بڑے دھوکے … (3)

ان دنوں کالم میں اب تک ہونے والے قومی اور عالمی سطح کے بڑے دھوکوں (Grand Deceptions) کاذکر ہو رہا ہے۔ آج کے کالم میں ہم ایک مقامی سطح کے دھوکے کا ذکر کریں گے۔ یہ دھوکہ شاید ام المسائل بھی ہے کیوں کہ اس کا تعلق تعلیم و تخلیق سے ہے۔تخلیق سے پہلے اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو یہ ایک ایسی کائنات ہے جس کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ آپ میں کچھ نیا سیکھنے کی چاہ موجود ہو‘ جبکہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی لاعلمی یاکم علمی کا ادراک رکھتے ہوں اور اس کو دور کرنا چاہتے ہوں۔ اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ ایک تحریر لکھتے ہوئے لکھاری سے کوئی غلطی بھی سرزد ہو سکتی ہے کیونکہ وہ لکھاری کوئی بھی تحریر لکھتے ہوئے ذاتی مطالعے اور تجربات کو مدِ نظر رکھتا ہے لیکن جب اُس کے قاری وہ تحریر پڑھتے ہیں ‘ جن کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے‘ تو وہ لکھاری کی اُس تحریر پر اپنے اپنے تجربے اور مطالعہ کے مطابق اپنا فیڈ بیک دیتے ہیں جس سے لکھاری کی غلطی کی تصحیح بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح کی ایک غلطی کی میں یہاں تصحیح کرتا چلوں کہ میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ پولٹری فارمنگ میں مرغی تقریباً چودہ ہفتوں میں تیار ہو جاتی ہے لیکن مجھے بعد میں قارئین کے فیڈ بیک سے پتہ چلا کہ یہ مرغی تو چھ ہفتوں میں ہی تیار ہو جاتی ہے۔ میرا چونکہ پولٹری فارمنگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے‘ اس لیے مجھ سے یہ غلطی سر زد ہو گئی۔
اب واپس چلتے ہیں تعلیم کی طرف‘ تو اس دنیا میں کچھ نکات ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی استاد کی عمر بھر کی کمائی اس طرح ہوتے ہیں کہ یہ اُس استاد پر اپنی پوری عمر گنوانے کے بعد کھلتے ہیں‘ بشرطیکہ اس نے یہ عمر تعلیم کے میدان کو ایک پیشہ اور Passionسمجھ کر دی ہو۔ اب یہاں پر 'Passion‘ انگریزی کا لفظ ہے‘ جس کا استعمال اب ہمارے معاشرے میں ایک سٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ گورا ہم پر کئی دہائیوں تک مسلط رہا‘ ہمیں لوٹتا رہا لیکن ایک عجیب ظلم وہ ہم پر یہ کر گیا کہ برصغیر میں سو سال سے زیادہ عرصہ کی با ضابطہ حکومت کے باوجود وہ ہمیں اپنی زبان سکھا کر نہیں گیا۔ وہ ہمیں اپنی زبان سے آشنا ضرور کروا گیا اور اسے ہم پرمسلط بھی کر گیا مگر جب وہ برصغیر سے چلا گیا تو یہاں کی شرح خواندگی صرف دس فیصد کے قریب تھی۔ لیکن برطانیہ چونکہ ایک عالمی طاقت تھا‘ اس لیے اپنی زبان کو عالمی زبان کے طور پر منوا چکا تھا‘ جو برطانیہ کے بعد امریکہ نے نہ صرف اپنائی بلکہ اس کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ امریکن انگلش کے طور پر دنیا پر مسلط کیے ہوئے ہے۔ دنیا میں برطانیہ کی جگہ امریکہ عالمی طاقت کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد سے موجود ہے۔
واپس آتے ہیں انگریزی زبان کے اسرارو رموز کی طرف۔ ایک عجیب کشمکش سے آپ کو آشکار کرتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے ایک ادارے کے سوشل میڈیا پیج پر چلنے والے ایک اشتہار میں یہ جملہ لکھا گیا تھا کہThis Institute Comprises of‘ اس کے بعد اس ادارے کی تفصیل بتا ئی گئی تھی۔ اسی طرح ایک اور ادارے کی ایک ڈاکیومینٹری میں بھی یہی غلطی دیکھنے کو ملی۔ میرے ایک شاگرد نے‘ جو وہاں کام کرتا تھا‘ مجھے وہ ڈاکیومینٹری دکھائی تو اُس غلطی کا پتہ چلا۔ اس کی طرف بھی انتظامیہ کی توجہ دلا دی گئی لیکن پتہ نہیں وہ غلطی دور کی گئی یا نہیں۔ اسی طرح ایک اور ادارے کے اعلیٰ عہدیدار نے اپنی ایک تحریر میں ایک فقرہ کچھ یوں لکھا ہوا تھاکہThis Organization Comprises of‘ یہاں اُس فقرے کا صرف وہی حصہ لکھا گیا ہے جس میں غلطی تھی۔ ظاہر ہے وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ اس ادارے میں کتنے شعبہ جات ہیں۔ اس غلطی کی بھی نشاندہی کر دی گئی مگر پتہ نہیں تصحیح کی گئی یا نہیں؟ اب تو شاید آپ کو بھی قدرے تجسس ہو گیا ہوگا کہ وہ کیا غلطی ہے۔ لیکن پہلے آپ کو ایک اور انتہائی دلچسپ صورتحال کی طرف لیے چلتے ہیں‘جس سے انگریز ی زبان کے مظالم کی ایک حقیقت سے ہم آشکار ہو سکیں گے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک ادارے میں ایک ٹیسٹ کی اطلاع کچھ یوں دی گئی تھی کہ The test shall Comprise Of....‘ یہاں بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ امید ہے آپ بھی سمجھ چکے ہوں گے کہ یہاں Comprise Of کا ہی جھگڑا چل رہا ہے۔ اب بات کچھ یوں ہے کہ یہاں پر Of کا لفظ اضافی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی ادارے یا اور چیز کے متعلق یہ کہنا یا لکھنا چاہ رہے ہوں کہ وہ فلاں فلاں اجزا یا سیکشنز پر مشتمل ہے تو صرف Comprise لکھیں اور Of کی Prepositionمت لگائیں۔ صرف ایک لفظ سے معنی ادا ہو جائے گا۔ لیکن اگلی بات ابھی باقی ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ اگر کسی جملے میں Comprisedلکھنا ہو تو اس صورت میں Of لکھنا لازم ہوگا۔ اکثر لوگوں سے یہ غلطی دراصل اس لیے سرزد ہو جاتی ہے کہ ہم یہ الفاظ اسی طرح سنتے اور پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ کسی غلطی کا سرزد ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس غلطی کو درست نہ کرنا جہالت کے زمرے میں آتاہے۔ یہ رویہ ایک ایسی بنیاد بنتا ہے جو مزید غلطیوں کو مسلسل جنم دیتی ہے۔ ایسی غلطیوں کو قوم کے لیے موت قرار دیا جاتا ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کسی ایسے ادارے میں جس سے منسلک ہو نے کے لیے کم از کم سولہ سالہ تعلیمی قابلیت یا ماسٹر ڈگری ہونا ضروری ہے ‘ وہاں بھی ایسی غلطی کا سر زد ہوجانا اور پھر اس غلطی کو دور نہ کیا جانا کتنی بڑی نا اہلی ہے۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید اس غلطی پر کوئی اس لیے نہ بولا ہو کہ یہ پوسٹ کسی سینئر عہدیدار یا پھر شعبہ کے سربراہ کی طرف سے لگائی گئی ہو تو اس غلطی کو دور کرنے کی کوشش کرنے والے انفرادی یا ذاتی پیغام کے ذریعے تومتعلقہ شخصیت سے پوچھ سکتے تھے یا اس پر بحث کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔لیکن اگر ادارے کے کسی بھی ملازم نے خوف کے مارے سربراہ سے غلطی کی وجہ نہیں پوچھی تو یہ مزید خوفناک امر ہے۔ تعلیم و تخلیق سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس دماغ پر خوف طاری ہو جائے وہ سوچ نہیں سکتا اور جو سوچ نہیں سکتا وہ تخلیق کہاں سے کرے گا؟اور جس شخص کی تخلیقی صلاحیت ہی مسدود ہو کر رہ جائے وہ ملکی ترقی میں بھلا کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
چلیں باقی باتیں چھوڑیں ! ہوسکے تو آپ اپنے ارد گرد اس ایک غلطی کو سدھارنے کی کوشش ضرور کیجئے گا ۔خاص طور پر اگر کوئی ابھی زیر تعلیم ہے۔اور ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ غلطی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بعض انگلش زبان کی ویب سائٹس اب یہاں تک لکھتی ہیں کہ چونکہ یہ غلطی وہ لوگ بھی کر جاتے ہیں انگلش جن کی مادری زبان ہے تو اس غلطی کو اب غلط نہیں گردانا جاتا۔لیکن اس کے ساتھ ایک ضروری نوٹ یہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر آپ کوئی تحریر انگریزی کے خاص معیار کے مطابق لکھ رہے ہوں تو آپ کو comprises کے ساتھ of نہیں لگانا چاہیے۔اب بات صرف اتنی ہے کہ اگر بڑے بڑے ادارے بھی انگریزی کے خاص معیار کا خیال نہیں رکھیں گے تو باقی لوگ یا قوم کیا کرے گی۔یاد رہے کہ تقریباً دو گھنٹے کے بعد وہ غلطیوں پر مشتمل پوسٹ اُس ادارے کی طرف سے ہٹا دی گئی تھی لیکنتصحیح کی کوشش تک نہ ہوئی۔شاید جغرافیہ کے لوگ انگلش کو کوئی اہمیت نہیں دیتے حالانکہ یہ مضمون Mother of all ہے۔آخر میں اسی طرح کا ایک سوال یہ ہے کہ Environment اور Eco-System میں کیا فرق ہوتا ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں