15نومبر کو آپ ایک خبر کچھ اس طرح کی پڑھیں گے کہ دنیا کی کل آبادی آج آٹھ ارب ہو گئی ہے۔ یہ خبر بنیادی طور پر ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کے لیے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی آبادی میں ہونے والے کل اضافے کا 90فیصد پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف جنوبی ایشیا کے تین ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی میں سالانہ دو کروڑ تیس لاکھ کا اضافہ ہو جاتا ہے‘ جو دنیا کے کل اضافے کا تقریباً تیس فیصد اور بلا شبہ انتہائی زیادہ ہے۔ یہ تین ممالک ہیں؛ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں آبادی کی شرح میں سب سے زیادہ اضافے والے ممالک میں مسلم دنیا سب سے آگے ہے۔صرف زیادہ ہی نہیں بلکہ خطرناک ترین اضافے والے ممالک میں بھی مسلم ممالک کا حصہ نمایاں ہے۔ اس کا سادہ سا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 1950ء تک آبادی کے اعتبار سے دنیا کے بیس بڑے ممالک میں مسلم ممالک کی تعداد صرف پانچ تھی جبکہ موجودہ دور میں یہ تعداد سات ہو چکی ہے۔ اس کو ایک طرف رکھ کر آپ دنیا کی کل آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب دیکھیں تو یہ حساب زیادہ بہتر طریقے سے لگا سکتے ہیں۔ 1900ء میں مسلمان دنیا کی کل آبادی کا 12.5 فیصد تھے جو اب دوگنا تک بڑھ کر 25 فیصد ہو چکے ہیں۔ اس حساب سے ایک اور بات واضح ہو جاتی ہے کہ جیسے ہی دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو گی‘ مسلم دنیا کی کل آبادی دو ارب ہو چکی ہو گی۔ مسلم دنیا میں پاکستان کے علاوہ نائیجیریا ایک ایسا ملک ہے جہاں آبادی میں بہت زیادہ شرح سے سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ عنقریب نہ صرف پاکستان بلکہ انڈونیشیا اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا آبادی کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک بن جائے گا۔ رہی بات پاکستان کی تو یہ آزادی کے وقت دنیا کا آبادی کے لحاظ سے چودھواں بڑا ملک تھا مگر اب پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ پاکستان نے جن ممالک کو آبادی کے میدان میں پیچھے چھوڑا ہے، ان میں برازیل، روس، جاپان، بنگلہ دیش، جرمنی، برطانیہ، فرانس اوراٹلی شامل ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی اور انتہائی خطرناک تبدیلی ہے۔
ہیومن ریسورس یعنی کسی بھی ملک کی آبادی ایک دور میں کسی بھی ملک کا بہت بڑا اثاثہ سمجھی جاتی تھی مگر یہ دور انسانی زندگی میں مشین کے استعمال کے آغاز سے‘ لگ بھگ دو صدیاں پہلے ختم ہو چکا ہے۔ذہن نشیں رہے کہ اس وقت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی آبادی میں اضافے کی شرح یا تو صفر ہے یا منفی میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں سالانہ پیدا اور فوت ہوجانے والے لوگوں کی تعدا برابر ہے یا پھر فوت ہونے والوں کی تعداد سالانہ پیدا ہونے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ اس طرح ان کی آبادی بڑھنے کے بجائے مسلسل گھٹ رہی ہے۔ کئی یورپی ممالک تو ایسے ہیں جہاں آبادی میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور وہ اس پر پریشان بھی دکھائی دیتے ہیں اور ان ممالک کی حکومتیں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں کہ وہ آبادی کو بڑھائیں۔ اس حوالے سے دو نمایاں مثالیں آئس لینڈ اور روس کی ہیں۔ روس کی آبادی بھی بڑھنے کے بجائے مسلسل کم ہو رہی ہے‘ اس لیے وہ مجبور ہے کہ لوگوں کو آبادی بڑھانے کا کہے۔ ان دو ممالک کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کچھ لوگ ایسے یورپی ملکوں کی مثال دے کر اب بھی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لیے خطرہ نہیں ہے۔
اب آبادی کو قابو کرنے کے سلسلے میں دنیا کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کرنے والے ملک چین کی بات کرتے ہیں۔ چین نے 1979ء میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا کا سخت ترین قانون لاگو کیا تھا۔ اس قانون کے تحت ہر جوڑے کو سختی سے مجبور کیا گیا کہ ان کا صرف ایک ہی بچہ ہونا چاہیے۔ یہ وہ وقت تھا جب چین کی آبادی تقریباً ایک ارب (98 کروڑ) تھی جبکہ اُس وقت بھارت کی کل آبادی 68کروڑ تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دو سال بعد دنیا کی آبادی کے حوالے سے جو بڑی خبر آئے گی وہ یہ ہو گی کہ بھارت‘ آبادی کے اعتبار سے چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ایک اور بڑی خبر جو آئندہ دو سال تک آنے کی توقع ہے‘ یہ ہو گی کہ چین معاشی پیداوار کے لحاظ سے امریکہ کوپیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن گیا ہے۔ ویسے آبادی کو قابو کرنے والی ایک اور بڑی مثال سابقہ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کی ہے۔ اس کی آبادی 1971ء میں مغربی پاکستان سے پچاس لاکھ زیادہ تھی لیکن اب بنگلہ دیش کی آبادی سولہ کروڑ کے لگ بھگ ہے‘ یعنی پاکستان سے تقریباً سات کروڑ کم۔ آبادی پر کنٹرول نے بنگلہ دیش میں معاشی بہتری کی صورتحال میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح چین کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ہاں 'ایک جوڑا ایک بچہ‘ پالیسی کی مدد سے ملک کی کل آبادی میں تقریباً پینتالیس کروڑ کا اضافہ روکا ہے۔ چین نے2016ء میں ون چائلڈ پالیسی ختم کر کے دوسرے بچے کی اجازت دے دی تھی لیکن اب وہاں کے لوگ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ایک بچہ بھی کافی ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ تقدیر پر یقین کرنے کے بجائے یہ مانتے ہیں کہ آج کے دور میں ایک بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے اتنا کچھ درکار ہو تا ہے کہ ایک جوڑا ایک ہی بچے کا حق ادا کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایک مکمل تعلیم و ہنر یافتہ شخص ہی ملک کے لیے وسیلے اور اثاثے کی شکل اختیار کر سکتا ہے،دوسری جانب نامکمل‘ کم تعلیم یافتہ اور کسی ہنر سے عاری فرد پورے معاشرے پر ایک بوجھ ثابت ہوتا ہے۔
بڑھتی آبادی کا ایک ایسا پہلو جو دنیا کو آبادی کوقابو میں رکھنے‘ یعنی شرحِ اضافہ کو صفر پر رکھنے پر مجبور کرتا ہے‘ وہ ماحولیاتی بوجھ ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر کسی دوسری رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی ملک کے کل رقبے پر جتنی سالانہ بارشیں ہوتی ہیں‘ ان کی ایک اوسط ہوتی ہے جو کم و بیش فکس رہتی ہے۔ بارش کا یہ پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور بعد ازاں اس کو نکال کر مختلف مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو ایک ایسا مقام آجائے گا جہاں پر پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آپ کے ذہن میں ڈیم بنانے کی سکیم سوجھ رہی ہے تو یاد رکھیں کہ اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ پانی کی قلت والی نہج پاکستان میں لگ بھگ آ چکی ہے اور اب سبھی بڑے شہروں کو شدید آبی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ صرف یہ حساب لگا لیں کہ آج سے بیس‘ تیس سال پہلے زمین میں سے پانی نکالنے کے لیے کتنے فٹ تک کھدائی کرنا پڑتی تھی؟ اس وقت بیس سے چالیس فٹ پر ہی پانی کا نلکا، ہینڈ پمپ یا ٹیوب ویل لگ جاتا تھا۔ لیکن اب آپ کسی بور کرنے والے سے پتا کریں تو علم ہو گا کہ یہ گہرائی اب کئی سو فٹ نیچے تک جا چکی ہے اور وہاں بھی پانی صاف نہیں ہوتا۔
ایک سوال سائنسدانوں کی جانب سے اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ زمین کتنے انسانوں کو پال سکتی یا ان کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کو زمین کی carrying capacity کہا جاتا ہے۔ ا س حساب کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ زمین اگر 100 لوگوں کو پال سکتی ہے تو اس وقت دنیا میں یعنی زمین پر 170 لوگ آباد ہیں۔ مطلب زمین پر اس کی استعداد سے ستر فیصد زیادہ لوگ آباد ہو چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ستر فیصد لوگ پوری دنیا میں برابر طور پر تقسیم نہیں ہیں بلکہ اضافی آبادی پسماندہ یعنی زیادہ شرحِ آبادی والے ممالک میں ہے جن میں صرف ہمارا ملک ہی شامل نہیں بلکہ ہمارا پورا خطہ سرفہرست ہے۔ اگر اب بھی حالات کی سنگینی سمجھ نہ آئے تو سوچیں کہ ہمارے ملک میں جعلی، ملاوٹ زدہ اور مصنوعی خوراک کا دور کب سے رائج ہو چکا ہے۔ آپ کھیتوں میں ڈالی جانے والی مصنوعی کھاد سے تخمینہ لگا لیں جو ایک طرح کا زہر ہے۔ اگر یہ زہریلی کھادیں اور گندے تالابوں کا پانی ہم کھیتوں کو نہ لگائیں تو غذائی پیداوار نصف سے بھی کم ہو جائے گی اور ہم ایک قحط زدہ‘ صحرائی ملک بن جائیں گے۔