گھٹن کا شکار ڈوبتی‘ جلتی دنیا

دنیا بھر میں ترقی یا ڈویلپمنٹ کا لفظ ان الفاظ میں سے شامل ہے جو ہر زور اور بہت کثرت سے استعمال ہوتے ہیں لیکن اب ایک سوال بہت شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا دنیا واقعی ترقی کی جانب رواں دواں ہے یا ترقی کے نام پر یہ تباہی کے گڑھے میں گرتی جا رہی ہے۔ اگر گزشتہ کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے جاری انسانی دوڑ، سبقت و برتری اور دیگر حرکات و افعال پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ انسان اپنی بقا کو خطرے میں ڈال کر خام خیالی کی دنیا میں ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپنی بقا کو خطرے میں ڈالنے والی بات یقینا خطرناک اور ناقابلِ یقین معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ ترقی کے نام پر اندھا دھند بھاگ دوڑ نے انسانی بقا کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اسی سوال کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے عوامل کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے اس تھیوری کے اثبات یا نفی کا تعین ہو سکے۔
موسمیاتی تبدیلیاں نہیں‘ تباہیاں
محض عام لوگ ہی نہیں بلکہ تحقیق کرنے والے اور موسمیات کے موضوع پر لکھنے والے بھی ایک بڑی غلط فہمی یا مغالطے کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس وقت زمین پر موسموں کی صورتِ حال اس قدر خراب بلکہ تباہ کن ہو چکی ہے کہ اب اس کو صرف تبدیلیوں سے موسوم کرنا سراسر غلط ہے۔ مثال کے طور پر اگر دسمبر کے مہینے میں سردی کی شدت کم ہو تو اسے موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ کہا جا سکتا ہے لیکن اگر دو عشرے گزرنے کے باوجود سردی کا آغاز نہ ہو‘ سردیوں کی آمد کا اعلان کرنے والی بارشیں نہ ہوں‘ سب سے بڑھ کر مچھروں کا بھی خاتمہ نہ ہو اور ڈینگی کے کیسز مسلسل سامنے آ رہے ہوں تو ان حالات کو موسمیاتی تباہی ہی کہا جانا چاہیے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اگر جنوبی ایشیا کے خطے میں آلودہ سے ایک قدم آگے بڑھ کر زہریلی دھند یعنی سموگ چھائی ہوئی ہو‘ جو اکتوبر کے اوائل سے تاحال جاری ہو اور اس کے اختتام کے لیے سردیوں کے ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے تو یہ تبدیلی نہیں یقینا تباہی ہے۔ اسی طرح گرمیوں کے موسم میں اگر صرف گرمی کی اوسط شدت میں اضافہ ہو تو اسے تبدیلی کہہ کر جان چھڑائی جا سکتی ہے لیکن اگر درجہ حرارت اس قدر بڑھ جائے کہ نہ صرف سڑکیں بلکہ پہاڑی علاقوں کے گلیشیرز مکمل طور پر پگھلنے لگیں اور ترقی یافتہ ممالک کو اپنے گلیشیرز کو خاص قسم کے اینٹی ہیٹ کپڑوں سے ڈھانپنا پڑ جائے تو یہ تباہی کے زمرے میں ہی آئے گا۔ لاہور شہر کی مثال لے لیں‘ جس کی آلودگی کے سبب اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر اتنی آلودہ فضا میں کوئی بچہ پرورش پائے گا تو اس کی اوسط عمر آٹھ سے دس سال تک کم ہو جائے گی۔ ایسے حالات کو موسمیاتی تبدیلی کہا جائے گا یا موسمیاتی تباہی؟ یقینا یہ موسمیاتی تباہی کی غمازی کر رہے ہیں۔
پینے کا پانی کمیاب سے نایاب ہوتے ہوئے
پینے کا صاف پانی کبھی اتنا زیادہ اور آسانی سے دستیاب ہوا کرتا تھا کہ اسے ''مفت چیز‘‘ کا استعارہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب آپ شہروں میں بالخصوص‘ پیسے دے کر خریدنے کے باوجود یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جو پانی آپ نے خریدا ہے‘ وہ معیاری اور پینے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ یہ پانی جن بوتلوں میں بھر کر بیچا جاتا ہے‘ ان کا پلاسٹک انتہائی کم معیار کا ہوتا ہے۔ اس پست معیار کے پلاسٹک کی وجہ سے پانی کی بوتلیں اگر گرمیوں میں باہر یعنی رُوم ٹمپریچر پر رکھی جائیں تو ان میں موجود صاف پانی بھی آلودہ یا مضر صحت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زمین پر اس قدر آلودگی موجود ہے کہ بارشوں کا جو صاف پانی زمین پر گرتا ہے‘ وہ زمین میں جذب ہوتے وقت آلودگی کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی بھی مضرِ صحت ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے صنعتی مراکز کی بھرمار ہے جو صنعتی آلودگی کو پانی میں ملنے سے نہیں روکتے اور پانی کو زہریلا بنا دیتے ہیں۔ یہ پانی قریبی نہروں یا دریائوں میں شامل ہو کر سارے پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔ یہی پانی جب کاشتکاری اور فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو فصلوں اور سبزیوں کو بھی آلودہ اور مضرِ صحت بنا دیتا ہے۔ جبکہ اس سے زمین یعنی مٹی بھی آلودہ ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر دیہات میں ایک ایسا جوہڑ موجود ہوتا ہے جس میں گائوں کا تمام فضلہ جمع ہوتا ہے۔ اکثر پانی کی کمی یا لاگت میں کمی کی خاطر جوہڑوں کا آلودہ پانی فصلوں کو سیراب کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی میں صورت میں آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس پانی کے ذریعے اُگنے والی فصل کیسی ہوتی ہو گی۔ واضح رہے کہ پانی کی کمی کا مسئلہ اس وقت ایک عالمی خطرہ بن چکا ہے اور اب کئی یورپی ممالک بھی اس خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں۔
ذہنی انتشار، ہیجان اور اضطراب
کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا اجناس کی بھوک کے بعد اب ذہنی بھوک کا بھی شکار ہو چکی ہے۔ ذہن کی بھوک کو روحانی غربت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس کی تشریح کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ اگر ایک آدمی غربت یا وسائل کی کمی کی وجہ سے پریشان ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن اگر محض وسائل ہی نہیں‘ تمام سہولتیں بلکہ تعیشات بھی میسر ہوں‘ اس کے باوجود کوئی شخص اگر نیند کی کمی یا زیادتی کا شکار ہو، انجانے خوف میں مبتلا ہو‘ تنہائی کی وجہ سے خود کو سماجی طور پر بیگانہ سمجھے، تو ان تمام حالات و واقعات کو ذہنی، سماجی اور روحانی غربت کا نام دیا جاتا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے دنیا میں ذہنی عارضوں کے شکار لوگوں کی تعداد دیگر تمام بیماریوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ بیماری اس وقت دنیا کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ اس کا ایک بھیانک شکار دنیا کا سب سے ترقی یافتہ سمجھے جانے والا ملک‘ امریکہ ہے جہاں اوسطاً ہر مہینے پچاس کے قریب جان لیوا فائرنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس بیماری میں اضافے کی ایک وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ جنوبی ایشیا کی مثال لے لیں جہاں لوگ سموگ کی وجہ سے پارکس یا کھیل کے میدانوں میں نہیں جا پا رہے جس وجہ سے ان میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔ یہ سب عوامل ذہنی گھٹن کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں غرض اور مطلب کے علاوہ کسی سے نہ ملنا اور ہر وقت نفع اور نقصان کی گنتی کا شکار رہنا بھی ذہنی عوارض کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مصنوعی غذا اور مصنوعی مصروفیات
یہ بات پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ 1970ء کے بعد سے دنیا اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے مصنوعی کھادوں، برائلر مرغی، مصنوعی گھی (بناسپتی) پر انحصار کرنے لگی ہے۔ اب تو کھپت پوری کرنے کے لیے جعلی انڈے بھی مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔ غذا کی کمی کی انتہائی حد اس وقت پار ہوئی جب پاکستان جیسے زرعی ممالک میں بیمار ہی نہیں‘ مردہ جانوروں کا گوشت فروخت ہونا شروع ہوا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کے نام سے ایک وبا نے لوگوں کو کچھ اس طرح سے گھیرا ہے کہ اس نے لوگوں کو سوشلائز کرنے کے نام پر 'اَن سوشل‘ کر دیا ہے۔ اس نے لوگوں کو جعلی ہیروز کے پیچھے لگا یا جس کی وجہ سے سبھی اپنی پوسٹوں پر لائیکس کی فرسودہ دوڑ میں شال ہی نہیں بلکہ اس میں غرق ہو چکے ہیں۔ اس جعلی مصروفیت نے لوگوں کی کام پر سے توجہ ہٹا دی، انہیں رات کو دیر تک جاگنے کی علت کا شکار بنا دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈرائیونگ کرنے والے اکثر افراد موبائل اور سوشل میڈیا میں کھوئے ہونے کے سبب حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا عفریت فحش اور غیر اخلاقی مواد ہے‘ جس کی زہریلی لہر ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ جعلی اور فیک اکائونٹس‘ فیک خبریں اور افواہیں اسی وبا سے جڑے دیگر مسائل ہیں۔ یہ سب کچھ جعلی ہونے کے باوجود ہر سطح پر معاشرے کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو رہا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں