانی کو اس میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ سینکڑوں کلو میٹر کا علاقہ ہو گا۔ یہ کھدائی دریا کی دائیں جانب کی جانی چاہیے جو انتہائی کم آبادہے۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ کے کناروں پر گیٹ نما راستے بنا دیے جائیں اور سیلابی کیفیت میں ان کو کھول دیا جائے تو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ایک مصنوعی دریا بہنا شروع کر دے گا اور سمندر میں جاکر ختم ہو جائے گا۔ سیلاب ختم ہونے پر دریا کے گیٹس کو بند کر دیا جائے۔ یہ پروجیکٹ نہروں کی شکل میں پنجاب کے اندر بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ ڈیمز بنانے کے علاوہ سیلابوں سے بچنے کا یہی ایک قابلِ عمل حل ہے۔ ان مصنوعی دریائوں کا نام سیلابی دریا رکھا جا سکتا ہے۔