''سیاست ہتھیاروں کے بغیر جنگ جبکہ جنگ ہتھیاروں کے ساتھ سیاست کا نام ہے‘‘۔ یہ شہرہ آفاق فقرہ چین کے بانی ماؤزے تنگ کا ہے۔ لیکن دوسری طرف جدید دنیا کی سیاست میں کہا جاتا ہے کہ امن نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور جس دورانیے کو امن سمجھا جاتا ہے وہ دراصل اگلی جنگ کی تیاری ہوتی ہے۔ ایسا امن جو کسی نہ کسی صورت قائم تو ہو لیکن ساتھ ہی جنگ کا امکان بھی موجود ہو یا پھر ملکوں کے فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں پہلے ہی سے ایک جنگ جاری ہو تو ایسے امن کو عارضی یا ''منفی امن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کسی حد تک درست ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں نے بھی بڑی طاقتوں کے درمیان گرم اور براہِ راست جنگوں کو روک رکھا ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ گرم اور براہِ راست جنگوں کی جگہ سرد یا پھر نیم گرم اور پراکسی جنگیں اس وقت بھی جاری ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر مشرق اور مغرب کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف طرز کی جنگیں جاری ہیں۔ مشرق کی سربراہی چین کی شکل میں موجود ہے جبکہ مغرب کی سربراہی تاحال امریکا ہی کے پاس ہے۔ اس صورت حال کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ مغرب کی طرف سے ہر ممکن حربوں کی شکل میں ایشیائی ممالک آج بھی زیر حملہ ہیں۔
ان دنوں ایک ایشیائی ملک‘ روس نے‘ چین کی غیر اعلانیہ مدد کے ساتھ‘ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی دفعہ ایک یورپی ملک یوکرین میں جنگ کا محاذ کھول رکھا ہے۔ لیکن اس کے بر عکس امریکا نے ایشیا میں بہت سارے خفیہ محاذ کھول رکھے ہیں۔ امریکا نے چین جیسی طاقت کے گرد ایک گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ اس وقت بحراوقیا نوس میں تائیوان کی شکل میں ایک چھوٹا سا جزیرہ چین کے لیے ایک مستقل چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے کی ایک بڑی معاشی طاقت جاپان ابھی تک نا صرف ا مریکا کا سخت گیر قسم کا اتحادی ہے بلکہ تاحال اس کے تعلقات چین کے ساتھ بہت زیادہ دوستانہ بھی نہیں ہیں۔ اسی طرح جاپان کے تعلقات روس کے ساتھ بھی دوستانہ نہیں ہیں۔ اگر ان کو کسی حد تک دوستانہ مان بھی لیا جائے توایک بات بالکل واضح ہے کہ جاپان ان دونوں ہمسایہ اور قریب کے ممالک کے بجائے اب بھی امریکا کے اتحادیوں میں شامل ہے۔ اس کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا کی بات کی جائے تو جنوبی کوریا بھی نا صرف امریکی اتحادی ہے بلکہ اپنی سکیورٹی کے لیے مکمل طور پر نا صرف امریکا پر انحصار کرتا ہے بلکہ امریکی افواج مستقل طور پر اس ملک میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اپنے دشمن ملک جنوبی کوریا کے علاوہ اگر کسی ملک سے شمالی کوریا کی سرحد ملتی ہے تو وہ صرف چین ہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شمالی کوریا میں اگرچہ کمیونزم طرز کی حکومت ہے لیکن یہ دنیا کی ایک انوکھی ترین حکومت ہے جو صرف ایک ہی خاندان تک محدود ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے کسی اور ملک کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتا۔ اب چین کے نیچے والے علاقے کی طرف آئیں تو ایک کمیونسٹ ملک ویتنام ہے‘ یہ ملک بھی ایک کمیونسٹ ملک ہونے کے باوجود چین سے زیادہ اچھے تعلقات نہیں رکھتا۔
اس کے بعد باری آتی ہے چین کے ساتھ دوسرا بڑا بارڈر رکھنے والے ملک بھارت کی‘ جو ہمہ وقت مغربی لابی کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہوئے چین کے ساتھ تنازعات کا شکار ہے۔ چین اور بھارت کی سرحد دنیا کی سب سے بڑی متنازعہ سرحد بھی ہے۔ اس تنازعہ کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کی سرحد تین مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے ساتھ تین مختلف طرز کی تقسیم پر مبنی ہے۔ چین کا اتحادی ہونے کے ناطے نیپال بھی بھارت کو مکمل آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ان دونوں ممالک میں مخاصمت کی وجہ سے جنوبی ایشیا بطورِ خاص متاثر ہوتا ہے۔ اس میں نیپال کا ذکر تو ہو چکا‘ اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا ملک بھوٹان بھی ان دو ملکوں کی فائرنگ کی زد میں آتا ہے۔ اس کے بعد اس جنگی کیفیت کا سب سے زیادہ اثر جس ملک پر ہو رہا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ پیارا پاکستان ہے۔ بھارت پہلے افغانستان میں امریکی موجودگی میں ہر ممکن طریقے سے پاکستان کے اندر ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری رکھے ہوئے تھا‘ اور اب چین کے اہم ترین منصوبے سی پیک کی گزر گاہ ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان میں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے بلکہ امریکا بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ بڑھارہا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت تا حال نا صرف چین کے دنیا کے سب سے بڑے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ نہیں بنا بلکہ سی پیک کی ہر ممکن طریقے سے مخالفت بھی جاری رکھے ہوئے۔ اسی وجہ سے چین نے بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر میں اپنا کنٹرول بڑھانا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان چین کے لیے کتنا اہم ہے‘ اس کا اندازہ کئی سال پہلے اسلام آباد میں دیے گئے چینی سفیر کے ایک بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے امریکی سفیر کو کہا تھا کہ پاکستان چین کو اتنا ہی پیارا ہے جتنا امریکا کو اسرائیل پیارا۔ پیارا ہونے کا مطلب سیاست کی زبان میں اہم ہونا ہی ہے۔ اب آپ کو سمجھ آچکی ہوگی کہ امریکا پاکستان کے معاملے میں اتنا زیادہ سخت گیر کیوں ہو چکا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر کا بیان ہر گز عام یا سادہ بیان نہیں‘ جس میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے متعلق بلا وجہ کا ایک خدشہ ظاہر کر دیا تھا۔ اگرچہ اس بیان کو نرم شکل دینے کے لیے امریکی وزارتِ خارجہ کے اہم عہدیدار نے تسلی دینے والا بیان بھی دے دیا تھا۔ امریکی ارادوں کو سمجھنے کے لیے کچھ زمینی حقائق کو سمجھنا بلکہ دہرانا ضروری ہے۔
سب سے پہلے آپ پاکستان کی کرنسی کے ساتھ جاری ایک کھیل بلکہ کھلواڑ کو سمجھیں۔ اس وقت دنیا میں کوئی بھی کرنسی اس طرح تیزی سے اوپر نہیں گئی جس طرح امریکی ڈالر گیا ہے اور پاکستانی روپیہ نیچے آیا ہے۔ بات بہت سادہ اور واضح ہے کہ کسی بھی ملک کی کرنسی اتنی تیزی سے صرف اس وقت نیچے جاتی ہے جب وہاں کوئی جنگ یا کوئی اور سنگین سیاسی بحران جاری ہو۔ لیکن پاکستان اس وقت تک دنیا کا واحد ملک ہے جس کی فورسز نے پانچویں نسل کی جنگ کامیابی سے جیتی ہے اور دہشت گردی سے نجات حاصل کی ہے۔ اسی بات کو ایک اور طریقے سے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف ایک وزیر خزانہ کے بدلنے سے یہ کرنسی اتنی طاقت حاصل کر گئی کہ اس کرنسی کو دنیا کی سب سے مقبول کرنسی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اب یہ عالمی طاقتوں کا ایک ایسا اشارہ ہے کہ جس کو عام آدمی بھی سمجھ رہا ہے۔ کرنسی کے اتار سے تجارت کے شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ درآمدات کے اخراجات بڑھنے سے بیٹھے بٹھائے قیمتیں ضرب کھا کر بڑھ جاتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں معاشی دبائو میں کاروباری ہی نہیں بلکہ وہ تنخواہ دار طبقہ بھی آچکا ہے جو بڑے گریڈز میں تنخواہ لیتا ہے۔ بجلی کے بل‘ پٹرول کی قیمتیں اور عام استعمال کی چیزیں بھی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ لوگ تقریباً سہم چکے ہیں۔
تاریخ میں پہلی دفعہ سبزیوں کی قیمتیں پھلوں سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ اس میں بھی ایک اشارہ چھپا ہے جس کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ اس تناؤ اور دباؤ کے پیچھے پاکستان کو سی پیک یعنی چین سے دور کروانا‘ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر پابندی لگانا یا پھر اسرائیل کو تسلیم کروانا‘ ان میں سے ایک مقصد حاصل کرنا شامل ہے۔ چین عالمی طاقت ہے‘ پاکستان کو اس سے پیچھے ہٹانا آسان نہیں‘ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہماری قومی سلامتی کی علامت ہے‘ اب رہ جاتا ہے اسرائیل کو تسلیم کرنا جو اس وقت مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال اور پالیسیوں کی وجہ سے ایک کم از کم ٹارگٹ نظر آتا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟