اپنی ثقافت‘ تہذیب اور تاریخی اہمیت کے اعتبار سے صرف ایک ہی خطہ ایسا ہے جس کو یورپ پر نہ صرف برتری حاصل ہے بلکہ صرف یہی ایک خطہ ہے جو یورپ کے اثرو رسوخ سے بچا ہوا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں براعظم ایشیا کی جو مکمل طور نہ بھی سہی مگر بہت زیادہ حد تک آج بھی مغربی کلچر سے مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہے۔ گزشتہ کالم میں ہم نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ یہ ایشیا ہی ہے جس کے ساٹھ سے ستر فیصد ممالک میں کشمکش‘ اضطراب اور غیریقینی کی صورتحال‘ جس کو جنگی کیفیت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے‘ موجود ہے۔ چین کے صدر نے اس حوالے سے ایک بیان بھی دیا تھا جس کا احوال آئندہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔ ایشیا کو کس قسم کی جنگی کیفیت کا سامنا ہے اور اسے کس طرح اسی کیفیت میں مبتلا رکھنے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں‘ اسے کس طرح برسوں سے جنگوں کا گڑھ بنا کر رکھا جاتا رہا ہے‘ اس کو مختلف عنوانات کے نام سے زیر بحث لایا جارہا ہے۔
تہذیبوں کا ٹکراؤ دراصل Clashنہیں Crashہے: روس کے ٹوٹتے ہی جو تہذیبوں کے ممکنہ ٹکراؤ کا ایک نظریہ پیش کیا گیا‘ وہ نظریہ سے زیادہ ایک نقشہ تھا جس کے تحت مغرب نے مشرق کو ہر ممکن طریقے سے دبوچنے کی کوشش کی اور یہ کوشش اب بھی جاری ہے۔ اس نظریہ میں جو ٹکراؤ (Clash) کا فلسفہ بیان کیا گیا اس میں ہر گز دم نہیں تھا۔ وجہ بہت سادہ ہے کہ ٹکراؤ دو ایک جیسی طاقتوں میں ہوتا ہے لیکن جب ایک قدرے بڑی طاقت اپنے سے کمزور طاقت پر اپنی پوری قوت سے حملہ کرے تو اس کا مقصد مخالف کے ساتھ Clashکے بجائے اس کو Crash‘ مطلب تباہ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مسلم ممالک پر اس نظریہ کی بنیاد پر جو حملہ کیا گیا ہے‘ اس کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ تہذیبوں کے اس تصادم میں جو دوسرا ملک ممکنہ مخالف گردانا جاتا تھا وہ چین تھا۔ جس وقت یہ نظریہ پیش کیا جا رہا تھا‘ اُس وقت چین ابھی معاشی طور پر سنبھل ہی رہا تھا لیکن امریکہ بہادر کا یہ خیال تھا کہ یہ ملک مستقبل میں ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے جو کہ اُس وقت نظر بھی آ رہا تھا اور پھر ایسا ہوا بھی۔ اسی لیے امریکہ کی طرف سے پہلے ہی سے اس کو مخالف شمار کر لیا گیا۔ وجہ چین کا ایک تو سوشلسٹ طرز کا ملک ہونا تھا لیکن زیادہ کھٹکنے والی بات یہ تھی کہ چین ایشیا کا ایک بڑا ملک تو تھا ہی لیکن وہ اس براعظم کی سربراہی کا بھی سوچ رہا تھا اور وہ ایسا کرنے کی اہلیت بھی رکھتا تھا۔ یہاں جاپان کی مثال بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ملک بھی اسی تہذیبوں کے تصادم والے نظریے کا شکار رہ چکا ہے۔ چین سے پہلے جاپان دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت رہ چکا ہے‘ لیکن چونکہ جاپان اپنے عسکری شعبہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتا اور نیٹو کی چھتری تلے امریکہ کے زیر اثر اور زیر سایہ ہے‘ اس لیے جاپان سے امریکہ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن چین اپنی معاشی طاقت کی وجہ سے ہمیشہ امریکہ کو کھٹکتا رہا ہے۔ اس بات کو یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ تہذیبوں کا تصادم نامی نظریہ دراصل دو براعظموں کے تصادم کا نظریہ ہے۔ اس کے علاوہ یاد رہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے اس نظریہ میں سب سے زیادہ تقسیم ایشیا کے اندر ہی دکھائی دی تھی۔
پانچویں نسل کی جنگ کا صرف ایک میدان: روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کو چوتھی نسل کی جنگ مانا جاتا ہے۔ اس میں روس کے ٹوٹنے کے بعد پانچویں نسل کی جنگ کے تحت دنیا کے مسلم ممالک‘ جو واضح ترین اکثریت کے ساتھ ایشیا ہی میں موجود ہیں‘ کو جنگی بادلوں کے نیچے دھر لیا گیا تھا۔ اس میں امریکہ کے جرنیل ویسلے کلارک کی کتاب اور انٹرویوکا حوالہ ہی کافی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس کو پنٹا گون بلا کر یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ پانچ برسوں کے اندر سات مسلم ممالک کی حکومتوں کو ختم کرنا ہے۔ امریکہ نے پانچویں نسل کی جنگ کے تحت بظاہر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگایا لیکن مسلم ممالک کو ایک گہری اور سنگین ترین دہشت گردی کی جنگ میں نہ صرف جھونک دیا بلکہ اپنے بیانیے سے دہشت گردی کا لیبل بھی مسلمانوں پر ہی لگا دیا۔ اس کے علاوہ افغانستان‘ شام کو تو گرم ترین جنگوں میں دھکیلا گیا لیکن پاکستان بھی اسی جنگی لہر کا شکار ہوا اور اس جنگ میں پاکستان پر بھارت نے امریکی سربراہی میں افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن طریقے سے حملے کیے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کا ایک مقصد چین کو بھی دبائو میں لانا تھا کیونکہ افغانستان کی سرحد چین سے بھی ملتی ہے۔ چین گزشتہ دس سالوں سے واضح طور پر امریکہ کی عالمی حاکمیت کو چیلنج کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ چین ایشیا کو درست معاشی راہ پر ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کے تحت چین اب افریقہ کو بھی ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ اس منسوبے کا ایک اور پہلو چین کی وہ تجارتی سرگرمیاں ہیں جن کی بدولت اب یورپ پر امریکہ کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ اب اس جنگ میں ایک شدت روس کے یوکرین پر حملہ سے آئی ہے۔ اس حوالے سے رواں موسم سرما بہت اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ حالات میں یورپ روس سے گیس کی سپلائی کی بندش کے بعد سنگین انرجی بحران کا شکار نظر آ رہا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ روس نے دوسری جنگی عظیم کے بعد پہلی دفعہ یورپ کو ایک نیم گرم جنگ کا شکار کر دیا ہے۔ گو کہ چین واضح طور پر روس کے ساتھ نہیں لیکن اشارے ایسے ہی مل رہے ہیں کہ روس ایک طرح سے چین کی پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ روس نے یہ جنگ بنیادی طور پر اپنی طرف بڑھتی ہوئی نیٹو کی پیش قدمی کو روکنے کیلئے شروع کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ روس بنیادی طور پر ایک ایشیائی ملک ہی ہے۔
ایشیا کا تنوع اور تنائو:براعظم ایشیا کے اندر سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور نظریاتی تنوع بہت زیادہ ہے جو اس کے اندر تنائو کا باعث بھی بنتا ہے۔ آپ صرف سیاسی نظام ہی کی بات کر لیں تو اس براعظم میں ایک ہی وقت میں ایک پارٹی نظام‘جمہوریت‘ خاندانی بادشاہت‘ فوجی یا نیم فوجی آمریت‘ مذہبی آمریت اور خاندانی جمہوری آمریت وغیرہ جیسے نظام موجود ہیں۔ آپ سادہ لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک ملک کی سرحد پار کرنے کے بعد جب آپ دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی اورہی دنیا میں آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں نسلی و لسانی فرق‘ مذہب اور فرقے کی بنیا پر تقسیم‘ خاندانی نظام کی مختلف شکلیں‘ مختلف معاشی نظام‘ علاقائی پہچان اور آزادی یا علیحدگی کی کوششیں‘ جبر کے نظام (کشمیر اور فلسطین) ایک ہی وقت میں موجود ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایشیا کے بہت سے ممالک نہ صرف دیگر ممالک کے ساتھ کشمکش کا شکار ہیں بلکہ اندرونی طور بھی بہت سارے تنائو کے ساتھ جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ صرف بھارت کی مثال لے لیں‘ اس ملک کی تقریباً تمام زمینی سرحد متنازع ہے‘ بھارت اپنی ہی جنگی جنونیت کا شکار ہے۔ اس کی چین کے ساتھ لگنے والی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی سرحد نہ صرف متنازع ہے بلکہ گرم بھی ہے۔ اس ملک کے تنازعات نیپال‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش اور پاکستان کے ساتھ بھی ہیں۔ اس ملک کے اندر کم از کم ایک درجن بڑی اور سرگرم علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں۔ اس ملک کو مغرب والے ایک ترقی پسند ملک کا نام دے کر انتہائی بھرپور طریقے سے چین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ واحد ایشیائی ملک ہے جو چین کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کے ساتھ جنگی تنازعات کا شکار ہے۔
اب اگر آپ اس پہلو کی گہری جانچ کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کی اس وقت ایشیا کی ترقی‘ بہتری اور ایشیائی ممالک کے باہمی تعاون کی راہ میں بھارت سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ اسی لیے بھارت کو ایشیا کا مردِ بیمار مانا جاتا ہے۔ (جاری ہے)