بڑے دھوکے… (4)

گزشتہ کالم میں بات اس نکتے پر ختم ہوئی تھی کہ آج کل دنیا میں بہت شور کے ساتھ جس ایشو کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ وہ Environment یعنی ماحولیات کا ہے۔ انوائرمنٹ کے ساتھ ساتھ اکثر ایکو سسٹم ''Eco System‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ ان دونوں اصطلاحات میں کیا فرق ہے‘ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔اگرچہ یہ امر واضح ہے کہ یہ دونوں اصطلاحات بہت قریبی ہیں یعنی دونوں لفظ ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں، لیکن ان میں کچھ فرق بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک فرق تو یہ بتایا جاتا ہے کہ ماحولیات قدرتی ماحول اور اردگرد کی چیزوں سے متعلق علم کا نام ہے جبکہ ایکو سسٹم سے مراد ماحولیات اور زندگی کے مابین تعلق ہے۔یہ ایک الجھا ہوا فرق ہے۔ جب ماحولیات میں اردگرد کی چیزیں آ گئی ہیں تو ظاہری بات ہے کہ زندگی یعنی حیاتیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ اس لیے جغرافیہ کے ماہرین پر مشتمل ایک گروپ ان دونوں میں پائے جانے والے فروق کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کھوج لگانے والے ان دونوں اصطلاحات کی علیحدہ علیحدہ تعریف اور الگ الگ معنی تو بتا رہے ہیں لیکن اصل فرق ابھی تک واضح نہیں کر پائے۔ اس سوال کا جواب اب دیگر علوم یعنی ماحولیات (Environmental Sciences) اور علوم ارضی یعنی جیالوجی کے ماہرین سے پوچھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہت سے معاملات میں ابھی قدرے اختلاف پایا جاتا ہے، جب یہ گتھی سلجھ جائے گی تو آپ کے سامنے بھی پیش کر دی جائے گی۔ یہ سوال اٹھانے والے افراد کا یہ کہنا ہے کہ فرق دونوں میں پایا جاتا ہے اور وہ فرق بہت معنی خیز ہے۔ اس کی مزید وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے کہ جب دنیا میں مختلف قسم کی آلودگیوں کے باعث ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس وقت ان دونوں اصطلاحات میں سے کون سی استعمال ہوگی‘ یہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پردنیا میں زیادہ آلودگی کون سی ہے ماحولیاتی یا پھر ایکو سسٹم کی؟ یہاں پر یہ واضح رہے کہ اگر اس حوالے سے ہم جدید اردو لغات کا مطالعہ کریں تو اس میں تو ایکو سسٹم کے لیے ماحولیاتی نظام کا ہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لفظ ''کلالیویتی‘‘ بھی استعمال ہوا ہے۔ اب اس کی تشریح کیا ہو گی‘ یہ جاننے سے شاید مزید فرق جاننے میں مدد مل سکتی ہو۔
اس طرح کے مسائل کے حل لیے ضروری ہوتا ہے کہ جو اس علمی کھوج نما بحث میں حصہ لینا چاہتے ہوں‘ وہ آپس میں مل کر بیٹھیں۔ اس کے بعد مرحلہ وار سب لوگ اپنا نکتہ اور بنائے علم بیان کریں، ایک یا دو لوگ ان نکات کے نوٹس لیتے رہیں اور ترتیب وار لکھیں ۔ اس سے کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔ یہاں پر وضاحت کرتا چلوں کہ اس گروپ میں پی ایچ ڈی سے بھی آگے کی ایک ڈگری‘ پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ والے لوگ بھی موجود ہیں۔ اور ایک صاحب تو دوسروں کو پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی کر ارہے ہیں۔ ایک صاحب جو اس وقت جرمنی میں موجود ہیں‘ براہ راست اس بحث کو دیکھ رہے ہیں۔ ان صاحب سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ وہ اس گتھی کو حل کرنے میں کوئی مدد کریں مگر مسئلہ یہ پیش آ رہا ہے کہ اس سوال کو کسی عالمی شہرت یافتہ پروفیسر کے سامنے رکھنے سے قبل سوال پوچھنے والے کے ذہن میں ان دونوں اصطلاحات کے بنیادی نکات کا واضح ہونا ازحد ضروری ہے۔ اب دیکھیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ بحث دلچسپ بہت ہو چکی ہے، کیونکہ اب اس میں ماحولیات سے متعلق لوگوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ امید ہے اس کا فائنل رزلٹ جلد ہی آپ لوگوں تک اس کالم کی وساطت سے پہنچ جائے گا۔ جغرافیہ دانوں کی جانب سے اس بحث کو شروع کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر ذاتی تصاویر، یادوں، پرانے لطیفوں کو شیئر کرنے اور ان پر کھوکھلی تعریفوں کا رواج تو ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ کوئی ایسی علمی سرگرمی بھی شروع کی جائے جس سے لوگوں کا بھلا ہو سکے۔
اگر اس سوال کی اہمیت کی بات کی جائے تو کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ ''Answer of one question, always raise two more questions‘‘۔ اس فقرے کے فکری نکتے کو سمجھا جائے تو سوال اٹھانے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے بڑی راز کی بات بتائی گئی ہے۔ مطلب واضح ہے کہ اگر آپ ایک سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو مزید دو سوالات پیدا ہوں گے، اس طرح سے علم کی کھوج کا سفر رواں دواں رہتا ہے۔ عمل کے درجے سمجھنا چاہیں توسب سے پہلے‘ آپ جانتے ہیں‘ مشاہدہ کی منزل آتی ہے۔ اس کے بعد آ پ جو کچھ جان پاتے ہیں اس کو اسی طرح بیان کرتے ہیں، لکھ کر یا پھر بول کر تو اس کو پروڈکشن آف نالج کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر ایک مقام ایسا آتا ہے کہ آپ علم تخلیق کرتے ہیں۔ اور دنیا پر راج اسی کا ہوتا ہے جو کچھ تخلیق کرتا ہے۔ ان تخلیقات کا گڑھ یا مرکز یونیورسٹیاں ہوتی ہیں۔ تخلیق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی نئی چیز بنانے والا اس کی منہ مانگی قیمت وصول کر سکتا ہے۔ کسی بھی نئی ایجاد سے اپنے دشمنوں کو سرنگوں کیا جا سکتا ہے۔ ویسے تو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم اس کی ایک واضح مثال ہیں جن کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی دوسری عالمی جنگ جیتنے کے قابل ہوئے تھے وگرنہ تاریخ میں اس سوال کا جواب واضح ہے کہ اگر ایٹمی حملے نہ کیے جاتے تو دوسری عالمی جنگ کا نتیجہ کیا ہوتا۔ جدید دور میں آپ امریکہ کی ڈرون ٹیکنالوجی کو ہی لے لیں جس کی مدد سے وہ جب چاہتا ہے‘ جہاں چاہتا ہے‘ حملہ کر کے اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکہ کے ڈرون حملوں کا تواتر سے شکار مسلم ممالک ہی رہے ہیں۔
مسلم ممالک جو آج امریکہ کے زیرِ حملہ ہیں‘ کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو دنیا کی معلوم تاریخ میں اہلِ یونان کے بعد یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے پانچ سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پوری دنیا پر حکمرانی کی تھی۔ یونان کی علم و حکمت پر دسترس ختم ہوجانے کے بعد کے دور کو یورپ کے ''دورِ سیاہ‘‘ (ڈارک ایجز) سے موسوم کیا جاتا ہے مگر یہ دورِ سیاہ اس وقت کی مسلم بالخصوص عرب دنیا کا سنہری دور تھا اور یورپ کے دورِ سیاہ کو ختم کرنے والے مسلمان سائنس دان ہی تھے۔ اب آپ اہلِ مغرب کا ظلم دیکھیں کہ وہ اپنی وڈیوز، اپنی ایجوکیشن، اپنی تحریروں حتیٰ کہ اپنی گفتگو میں بھی اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ (اس کی تفصیل پھر سہی)۔ دماغ پر زور دے کر سوچیے کہ آپ نے کتنی دفعہ اور کتنے لوگوں کی تقریروں میں ان مسلم سائنس دانوں کا ذکر سنا ہے جنہوں نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کو علم کے نور سے منور کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی کسی عالم کے منہ سے اس حوالے سے کوئی تفصیل‘ کوئی لیکچر ان سائنس دانوں کے بارے میں سننے کو نہیں ملتا۔ اس ذکر کو تو چھوڑ ہی دیں کہ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس حوالے سے تقابلی جائزہ جب کیا جاتا ہے تو یونیورسٹیوں کا تقابل مدارس کے ساتھ کرتے ہوئے فضا کو ناخوش گوار کر دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ محض مسلم ورلڈ ہی نہیں‘ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی Al-Karaouine دو مسلمان بہنوں نے ایک مسجد سے ملحقہ مدرسہ نما جگہ پر 859ء میں مراکو میں قائم کی تھی جو آج بھی قائم و دائم ہے۔
اب بات کچھ اس طرح ہے کہ مسلم دنیا سمیت تیسری دنیا کے لوگ، بحیثیت مجموعی ایسی بحثوں کا شکار ہیں جس کا تعلق Magicalیعنی معجزاتی خیالات سے ہے جبکہ دنیا Logical ہونے سے چلتی اور آگے بڑھتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ''ایک نسل کی جہالت، دوسری نسل کی روایت جبکہ تیسری نسل کا عقیدہ بن جاتی ہے اور اس کے بعد والوں کی موت ہوتی ہے‘‘۔ باقی اندازہ خود کر لیں کہ تھرڈ ورلڈ کنٹریزکتنی صدیوں سے اس ذہنی جمود، خلفشار، بانجھ پن اور قلت کے بحران کا شکار ہیں۔ بلا شبہ یہ وہ دھوکے ہیں جن کی ڈگر پر ڈالا ہمیں غیروں نے تھا لیکن اس جہالت کی آگ کا ایندھن ہم خود بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے نسلوں کی مار‘ جو نس نس میں رچ بس چکی ہے‘ اس کو ترک کریں اور سوال اٹھانے کی عادت ڈالیں اور جو بھی سوال کیا جائے‘ اس کی کھوج لگایا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں