ماحول کی آلودگی اور زندگی کے لیے ضروری بنیادی اجزا کی قلت‘ جیسے پانی، خوراک وغیرہ‘ دنیا میں لوگوں کی ہجرت کی جدید ترین وجہ اور عوامل بن کر سامنے آ چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ان عوامل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہر سال 13 اکتوبر کو قدرتی آفات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جبکہ 10 اکتوبر ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر اور 8 اکتوبر پرندوں کی موسمیاتی ہجرت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ان تینوں دِنوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرندوں کی ہجرت اور ذہنی صحت کے خراب ہونے کا مہینہ بھی اکتوبر ہی کو بتایا جاتا ہے۔ اب اگر بات کریں قدرتی آفات کے عالمی دن کی تو اس کا براہِ راست تعلق اور اثر پرندوں کی ہجرت کے علاوہ انسان کی ذہنی صحت کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی‘ کٹھن اور کڑی صورت سموگ کی شکل میں پیدا ہونے والی زہریلی دھند ہے۔ واضح رہے کہ یہ دھند گزشتہ سال جنوبی ایشیا میں ساری سردیاں جاری رہی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سموگ کو کہا تو قدرتی آفت کہا جاتا ہے لیکن یہ سوفیصد انسانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے۔
اگر پہلے بات کی جائے قدرتی ماحول کی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی ہجرت کی تو قدرتی ماحول کی وجہ سے ہجرت سے بچ جانے والے علاقوں میں ترقیاتی ممالک سب سے نمایاں ہیں۔ اسی تناظر میں جنوبی ایشیا سب سے خطرناک مقام پر کھڑا ہے۔ اس خطے میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی کا سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ صرف بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سالانہ تقریباً اڑھائی کروڑ نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پوری دنیا کے کل اضافے کا 31 فیصد یعنی ایک تہائی بنتا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں دنیا کے کل سو افراد میں سے 31 لوگ صرف ان تین ملکوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ دنیا کے 80فیصد آلودہ ترین شہر صرف بھارت میں ہیں اور اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی شامل کر لیں تو یہ شرح نوے فیصد سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
ذہنی صحت کی بات کریں تو یہ دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بیماری بن چکی ہے۔ یہ بیماری جہاں ایک طرف معذوری کی ایک شکل سمجھی جاتی ہے تو دوسری طرف مشکل یہ ہے کہ دیگربہت سی جسمانی معذوریوں کی طرح اس کو بھی چھپایا جاتا اور اس کے علاج سے گریز کیا جاتا ہے۔ لوگ اس بیماری کا اظہار کرتے ہوئے جھجکتے ہی نہیں بلکہ ڈرتے بھی ہیں۔ اس بیماری کا علاج کرنے کے بجائے اسے بھوت پریت اور جنوں کے چمٹ جانے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے تعویذ‘ گنڈے‘ دھاگے‘ عملیات کے علاوہ عاملوں کے پاس جا کر اس کا کوئی جادوئی حل تلاش کیا جاتا ہے۔ یہاں اہم ترین معاملہ جو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اس مرض کا علاج جتنا دیر سے کیا جائے گا‘ اتنا ہی شفا یاب ہونے میں دقت پیش آئے گی۔ ذہنی امراض کے علاج کے لیے فی الحال دو طرح کے طریقے رائج ہیں۔ پہلا حل یہ ہے کہ آپ کسی سائیکالوجی کے ماہر کے پاس جائیں جو دوائی کے بغیر اس بیماری سے نجات پانے میں آپ کی مدد کرتا ہے، جبکہ دوسرا حل ایک سائیکاٹرسٹ ہوتا ہے جو ایک دوائی دینے والا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ مرض اگر ابتدائی مراحل میں ہو تو بغیر دوائی سے اس کا علاج کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بات نہ بنے تو دوائی سے حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مرض مکمل طور پر قابلِ علاج ہے۔
اب بات اس تعلق کی جو دماغی امراض اور قدرتی ماحول یعنی آب و ہوا (کے صحت مند ہونے) میں پایا جاتاہے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ ذہنی امراض کے لاحق ہونے کا تعلق شہری آبادی سے بہت زیادہ ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تنگ و تاریک اور چھوٹے سائز کے رہائشی یونٹس ہیں، اس کے ساتھ شہروں میں ہوا کی آلودگی بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ سائنس کے تجربات نے باقاعدہ طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ کھلی اور صاف آب و ہوا میں وقت گزارنے سے ذہنی صحت یعنی موڈ میں ایک واضح قسم کی مثبت تبدیلی آتی ہے۔ اگر کھلی آب وہوا میں واک کی بات کریں تو اکثر شہری علاقوں میں بڑے اور کھلے گرائونڈز اور پارکوں کی کمی ہے۔ اسی بات کو آگے لے کر چلیں تو اہم ترین معاملہ یہ سامنے آتا ہے کہ جب سموگ شہری علاقے کو گھیر لیتی ہے تو لوگوں کا سیر یا ورزش کے لیے کسی بھی کھلی جگہ پر جانا شدید خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر باقاعدہ طور پر منع کرتے ہیں کہ ایسے موسم میں گھر سے کم سے کم نکلیں۔ شہری علاقوں سے متعلق ایک اور پیچیدہ معاملہ فلیٹ کلچر ہے۔ چاہے یہ فلیٹ کسی پوش علاقے میں اور کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو۔ اگر اس کی کوئی بڑی کھڑکی باہر کی طرف کسی صاف ہوا والی جگہ کی طرف نہ کھلتی ہو تو یہ صحت کے لیے ہر گز اچھا نہیں ہو گا۔ اگر آپ کا فلیٹ کسی بڑی سڑک کے کنارے پر واقع ہے جہاں سے بھاری ٹریفک گزرتی ہے تو پھر یقینا آپ ایک قدرتی آفت زدہ علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
شہری زندگی میں ذہنی صحت کے خراب ہونے کی دوسری بڑی وجہ غیر مناسب یا سب سٹینڈرڈ خوراک ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال تو روز مرہ معمول میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی شے یعنی دودھ ہے۔ دودھ کا استعمال ناشتے کے علاوہ سارا دن پی جانے والی چائے میں بھی ہوتا ہے۔ جو دودھ ہم شہروں میں استعمال کر رہے ہیں‘ اس کے متعلق زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ کچھ سال پہلے ایک عدالتی فیصلے میں اس بات کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ سوائے چند ایک کمپنیوں کے‘ شاید ہی کوئی دوسرا ذریعہ ہو جہاں سے صحت مند دودھ مل سکتا ہو۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اگر آپ روٹی کسی تنور سے لیتے ہیں تو یہ جس آٹے سے بنتی ہے‘ وہ بھی اس معیار کا نہیں ہوتا کہ جسم کی غذائی ضروریات پوری کر سکتا ہو۔ اس کا سادہ سا ٹیسٹ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ تنور کی بیشتر روٹیاں چند منٹوں کے بعد ہی اپنی اصل حالت کھونا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ صحیح آٹے‘ جس کو چکی کا آٹا کہا جاتا ہے‘ کی روٹی پکائیں تو یہ کئی گھنٹے گزارنے کے بعد بھی اگر گرم کی جائے تو اپنی حالت برقرار رکھتی ہے۔ روٹی کے بعد باری آتی ہے گوشت کی جو ہماری خوراک کا ایک لازمی حصہ ہے‘ اگرچہ اب قوتِ خرید اس کو خریدنے کی اجازت کم ہی دیتی ہے مگر گوشت غذائی ضروریات کے لیے بہت اہم ہے۔ روز مرہ استعمال میں گوشت کا سب سے بڑا حصہ پولٹری ہے۔ اس سے متعلق جو خبریں ہم آئے دن سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں‘ ان سے بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ نہ صرف بیمار بلکہ مردہ مرغیاں بھی شہروں میں بیچ دی جاتی ہیں۔ یہ گوشت زیادہ تر بازاری کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر خوراک کا معیار مناسب نہ ہو تو جسم میں وٹامنز کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور یہ کمی لازمی طور پر ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ اس سلسلے میں وٹامن بی کی کمی بہت اہم ہے، اسی طرح جسم میں آئرن کی کمی بھی ہو جاتی ہے جو براہِ راست نہ صرف جسم بلکہ دماغ کی قوتِ مدافعت کو بھی کم کر دیتی ہے۔ آپ کسی میڈیکل سٹور پر کچھ دیر کھڑے ہو کر مشاہدہ کریں۔ ایک کثیر تعداد آپ کو ملٹی وٹامنز کی گولیوں اور کیپسولز کی خریداری کرتی نظر آئے گی۔ ایسا کیوں ہے؟ ذہنی صحت کے حوالے سے آپ اپنے جسم میں وٹامنز کی مقدار جانچنے کا ایک ٹیسٹ کرا سکتے ہیں جو زیادہ مہنگا بھی نہیں ہوتا۔ اس ٹیسٹ رپورٹ میں جس وٹامن یا وٹامنز کی کمی نظر آئے‘ اس کے حساب سے دوائی خرید لیں۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ یہ وٹامنز آپ کو امپورٹڈ گولیوں کی شکل میں بھی مل جاتے ہیں۔ اب اتنا تو آپ اپنے اور اپنے کسی پیارے کے لیے کر ہی سکتے ہوں گے۔ یہاں پر جو چیز سب سے زیادہ مشاہدے میں آئی ہے وہ بچوں کی کھانے پینے کی عادات ہیں، جو بازاری اشیا کے گرویدہ ہو چکے ہیں، تو ان میں بھی وٹامنز کی کمی کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔ (جاری)