تاریخ کے جبر اور سبق

مجھے اگلے روز تاریخ کے مضمون سے متعلق ایک دلچسپ پہلو کا پتا چلا جس سے آپ کو بھی روشناس کرواتے ہیں۔ اس پہلو کو زبانی تاریخ (Oral History) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں تحقیق کرنے والا کسی خاص تاریخی واقعے یا بہت بڑی تبدیلی یا تباہی کے موقع پر موجود لوگوں سے مل کر ان باتوں کی کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہے جن کا ذکر کتابوں میں نہیں کیا جاتا۔ اس کی سادہ سی مثال تقسیمِ ہند کے وقت بھارت اور پاکستان دونوں اطراف کے مہاجرین کی انتہائی نامساعد حالات اور اُس سے بھی بڑھ کر قتل و غارت کے ماحول میں کی جانے والی ہجرت ہے۔ گزشتہ روز ایک امریکی تاریخ دان کی اس طرز کی کتابوں کے حوالے سے تحقیق کے سلسلے میں ایک ''آن لائن مکالمہ‘‘ نامی پروگرام میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ اس مکالمے میں عجیب بات یہ تھی کہ اس میں ایک پاکستانی نژاد خاتون تاریخ دان نے اپنے مطالعہ کے مطابق صرف ایک بات پر زور دیے رکھا کہ تقسیمِ ہند کے وقت کس طرح مسلمانوں‘ سکھوں اور ہندوؤں کا قتلِ عام ہوا۔ اُن کے مطابق وہ اُن لوگوں سے ملاقات کر چکی ہیں جن کے عزیز رشتہ دار تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کے دوران اس قتلِ عام کا نشانہ بنے۔ وہ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے قتلِ عام پر دو کتابیں بھی لکھ چکی ہیں۔ میں نے اپنی باری آنے پر اُن سے سوال کیا کہ آپ نے اس قتل عام اور فسادات کی بنیادی وجہ کے بارے میں لوگوں سے کیوں نہیں پوچھا؟ میں نے اِس سمت ایک بڑا واضح اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ تقسیمِ ہند کے وقت برطانیہ کے پاس تقریباً پندرہ لاکھ سے زیادہ کی فوج موجود تھی‘ اگر اس موقع پر صرف پندرہ ہزار فوجی بھی تقسیم کے اس عمل کو پُر امن رکھنے کے لیے تعینات کر دیے جاتے‘ ٹرینوں کی تعداد بڑھا دی جاتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو سوسال تک ہندوستان پر حکومت کرنے والی برطانوی طاقت اگر پرامن نقل مکانی کے لیے چند ماہ کا وقت بھی دے دیتی تو اس جنگ و جدل نما قتل و غارت کی نوبت ہی نہ آتی۔ میں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ آپ اگر اس پہلو کے حوالے سے مزید جاننا چاہتی ہیں تو بھارتی سکھوں کی فلمیں دیکھیں‘ اُن سے ملیں یا پھر بھارتی صحافی ششی تھرور کا بھی انٹرویو کر لیں۔ راقم بھی آپ سے تعاون کے لیے حاضر ہے لیکن دوسری طرف سے میرے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا گیا کہ کوئی اور سوال کریں۔ اس لیے میں نے یہ سوال آج آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہو سکے تو اس پہلو کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ تاریخ کے مضمون کا وہ ادھورا باب ہے جس کے بغیر اس خطے کی تاریخ نامکمل ہے۔
ویسے تاریخ کے مضمون سے متعلق بہت سارے فقرے بہت ہی تاریخی ہیں‘ جیسا کہ ایک فقرہ اس مضمون کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ Half is Guess and Half is Biased۔ اب اس مہاورے کے مطابق تاریخ میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک نصف اندازے پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا نصف تعصب ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک اور بات کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ تاریخ ایک ایسی کہانی ہے جو لکھنے والے یا پھر لکھوانے والے کی مرضی کا سچ بیان کرتی ہے۔ اب اس میں جو لکھوانے والے کا ذکر ہے‘ وہ غور طلب اس لیے ہے کہ یہ ستم آج تک جاری ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ بات آ رہی ہوگی کہ مغربی ممالک تو مکمل طور پر آزاد اور لبرل ہیں‘ اس لیے وہاں تو صرف اصل تاریخ ہی لکھی جاتی ہے لیکن یہ مکمل نہ بھی سہی تو کافی حد تک غلط ہے۔ اس کی بڑی مثالوں میں سے ایک سب سے بڑی اور بھیانک مثال دنیا کی علمی تاریخ میں مسلمانوں کا پانچ صدیوں سے بھی زیادہ عرصے کا وہ دور ہے‘ جس کی بدولت دنیا میں تاریک دور (Dark Age)کا خاتمہ ہوا۔ واضح رہے یہ تاریک دور علم و جستجو کی پہلی سلطنت یونان کے زوال کے بعد شروع ہوا تھا۔ آپ اس تلخ حقیقت کو کبھی بھی نیٹ پا جا کر چانچ سکتے ہیں‘ کرنا صرف یہ ہے کہ کسی مغربی ملک کے کسی تاریخ دان کی کوئی بھی ایسی وڈیو دیکھ لیں جس میں تاریک دور کے اختتام کا ذکر کیا گیا ہوکیونکہ اکثر مغربی تاریخ دان تاریک دور کا احوال بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کا ذکر گول کر جاتے ہیں۔
اگلی مثال آپ کو مزید حیران کر دے گی کیونکہ یہ مثال زیادہ پرانی بھی نہیں اور مشہور بھی بہت زیادہ ہے۔ اور یہ مثال ہے دنیا میں حالیہ برسوں میں ایک طوفان برپا کرنے والی مہم کی جس کا نام تحریک حقوقِ نسواں ہے اور اس کو انگریزی زبان میں Feminismکہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظریہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ عورت کو مردوں کے برابر ہر طرح کے حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔ اس نظریے کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں ایک مضمون بھی کئی برسوں سے پڑھایا جا رہا ہے بلکہ اب تو اس کی ایک پوری ڈگری بھی Gender studies کے نام سے کروائی جاتی ہے۔ اس ڈگری کے کورس میں ماضی بعید کے ہر طرح کے خیالات اور افکار کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے Theory کا لفظ استعمال کیا ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے ایک عجیب قسم کی بددیانتی یہ کی جاتی ہے کہ اسلام نے جو حقوق اور مقام عورت کو دے رکھا ہے‘ اس کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس بات کو آپ بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جدید دور میں مغرب میں جمہوریت کے دو حوالے موجود ہیں‘ ایک امریکہ کا آزادی کا منشور اور دوسرا فرانس کا انقلاب لیکن ان دونوں حوالوں کی تاریخ لکھتے ہوئے صرف مردوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں عورتوں کو اپنے لیے برابری کی عزت اور مقام حاصل کرنے کے لیے حقوقِ نسواں کی تحاریک شروع کرنا پڑیں تھیں۔ وہاں کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد عورت کو ووٹ کا حق ملا‘ جائیداد کی ملکیت اور سب سے بڑھ کر تعلیم حاصل کرنے کا حق ملا تھا۔
اس پس منظر کے ساتھ آپ اسلامی منشور کا مطالعہ کریں تو یہاں نہ صرف عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا گیا بلکہ اس کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد وراثت میں حصہ دینے کا پہلا حکم اسی منشور میں دیا گیا تھا۔ اسلام میں کئی مقامات پر عورت کو بنیادی حقوق کے حوالے سے نہ صرف برابری بلکہ فضیلت بھی دی گئی ہے۔ اب بحث یہ ہے کہ اسلام میں عورتوں کو حاصل حقوق کا ذکر مغربی تاریخ میں مکمل نہ سہی لیکن کسی نہ کسی حد تک تو ضروری ہونا چاہیے۔ اس بددیانتی میں مغرب تو شامل ہے ہی‘ ہمارے اپنے نصاب میں بھی اس پہلو کو زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال سی ایس ایس کے امتحان میں شامل کیا جانے والا جینڈر سٹڈیز کا مضمون ہے۔ اس ایک سو نمبر کے مضمون میں بھی عورتوں کے حقوق سے متعلق اسلامی منشور کے حوالے سے ایک لفظ بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اس مضمون میں رول ماڈل کے طور پر صرف مختاراں مائی‘ ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چنائی شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح‘ بینظیر بھٹو‘ عاصمہ جہانگیر‘ پروین شاکر اور دیگر کتنی خواتین کا رتبہ کس طرح کم ہے کہ ان کو نصاب میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اس مضمون میں ایل جی بی ٹی کا موضوع بھی شامل کیا گیا ہے جس کا پاکستان جیسے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے بعد اگلی مثال اشتراکیت کے بانی کارل مارکس کے خیالات کی ہے‘ جو 1867ء میں ایک کتاب داس کیپٹل کی شکل میں سامنے آئے تھے۔ مغرب آج تک اس اشتراکی نظام کو ایک Utopia‘ مطلب خیالی یا ناقابلِ عمل نظام کے طور پر ہی پیش کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا اپنا سرمایہ دارانہ نظام بھی مکمل طور پر آج تک لاگو نہیں ہو سکا اور ان کی حکومتیں گاہے گاہے اپنے معاشی نظام میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یورپ کے بہت سارے ممالک نے سوشل ازم کی طرز پر اپنے ہاں سوشل سکیورٹی کی سہولت فراہم کر رکھی ہے جس کے بعد مغربی ممالک خود کو ویلفیئر سٹیٹ کہلواتے ہیں لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ایک لفظ بھی کہیں کہ انہوں نے یہ سوشل ازم کے بنیادی نظریات سے لیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کچھ عرصے کے لیے وہ سوشل ڈیموکریسی کا نام استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ بھی کہیں نظر آتا ہے نہ ہی سنائی دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں