گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا سیلابی نہر نما دریاؤں کا جس پر بہت سارے لوگوں نے اس کے ممکنہ ہونے کی وضاحت بہت تعجب سے مانگی ہے۔ اس ضمن میں گزارش یوں ہے کہ آپ زیادہ دور مت جائیں اور میرے ساتھ رینالہ خورد کے قریب ایک بڑی نہر پر بنائے جانے والے ایک بجلی گھر پر چلیں‘ آپ پر بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔ اس بڑی نہر کو رینالہ خورد کے مقام پر ایک انجینئر نے 1929ء میں دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ دو حصوں میں تقسیم کردہ نہر کے ایک حصے پر اُس نے ایک میگا واٹ سے زیادہ (1.2میگا واٹ) کا بجلی گھر قائم کر دیا تھا‘ جو آج بھی قائم ہے۔ آپ کو اُس شخصیت کا نام یاد آ جانا چاہیے کیونکہ یہ شخصیت سر گنگا رام کی ہے۔ آپ آج بھی اُس بجلی گھر کا دورہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اُس کی عمارت بالکل ٹھیک حالت میں کھڑی ہے۔ عمارت دیکھ کر بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عمارت یا تو سر گنگا رام نے خود بنوائی ہوگی‘ مطلب اس کے مٹیریل کا انتظام بھی خود کیا ہوگا یا پھر اس کا بنانے والا ٹھیکے دار بھی سر کنگا رام کی طرح ایک دیانت دار ترین شخص ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمارت بنانے والے کی دیانت کی وجہ اُس وقت کی انگریز سرکار کا خوف ہو۔ اب آپ کو اگر اُس بجلی گھر سے متعلق دیانت کے لفظ سے تکرار اچھی نہیں لگ رہی تو موجودہ حکام کی بدنیتی یا بد دیانتی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بجائے اِس کے کہ اس بجلی گھر کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جاتی اُلٹا اس پر لگی ہوئی ایک سے دو ٹربائین اکثر اوقات بند ہی ملتی ہیں۔ یہ نہر دو حصوں میں تقریباً ایک کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہے‘ بجلی گھر سے گزرنے کے بعد نہر کے دونوں حصوں کو دوبارہ ملا دیا جاتا ہے اور یہ اپنا سفر جاری و ساری رکھتی ہے۔
اس کے بعد آپ اگر چیچو کی ملیاں کے مقام پر ایک درمیانے سائز کی نہر پر قائم بجلی گھر کا معائنہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ 13میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ یہ تیرہ میگاواٹ بجلی کی اچھی خاصی مقدار ہے۔ اب یہ تو آپ کو یاد ہو جانا چاہیے کہ پانی سے بننے والی بجلی کی لاگت صرف دو روپے فی یونٹ ہوتی ہے۔ اب اگلے سوال کا خیال اور الفاظ بہت شدید ہیں اور چیخ کر کہتے ہیں کہ اگر 1929ء میں ایک شخص‘ برطانوی راج کے دوران اجازت حاصل کرکے نہر پر بجلی بنا سکتا ہے اور پاکستان بننے کے بعد بھی چیچو کی ملیاں (ضلع شیخوپورہ) کے مقام پر نہر پر بجلی بنانے کا منصوبہ لگ سکتا ہے تو دیگر نہروں پر بجلی پیدا کرنے کے مزید منصوبے کیوں نہیں بنائے جاتے؟ جبکہ ان نہروں سے کہیں بڑی نہریں پاکستان میں بہتی ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان کی کئی بڑی نہریں دنیا میں بہنے والے کئی دریاؤں سے بھی بڑی ہیں۔ مثال کے طور پر سری لنکا کا سب سے بڑا دریا میگا وتی‘ پاکستان میں بہنے والی بیشتر نہروں سے کہیں چھوٹا ہے۔ یہ احساس راقم کو اس وقت ہوا جب 1992ء میں ایک مقابلے میں شرکت کے دوران سری لنکا کی سیر کرتے ہوئے ہماری بس اس دریا کے اوپر سے گزرنے لگی تو ٹورسٹ گائیڈ نے اعلان کیا سری لنکا کا سب سے بڑا دریا آنے والا ہے۔ جب اس دریا کے اوپر سے گزرے تو میں نے کھڑکی سے اس دریا کو بغور دیکھا تو خیال آیا کہ یہ دریا ہے یا کوئی درمیانی نہر؟
اب آپ سے ایک اچھی خبر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ خبر کچھ یوں ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق ایک یونیورسٹی (پنجاب یونیورسٹی کے نہیں) کے وائس چانسلر کی نگرانی میں مصنوعی بارشوں کے پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ اگرچہ آپ کو تو اس وقت بارشوں کے نام سے بھی خوف آ رہا ہوگا لیکن گزشتہ تحریر میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ اگر اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل ہو جائے اور انتظامات ٹھوس اور جدید بنیادوں پر ہوں تو بارشوں کو اپنی مرضی اور پسند کی جگہ پر برسا کر سیلابوں سے لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگلے مہینے کے آخری دنوں میں ہی ہمیں سموگ نامی آفت آ گھیرے گی جس سے نجات کا ایک ذریعہ بارشیں بھی ہوتی ہیں جبکہ اوسط بنیادوں پر اکتوبر اور نومبر کم ترین بارشوں والے مہینے ہونے کی وجہ سے ہم بارش کی آس میں موسمیات کے محکمے کی طرف سے اچھی خبر کے انتظار میں رہتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کثرت اور قلت دونوں بحران پیدا کرتے ہیں۔ اب آپ کو یاد آ رہا ہوگا کہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک مصنوعی بارشوں سے متعلق ایک شور مچا ہوا تھا۔ ان بارشوں سے متعلق تجربات کا آغاز پنجاب یونیورسٹی سے گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں ہوا‘ جو مالی سے زیادہ انتظامی بحالی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ وجہ بہت سادہ تھی کہ لاہور کا وہ ایئر پورٹ جہاں سے یہ تجرباتی جہاز اڑنا تھا بک چکا ہے اور تاحال اس ایئر پورٹ کو متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی ہے۔
بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب ایک انجینئر ہیں‘ انہوں نے جب یہ پروگرام شروع کیا تو راقم کو پنجاب کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے یہ بتایا تھا‘ بلکہ شکایت کی تھی کہ آپ کے آئیڈیا کو ایک اور صاحب کیش کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو جواب بہت سادہ تھا کہ کوئی بات نہیں چلو کوئی تو ہے جو اس منصوبے پر کام کر نے لگا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ راقم کوئی اس شعبہ کا ماہر نہیں ہے‘ صرف سموگ اور پانی کی کمی پر قابو پانے کے لیے پہلے لکھتا رہا اور پھر میدان میں کود پڑا۔ میں روز نامہ دنیا کی وساطت سے اس مصنوعی بارش کے منصوبے پر کام کرنے والے صاحبان کو باقاعدہ سلام پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کو درپیش پانی کی قلت کے مسائل پر قابو پانے میں اپنا جھنڈا گاڑ دیں گے اور اپنی اس کاوش کو مسلسل آگے بڑھاتے رہیں گے۔ میں نے ڈاکٹر شاہد منیر کے ذریعے ان روابط کو بڑھانے کی کوشش کی مگر وہ اس دوران پنجاب کی سطح کے ایک سرکاری عہدے پر مقرر ہو گئے۔ اب ظاہر ہے‘ صاحب کا پرٹوکول بہت زیادہ بڑھنے کے بعد اُن کا رویہ بدل گیا اور لائن کٹ گئی۔ ویسے بھی کہتے ہیں نہ کہ: خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جاتی ہے۔ لیکن یہاں تو حسن بھی وسائل اور اختیارات کے ساتھ ہی ملنے لگا ہے۔ حالانکہ میں انہی سابق دوست کے لیے سر توڑ کوشش کرتا رہا جب انہیں اس عہدے سے دور رکھنے کے لیے ایک منظم سازش کی گئی تھی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اچانک اتنی ترقیاتی گفتگو میں ایک خالص پاکستانی طرز کی سیاسی گفتگو کیسے اور کیوں شروع ہو گئی۔
قصہ کچھ یوں ہے صاحب کہ یہی سوچ اور طرزِ زندگی ہی ہمارا دشمن ہے۔ یہی سوچ ہے جس کی وجہ سے ہم نہروں سے صرف دو روپے فی یونٹ والی بجلی کے بجائے فی یونٹ بیس روپے سے زیادہ لاگت والی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ڈیم بنانے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سالانہ ہزاروں میگا واٹ بجلی چوری ہو رہی ہے۔ دیگر محکموں کی طرح سرکاری شعبہ تعلیم میں بھی عہدوں کے لیے سر توڑ کوششیں جاری رہتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں سیاسی گروپ آپس میں روس اور امریکہ یا چین اور امریکہ کی طرز پر سیاسی چپقلش رکھتے ہیں۔ بڑے عہدوں پر بھرتی سے پہلے لوگوں کی سیاسی وابستگی‘ علاقہ‘ سیاسی پہنچ اور سب سے بڑھ کر ذہنی اور فکری وابستگی تک مدِ نظر رکھی جاتی ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ ملک وسائل رکھتے ہوئے بھی بجلی اور پانی کے شعبے میں مشکلات کا شکار ہے۔ اب رہی بات مصنوعی بارش پر کام کرنے والے معزز صاحبان کی‘ تو اس تحریر کے ذریعے انہیں دوبارہ سلام ہے اور اس کاوش میں میرے مکمل تعاون کی یقین دہانی ہے اور میری طرف سے اِس منصوبے پر ایڈوانس مبارک قبول فرمائیں۔