ایک انتہائی اہم اور گہرا پیغام ایک عالمی طاقت کے سربراہ نے کچھ اس طرح دیا ہے کہ ایشیا کو عالمی طاقتوں کی جنگوں کا اکھاڑہ نہیں بننا چاہئے۔ یہ بیان چین کے تیسری دفعہ منتخب ہونے والے صدر شی جن پنگ نے حالیہ دنوں میں عالمی سطح کی ایک کانفرنس کے موقع پر دیاہے۔ ایک سطر کے اس بیان میں دو صدیوں سے زائد تک مغربی طاقتوں کے ہاتھوں عسکری، معاشی اور سماجی جنگی حملوں کا شکار رہنے والے براعظم ایشیا کا مقدمہ یا مدعا بیان کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو تاریخ کے اوراق کھنگالنا پڑیں گے جن سے یہ سبق ملے گا کہ صنعتی ترقی‘ 18ویں صدی کے وسط سے لے کر بیسویں صدی کے آخر تک‘ کے دور میں دنیا کی معاشی طاقت ایشیا ہی تھا۔ اس دوران جنوبی ایشیا دنیا کی معیشت میں ایک چوتھائی حصہ ڈالتا تھا۔ اس کے علاوہ سلطنت عثمانیہ دنیا بالخصوص یورپ کیلئے‘ ایک عالمی طاقت کا درجہ رکھتی تھی۔ اس سلطنت کے کنٹرول میں یورپ کا وہ حصہ تھا جو آج کے ترکی کا شمالی علاقہ ہے۔ ایک آسان طریقے سے آپ ایشیا کی برتری کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ صنعتی ترقی سے قبل تک معاشی پیداوار کا واحد ذریعہ زراعت ہی تھا، جبکہ ایشیا دنیا کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا براعظم تھا؍ ہے۔ اب اس قدرتی تقسیم کی وجہ سے اس علاقے کو دنیا کا سب سے امیر یا مضبوط براعظم ہونے کے سبب ایک سبقت حاصل تھی لیکن صنعتی انقلاب کی شکل میں آنے والے انسانی انقلاب کے بعد یورپ ایشیا پر چڑھ دوڑا۔ خاص طور پر اپنی صنعتوں کیلئے خام مال کے حصول کے لیے مگر اس سے زیادہ اہم مقصد تھا اس علاقے کو اپنی ایک مارکیٹ بنانا۔ معاشی پہلو کے علاوہ برطانیہ نے خاص طور پر اس کے ایک علاقے‘ جس کو برصغیر کہا جاتا ہے‘ کو ہر ممکن طور پر سماجی شکست و ریخت کا شکار بنا ڈالا۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ برطانیہ کے زوال کے بعد اس کی جارحانہ پالیسیوں کو امریکہ آج بھی جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔
ان سخت مغربی و امریکی پالیسیوں میں ایک وقفہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت آیا جب سوویت یونین امریکہ کی ایک مخالف مگر مساوی طاقت بن کر ابھرا۔ روس کی جانب سے امریکی مخالفت کی وجہ روس کا اشتراکیت کا وہ نظریہ تھا جس کے تحت وہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا بالخصوص تمام معاشی خرابیوں کی جڑ سمجھتا تھا۔ اس دور کو سرد جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دور میں امریکہ و مغربی دنیا کی تمام مخالفت کا صرف ایک ہی مرکز تھا، یعنی سوویت روس اور اس کا پیش کردہ نظریۂ اشتراکیت۔ لیکن ایک بات بہت اہم ہے، وہ یہ کہ روس بنیادی طور پر ایک ایشیائی ملک ہے کیونکہ اس کا زیادہ رقبہ ایشیا ہی میں شامل ہے۔ ایک اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے عرصے میں جتنی بھی گرم جنگیں ہوئیں‘ وہ تمام کی تمام یورپ سے باہر رکھی گئی تھیں۔ اس سلسلے کی دو بڑی جنگیں‘ جو کمیونزم اور کیپٹل ازم کی پراکسی جنگ کے طور پر لڑی گئیں‘ ویتنام اور افغانستان کی جنگیں تھیں اور یہ دونوں ایشیا ہی میں لڑی گئیں۔اس کے علاوہ کوریا کی تین سالہ جنگ بھی ایشیا ہی میں ہوئی۔ کوریا اور ویتنام کی طرز پر اگر امریکی چاہتے تو مشرقی و مغربی جرمنی کی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے بھی ایک جنگی کوشش کر سکتے تھے، لیکن یورپ امریکہ ہی کا دوسرا نام ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ امریکہ نسلی، مذہبی، معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے یورپ کی تاریخ کے ایک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک اور نکتہ اس پالیسی یا سوچ کو مزید واضح کرتا ہے، آج تک امریکہ نے صرف ایک مسلم ملک کو تحفظ دیا ہے اور وہ ملک ہے بوسنیا۔ غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ یورپ میں واقع ہے۔ یہاں شروع ہونے والی نسل کشی کے موقع پر امریکہ نے فوراً دخل اندازی کرتے ہوئے علاقے میں مکمل امن کرا دیا تھا تاکہ یورپ کے اندر کسی قسم کی گڑبڑ یا افراتفری پیدا نہ ہو۔ یہاں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے نہ صرف اپنے خطے بلکہ یورپ کو بھی ہر قسم کی جنگ اور شورش سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا ہے۔
اب ایک اور اہم پہلو کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ پہلو ہے مسلم دنیا کی کہانی۔ مسلم دنیا کی دو تہائی آبادی 28 ملکوں میں رہائش پذیر ہے اور یہ سبھی اہم ممالک ایشیا میں ہیں۔ یہ پہلو مغربی طاقتوں کو ایشیا مخالف پالیسیوں پر اور بھی مرکوز کر دیتا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی کڑی پانچویں نسل کی جنگ (ففتھ جنریشن وارفیئر) ہے جس کے تحت امریکہ کی جانب سے مسلم ممالک کو یکے بعد دیگرے کسی نہ کسی شکل میں انتشار و جنگی صورتِ حال کا شکار رکھا گیا۔ امریکہ نے یہ سلسلہ سوویت یونین کے ٹوٹنے یعنی سرد جنگ کے اختتام کے فوراً بعد ہی شروع کر لیا تھا۔ اس وقت نیٹو کے سربراہ سے یہ سوال کیا گیا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹو کے قیام کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے کیونکہ اس اتحاد کو تو کمیونزم اور سوویت خطرے سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا تھا‘ اس کے جواب میں نیٹو چیف کا کہنا تھا کہ مسلم انتہاپسندی کی صورت میں ایک نیا خطرہ ہمارے سامنے ابھر رہا ہے جس کی جانب اب ہمیں متوجہ ہونا ہے۔ گو کہ بعد میں اس بیان کی سو طرح کی توضیحات پیش کی گئیں مگر واقعاتی حقائق اس پر دلالت کرتے ہیں۔
اب امریکہ کی ''مسلم کش‘‘ پالیسی میں بتدریج کمی آنے کی وجہ چین کا ایک بڑی طاقت بن کر امریکہ کے سامنے ابھرنا ہے۔ بصورت دیگر امریکہ کی تمام تر جنگی صلاحیتیں مسلم مخالف سرگرمیوں تک ہی محدود رہنا تھیں۔ واضح رہے کہ ایشیا میں واقع لگ بھگ سبھی مسلم ممالک نے کسی نہ کسی شکل میں جنگی صورتحال اور انتشار کا سامنا ضرور کیا ہے۔ صرف مسلم ممالک ہی نہیں‘ وہ غالب مسلم آبادیاں بھی‘ جو غیر مسلم ممالک میں آباد ہے‘ ریاستی بربریت اور جبر کا شکار ہیں۔ اب واپس آتے ہیں ایشیا سے متعلق چین کے سربراہ کے بیان کی طرف‘ اس کو صراحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے آپ کو ایک بار اس علاقے کے نقشے پر نظر دوڑانا پڑے گی۔ بغور جائزے کے بعد یہ اندازہ ہو گا کہ ایشیا میں تقریباً 49 ممالک ہیں۔ (فلسطین اور اسرائیل کو دو ممالک اور روس کو ایشیائی ملک گننے کے بعد)۔ ان ممالک کے علاوہ تین علاقے ایسے ہیں جن کو Dependencies کہا جاتا ہے۔ یہ علاقے مکائو اور ہانگ کانگ ہیں‘ جو اب چین کا حصہ ہیں۔تیسرا تائیوان نامی جزیرہ نما علاقہ ہے‘ جس کو چین اپنا حصہ گردانتا ہے۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ ان 49 ممالک میں سے تیس سے زیادہ ممالک وہ ہیں جو کسی نہ کسی کشمکش، سرحدی تنازع، جنگی یا نیم جنگی صورت حال کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ اندرونی خلفشار و فسادات کی ایک طویل تاریخ بھی بیشتر ممالک کے ساتھ نتھی ہے۔ اس فہرست میں شمالی و جنوبی کوریا، جنوبی ایشیا کے پانچ ممالک، آرمینیا، آذربائیجان، روس کی مغربی دنیا سے جاری کشمکش، جاپان کا روس اور چین سے سرد مہری کا معاملہ، تائیوان، ویتنام کے چین سے خراب تعلقات، جنوبی چین کے سمندر کا تمام علاقہ اور سب سے بڑھ کر مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک شامل ہیں۔ یہ سبھی قضیے ایشیا میں ہیں اور اب بھی دہک اور بھڑک رہے ہیں۔ اس فہرست کو دوسری طرح دیکھیں یعنی ان ایشیائی ممالک کی فہرست بنائیں جو مکمل پُرامن ہیں‘ تو پتا چلتا ہے کہ دس سے بارہ (زیادہ تر چھوٹے اور غیر اہم) ممالک کے علاوہ پورا براعظم ایشیاجنگی کیفیت کا شکار ہے۔
معاشی طاقتوں کی فہرست میں جاپان ایک اہم ترین ایشیائی ملک ہے۔ جاری فٹ بال ورلڈکپ میں جاپان نے جرمنی کو ایک کے مقابلے دو گول سے شکست دے کر ایک اپ سیٹ کیا ہے۔ عالمی سیاسی جنگ میں جاپان کا واضح جھکائو مغربی بلاک ہی کی طرف ہے۔ روس اور چین کو بالخصوص ایسی کوششیں کرنا پڑیں گی کہ ان کے تعلقات جاپان سے ایک اتحادی جیسے ہو جائیں۔ اس کیلئے چین کو بالخصوص والہانہ انداز میں آگے بڑھ کر کوشش کرنا پڑے گی۔ ایشیا میں جنگی کیفیت کی بڑی وجوہات کی بات آئندہ کالم بلکہ کالموں میں اسی طرح جاری رہے گی جس طرح ایشیا میں جنگیں جاری ہیں۔