چین نے اپنے ہاں موسمی تغیرات اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے اپنے سائنسی منصوبے کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ چین نے اس منصوبے کے تحت شدید سردی اور گرمی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی پر قابو پانے کے لیے مصنوعی بارشوں کے سلسلے کو بھارت کے کل رقبے سے زیادہ علاقے تک وسیع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سال چین کو خشک سالی کا اس حد تک سامنا کرنا پڑا تھا کہ اس کا سب سے بڑا دریا ینگ زی کیانگ خشک ہو گیا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ چین کے ایک صوبے میں بجلی کی کمی بھی پیدا ہوئی اور لوڈشیڈنگ کی نوبت بھی اس حد کو پہنچ گئی کہ کئی صنعتی یونٹ بند کرنا پڑ گئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ اسی دریا میں پانی کی کمی تھی کیونکہ یہ دریا پانی سے بجلی پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اُن دنوں ایک ایسی تصویر بھی وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ چین کے دفاتر میں برف کے بڑے بڑے بلاک رکھے گئے تھے تاکہ ایئر کنڈیشنرز نہ چلانا پڑیں۔
دوسری جانب بھارت کے اندر ایک شور برپا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے چین بھارت کے بادل اور بارشیں چوری کرنے لگ جائے گا۔ اس شور کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی چین کے ساتھ تقریباً 4500 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر ایک ملک اپنے ہاں مصنوعی بارش برسانا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے کہ دوسرے ممالک کے بادل بارش برسانے والے ملک کا رخ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ الزام لگانے سے پہلے بھارت نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ چین کا جو حصہ بھارت کی سرحد کے ساتھ ہے وہ ایک پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ تقریباً غیر آباد بھی ہے‘ اور وہ علاقے جہاں چین مصنوعی بارشیں برسانے کا ارادہ رکھتا ہے یا پھر برسا رہا ہے وہ بھارت کی سرحد سے بہت دور ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر بھارت کو سبق سکھانا مقصود ہو تو چین بھارت کے ساتھ ملحق اپنے سرحدی علاقے میں ایسا کر بھی سکتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا دریا برہم پترا چین سے شروع ہو کر ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد پہلے بھارت اور پھر بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔ اس دریا پر چین نے ایک بڑا ڈیم پہلے ہی بنا یا ہوا ہے۔ اگرچہ تا حال چین اس دریا کو بھارت کی طرف بہنے سے نہیں روکتا لیکن اگر چاہے تو مستقبل میں ایسا ضرور کر سکتا ہے۔ ملکوں کے درمیان ہونے والی ایسی سیاسی کشمکش یا سیاست کو Green Politicsکہا جاتا ہے۔ ہم اگر اس کا مطلب سبز سیاست لیں تو اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ قدرتی ماحول‘ جیسے دریا‘ نہریں‘ فضائی آلودگی یا کسی ایک ملک کا گرمی یعنی درجہ حرارت میں اضافہ کا باعث بننا‘ ایسے معاملات ہیں جو مستقبل میں وجۂ تنازعہ بن سکتے ہیں۔
اب اگر ہوا یا فضا کی آلودگی کی بات کی جائے تو سب سے پہلے خوفناک دھند سموگ کا ذکر آ جاتا ہے۔ آج‘ بروز جمعہ‘ جب یہ سطور تحریر ہو رہی ہیں‘ تو لاہور شہر میں بھارت کی طرف سے سموگ بھری ہوائیں داخل ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ اب اس زہریلی دھند کے نقصانات کا ذکر تو بہت زیادہ ہو چکا ہے‘ اس لیے اب اس کی دیگر صورتحال کا ذکر کرتے ہیں۔ قصہ تو یہ بھی پرانا ہے کہ بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جہاں دنیا کے آلودہ شہروں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے لیے اگر آپ عالمی اداروں کی سائٹس پر جائیں تو پتا چلے گا کہ پچاس میں سے چالیس آلودہ ترین شہر بھارت ہی میں ہیں۔ وجہ کوئی بہت بڑی یا گہری نہیں ہے‘ اول تو بھارت دنیا کا آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن دو برسوں میں یہ چین کو کراس کرکے پہلے نمبر پر آنے والا ہے۔ دوم اس وقت بھارت آبادی میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ آبادی کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے دیگر مسائل خطے کے دوسرے ممالک سے ملتے جلتے ہی ہیں یعنی دھواں چھوڑتی گاڑیوں کا سارا دن حتیٰ کہ رات کے وقت بھی سڑکوں پر بلا روک ٹوک بہائو۔ یہاں رات کا لفظ اس لیے بھی استعمال کرنا پڑا کیونکہ جنوبی ایشیا میں بڑی گاڑیوں یعنی ٹرکوں کو رات کے وقت شہر میں داخل ہونے کی اجازت ہوتی ہے اور یہ ٹرک ڈیزل سے چلتے ہیں۔ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ڈیزل پر چلنے والے ٹرک اور بسیں ہوتی ہیں۔ لاہور کو سموگ سے محفوظ کرنے کے لیے ایک خوش آئند خبر یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے شہر میں ''سموگ ایمرجنسی‘‘ لگانے کا حکم دے دیا ہے۔ اس کے بعد ٹریفک پولیس کا محکمہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پوری ایمانداری سے اس لیے بھی کریک ڈاؤن کرے کہ اس زہریلے دھویں سے وہ اور ان کی فیملیز بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ سڑکوں پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک اہلکار فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اب اس بات کا پتا نہیں چلا کہ جس طرح الٹے ہاتھ گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو تو دو ہزار جرمانے کا حکم ہے لیکن دھواں دینے والی گاڑیوں کو کیا سزا تجویز کی گئی ہے‘ مجھے اس کی کوئی تفصیل نہیں ملی۔ شہر میں دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے مالکان کو بھاری جرمانے کرنے کے ساتھ گاڑی کی فوری مرمت کروانے کا پابند بھی بنایا جائے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو فضائی آلودگی پھیلاتی ان گاڑیوں کو بند کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔
اس ضمن میں جہاں تک بات رہی انفرادی طور پر اپنا کردار نبھانے کی تو آپ کو سب سے پہلے تو اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کی حالت پر غور کرنا ہوگا کہ کہیں یہ دھواں تو نہیں دے رہی۔ سب سے پہلے اس کو ٹھیک کروائیں۔ اس کے بعد قریبی لوگوں کو بھی اس پر مائل ہی نہ کریں بلکہ امریکہ کی طرح دباؤ ڈالیں۔ اپنے گھر کی چھت پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد ہر طرح کی مٹی کو سمیٹ لیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی گھر کی تعمیر کا کام کررہے ہیں تو اس مقصد کے لیے آئی ہوریت پر روزانہ کی بنیاد پر دن میں دو دفعہ چھڑکاؤ کریں تاکہ وہ اڑ اڑ کر فضا کو آلودہ نہ کرے۔ ایک اور احتیاط اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اس ریت کو کسی بھی بڑے کپڑے سے ڈھانپ کر رکھیں۔ اسی طرح تعمیر کے لیے لائی جانی والی مٹی کی ٹرالیوں کے لیے یہ بات یقینی بنائیں کہ یہ سڑکوں پر مٹی نہ گرائیں۔ اسی طرح چاول کی کٹائی کرنے والوں سے گزارش ہے کہ باقی ماندہ مواد کو آگ ہر گز نہ لگائیں۔ اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں ایسے رستے ہیں جو کچے ہیں تو ان پر چھڑکاؤکا اہتمام کریں اور ایسے رستوں پر اپنی گاڑی کی رفتار تیز نہ کریں تاکہ راستے کی گرد اُڑ کر فضا میں شامل نہ ہو۔ یاد رہے ایسی قدرتی آفات سے ہمیں بحیثیت قوم لڑنا ہوگا اور قوموں کا مزاج لوگوں کے انفرادی رویوں سے ہی تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے۔
بھارت میں مصنوعی بارشوں کے ایک منصوبے پر کئی برسوں سے ہی نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے کام ہو رہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کو فوراً چالو کرے اور اس کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلائے اور جیسے ہی بادل چھائیں تو ان کو برسنے پر مجبور کرے تاکہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں جو اس کا حصہ 80 فیصد ہے وہ کم ہو سکے۔ جس طرح بھارت نے خطے میں ایک جنگی جنون کو پروان چڑھایا ہے۔ ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع کر رکھی ہے‘ عین اسی طرح وہ اس فضائی آلودگی کو ختم نہ سہی کم کرنے ہی کی کوئی مہم چلالے۔ واضح رہے کہ لاہور شہر کی آلودگی ختم کرنے کے لیے یہ بھی ناگزیر ہے کہ بھارت کی طرف سے سموگ کی زہریلی دھند نہ آئے جو کہ اس وقت آ رہی ہے۔ بھارت کو اس سے پہلے ایشیا کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا لیکن اب شاید اسے 'آلودہ دیوی‘ کا خطاب بھی مل جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھارت کو ملنے والا آخری خطاب ثابت ہو کیونکہ اگر وہ اپنی آلودگی ختم نہ کر سکا تو وہاں زندگی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔