چھلکے، شوربہ اور ہوا

ایک افسانوی بات بیان کرتے ہوئے پتا چلا کہ یہ تو حقیقت کے قریب ہی نہیں بلکہ عین حقیقت ہے اور کوئی عام نہیں بلکہ مسلم اور مسلط حقیقت۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ خوراک کے عالمی دن کے مناسبت سے غربت سے لڑنے کی ایک ترکیب یہ بیان کی گئی تھی کہ آج کل مارکیٹ میں صرف کیلے ہی ایک ایسی چیز ہیں جو اب بھی قدرے سستے مل رہے ہیں۔ ان کی قیمت ساٹھ روپے سے شروع ہو کر ڈیڑھ سو روپے فی درجن تک جاتی ہے۔ اگر ایک درجن کا حساب کیا جائے تو یہ وزن میں ایک کلو سے زیادہ بن جاتا ہے۔ غذائی افادیت کے حوالے سے بھی کیلا بہترین غذا ہے اور فی درجن چیز خریدتے وقت ایک اور چیز کی تسلی بھی رہتی ہے، وہ یہ کہ کم ناپ تول کا کوئی خدشہ نہیں رہتا کیونکہ کیلے گنتی کے حساب سے ملتے ہیں۔ بات یہ کی گئی تھی کہ مہنگائی سے بچنے کے لیے کیوں نہ کیلوں کا ہی سالن پکا لیا جائے۔ اس پر مزید اطلاع یہ ملی کہ کچے کیلوں کا سالن زیادہ آسانی سے اس لیے بھی پکایا جا سکتا ہے کہ ان کیلوں میں مٹھاس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک اوربات یہ بیان کی گئی کہ ایک پھل کے تو چھلکے بھی پکائے جا سکتے ہیں اور یہ چھلکے کیلوں سے بھی زیادہ سستے پڑتے ہیں، اور یہ ہیں تربوز کے چھلکے۔ ان کو پکانے کی ترکیب رسائل و جرائد میں چھپ بھی چکی ہے۔ آپ اگر ان کو شوربے کی صورت میں پکائیں تو ذائقہ زیادہ اچھا بنتا ہے۔ شوربے میں پکانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ چاہیں تو صرف شوربے کے ساتھ بھی کھانا کھا سکتے ہیں۔ مطلب اگر شروع میں چھلکوں کو پکا کر کھانا آپ کے لیے ناگوار ہے تو شوربہ کھاتا ہوئے آپ کو تربوز کے چھلکوں کا سالن ناگوار نہیں لگے گا۔ مزید یہ کہ اگر آپ اپنے بچوں سے یہ بات چھپانا چاہ رہے ہیں کہ آج کیا پکایا ہے تو بھی یہ بھرم قائم رہ سکتا ہے۔ آج کل توتربوز موجود نہیں تو اس صورت میں کیلے ہی واحد اور آخری انتخاب کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ واضح رہے کہ غربت میں انتخاب اسی طرح محدود ہوتا ہے جیسے کسی کرپٹ ملک میں قوم پر مسلط ہونے والے حکمرانوں کا انتخاب محدود ہوتا ہے۔
تربوز کے چھلکے اور کیلے پکانے کی بات ہوئی تو مزید سوالات عین اسی طرح ابھر کر سامنے آئے جس طرح غربت میں مشکلات در مشکلات سامنے آتی ہیں۔ یہ مشکل سوالات یہ ہیں کہ مہنگے گھی اور کوکنگ آئل کا متبادل کیا ہو گا؟تو عرض یہ ہے کہ اول تو یہ عادت بنائیں کہ گھی آدھی مقدار سے بھی کم ڈالیں، اگر آپ کو اس مہنگائی اور اپنی کم قوتِ خریدکا احساس ستا رہا ہو تو ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کہ گھی اور کوکنگ آئل آپ کی صحت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ آپ اگر ماضی کے اوسط سے آدھا گھی ڈالیں گے تو آپ کو فوراً گھی کی قیمت میں پچاس فیصد بچت ہو گی جو ایک بڑا ریلیف ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک ترکیب اور بھی ہے۔ مارکیٹ میں اب ایسے برتن بھی آچکے ہیں جن میں آپ بغیر گھی کے کھانا وغیرہ پکا سکتے ہیں۔ ان برتنوں کو Non-Stick کہا جاتا ہے۔ ان کی قیمت پندرہ سو روپے سے لے کر دو ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ نچلے طبقے کے لیے یہ مسئلہ بھی اہم ہوتا ہے کہ انہیں ان برتنوں کی قیمت کافی زیادہ لگتی ہے، تو اس حوالے سے جواب آپ کے ذہن میں آچکا ہوگا کہ ان برتنوں کو قسطوں پر خرید لیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو پیسے گھی کے نصف استعمال سے بچیں‘ ان کو جمع کر کے پہلا کام یہی کریں کہ گھی کے بغیر پکوائی والے برتن خرید لیں۔ اس کے علاوہ ایسے آلات بھی دستیاب ہیں جو فرائی بھی بغیر گھی کے کرتے ہیں۔ ان کو ''ایئر فرائیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں مچھلی، گوشت، آلو کے چپس وغیرہ کو گھی‘ تیل کے بغیر تلا جاسکتا ہے۔
اگر آپ کو یہ باتیں عجیب لگ رہی ہیں تو اس تحریر کومزید نہ پڑھیں کیونکہ یہ کالم محض غربت کے خلاف لڑائی کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ ارے ہاں یاد آیا! اب تو ملک کا درمیانی طبقہ‘ یعنی مڈل کلاس کی بڑی تعداد بھی سرک کر یا پھر لڑھک کر نچلے طبقے میں شامل ہو چکی ہے۔ مطلب خطِ غربت سے نیچے جا چکی ہے۔ غربت سے یاد آیا کہ ایک جگہ ایک مزاحیہ وارننگ لکھی تھی کہ ''ڈاکو اُس شخص کو زیادہ مارتے ہیں جس کے پاس مال یا پھر کوئی اور ایسی چیز نہ ہو جو وہ لوٹ سکیں‘‘۔ اسی صورت حال کو شاید مزاحیہ المیہ (Tragic comedy) کہا جاتا ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو غربت کا ایک اور بھی المیہ ہے۔ عمیق مشاہدے سے علم ہو گا کہ کس طرح غربت کی وجہ سے ادب بھی تخلیق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اسی صورتحال کو لے لیں کہ غریب کے پاس کچھ نہ ہو تو خدشہ ہے کہ ڈاکو اس کو ماریں گے۔ اس طرح کے واقعات میں غریب کی عزتِ نفس کو تو ٹھیس پہنچتی ہی ہے‘ اس طرح کا حادثہ اس کی تلخ یادوں کا بھی مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے اگر آپ پولیس والوں کو جاری کردہ ہدایات کا مطالعہ کریں تو وہاں صاف الفاظ میں لکھا ہوتا ہے کہ جائے حادثہ پر پہنچ کر مظلوم کے غم کی کیفیت کا ازالہ کرنے کی کوشش ضرور کریں تاکہ وہ صدمے کی کیفیت سے باہر نکل سکے۔ بات ہو رہی تھی غریب کی عزتِ نفس کے مجروح ہونے کی تو ایک بہت گہرا اور عجیب پہلو ہمارے جیسے معاشروں کا یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ محض اس وجہ سے غربت کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ اپنی عملی زندگی میں ایماندار ہوتے ہیں۔ مطلب وہ ناجائز ذرائع سے کچھ حاصل نہیں کرتے۔ خدا خوفی اور آخرت کی جواب طلبی انہیں ناجائز ذرائع سے دولت کے حصول سے باز رکھتی ہے۔ ان کے ساتھ کے کئی لوگ لکھ پتی بلکہ کروڑ پتی ہو جاتے ہیں مگر وہ اپنی نہایت محدود بساط کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اول تو اپنی زندگی میں انتہائی پُر سکون ہوتے ہیں اور ایک انوکھا اعتماد بھی انہیں حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی عزت چاہے پورے معاشرے میں اُس طرح نہ ہو جیسے امیر لوگوں کی عزت ہوتی ہے مگر ان کی عزت خالص ضرور ہے۔ ''خالص عزت‘‘ کی اصطلاح اس لیے استعمال ہوئی ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے یا پھر کاروبار میں کوئی غلط حربہ استعمال کر کے بہت ساری دولت جمع کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عزت ان کی دولت کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ ایسی عزت کو خالص عزت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مصنوعی عزت دراصل ان کی دولت کی عزت ہوتی ہے۔ بات واپس اس غریب آدمی کی طرف موڑتے ہیں جس کو ڈاکوئوں نے صرف اس لیے مارا کہ اس کے پاس سے کوئی بھی قیمتی شے نہیں نکلی تھی۔ وہ ایمانداری کی وجہ سے غربت کو خود اختیار کیے ہوا تھا۔ ڈاکوئوں کی مار پیٹ سے ان کی عزتِ نفس کو شدید دھچکا پہنچا۔ یقینا یہ غربت کی سب سے بڑی قیمت اور اس غریب کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہے۔
بات غذائی مشکلات سے شروع ہوئی تھی اور ہم نے ابھی تک دو نئی ڈشز دریافت کی ہیں جو کم قیمت ہیں اور دیگر چیزوں کے مقابلے میں بہت سستی ہیں۔ لیکن اب ایک ایسی غربت کا ذکر کرتے ہیں جس کا شکار امیر طبقہ بھی ہوچکا ہے۔ آپ کو شاید یہ پڑھ کر عجیب لگا ہو کہ وہ کو ن سی قسم کا امیر ہوگا جو غربت کا شکار ہو چکا ہے۔ ویسے تو اس کی کئی اقسام اور اشکال ہوتی ہیں لیکن یہ اپنی بقا یا وجود کو برقرار رکھنے والی غربت ہے۔ مطلب جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے‘ اسی طرح کچھ اور چیزیں بھی ہیں جو غذا سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اولاً آتا ہے پانی! ممکن ہے کہ آپ سوچیں کہ یہ بھی تو غذا ہی کی ایک شکل ہے تو جناب! عرض یہ ہے کہ اب خالص پانی ملنا تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ آپ قیمتاً پانی خرید سکتے ہیں تو گزارش یہ ہے کہ کیا گا رنٹی ہے کہ یہ پانی جو سیل پیک بوتل میں مل رہا ہے‘ خالص ہو گا ؟ چلیں‘ اس بات کو چھوڑیں، آپ ہر لمحہ لیے جانے والے سانس کا ہی حساب لگا لیں، جس کے لئے صاف ہوا ہر گز میسر نہیں۔ خاص طور پر اکتوبر کے آغاز سے سردیوں کے اختتام تک سموگ کی وجہ سے ہوا نہایت آلودہ ہو جاتی ہے۔ تازہ اور شفاف ہوا کی غربت ایسی غربت ہے جس کا شکار اب امیر طبقہ بھی ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ صاف ہوا کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں