مطالعہ پاکستان

اکثر سرکاری افسران اور مغرب سے تعلیم حاصل کرنے والے مخصوص احباب جہاں قیام پاکستان کے مقاصد اور تحریک پاکستان کی مثالی قیادت پر غیر منطقی قسم کے سوالات اٹھاتے ہیں‘ وہیں مطالعہ پاکستان کے مضمون کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ آج کا پاکستان جس موڑ پر کھڑا ہے اور ماضی میں بھی‘ اپنے قیام کے وقت سے ہم جن مسائل کا سامناکرتے رہے ہیں‘ اس کے حساب سے کچھ نکات ہی نہیں بلکہ بہت سے اہم واقعات اور کرداروں کا ذکر مطالعہ پاکستان میں کرنا بھی ضروری ہے‘ یعنی پاکستان سٹڈیز میں ان سب کا احاطہ بہت ضروری ہے تاکہ نئی نسل حقائق سے آگاہی حاصل کر سکے۔ اس حوالے سے کچھ بنیادی نکات یہ ہیں۔
ظالمانہ تقسیم اور طریقۂ تقسیم
تقسیمِ برصغیر کے حوالے سے جس اہم ترین بات کا ذکر سکول اور کالج ہی کیا‘ یونیورسٹی کی سطح پر بھی نہیں ملتا ‘ وہ برصغیر کی تقسیم کا ظالمانہ طریقہ ہے۔ تقسیمِ برصغیر کے حوالے سے ہمارے ہاں نصاب میں جو واحد چیز پڑھائی جاتی ہے وہ ہے‘ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی مسائل۔ لیکن قیام پاکستان کے وقت جو Pogromکے ذریعے بیس سے تیس لاکھ لوگوں کا جانی نقصان ہوا‘ اس کا ذکر یا اس کی تفصیلات کیوں نہیں بیان کی جاتیں؟ اگر یہ لفظ Pogrom آپ کو عجیب لگتا ہے تو پہلے اس کے معنی جان لیں۔ یہ نسل کشی کی ایک ایسی قسم ہے جس میں براہِ راست تو قتل و غارت نہ کی جائے لیکن حالات ایسے پیدا کر دیے جائیں کہ کسی مخصوص علاقے یا مخصوص نسل کے لوگوں کا قتلِ عام ہو۔ قیام پاکستان کے وقت نہ صرف پنجاب میں یہ سب کچھ ہوا بلکہ ہونے دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سکھ اور مسلمان اور کہیں کہیں ہندو بھی‘ باہمی دنگوں اور قتل و غارت کا شکار ہو گئے اور اس کی وجہ سے لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا۔ بات بہت سادہ‘ اہم مگر کرب والی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اگر برطانیہ والے اپنی لاکھوں کی فوج‘ جو زیادہ تر مقامی لوگوں پر مشتمل تھی اور جس میں واضح اکثریت سکھوں اور مسلمانوں کی تھی‘ میں سے پچاس ہزار کی نفری بھی سرحدوں اور حساس علاقوں میں تعینات کر دیتا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تقسیم کے وقت خون کی ندیاں بہتیں۔ یاد رہے یہ وہ دور تھا کہ جس کے بارے میں پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ اگر پولیس کا ایک سپاہی بھی گائوں میں آ جاتا تھا تو پورا گائوں سہم جایا کرتا تھا، ایسے میں بندوق بردار فوجیوں کی کتنی اہمیت ہوتی‘ یہ محتاجِ وضاحت نہیں۔
اسی طرح بہت سارے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ کھانا چولہے پر ہی چھوڑ کر آ گئے تھے۔ یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نوبت کیونکر آئی کہ لوگ اپنے پیاروں کو کندھوں پر اٹھا کر لانے تک مجبور ہوئے، کیوں خصوصی ٹرینیں سکیورٹی کے ہمراہ نہ چلائی گئیں۔ آپ نے تصویروں میں دیکھا ہو گا کہ جو ٹرینیں مہاجرین کو لا رہی تھیں‘ ان میں لوگ چھتوں پر بھی بمشکل بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ مناظر ایک دکھ کی طرح ذہن پر نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ دو سو سال تک برصغیر پر حکومت کرنے والے گورے کو کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ نقل مکانی کے لیے چند ماہ بھی نہ دے سکا۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات پیدا کرنا ہی Pogrom کہلاتا ہے۔ اسی کو ''بالواسطہ نسل کُشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال عالمی سطح کے سیمینارز اور تقاریب میں سکھ حضرات بہت زیادہ کرتے ہیں۔ گاہے مجھے خیال آتا ہے کہ دیارِ غیر میں بیٹھے سکھ اپنے دیس میں بیٹھے ہم لوگوں پر ضرور ہنستے ہوں گے کہ تاجِ برطانیہ کا یہ ظلم سکھوں کے ساتھ مسلمانوں پر برابر کا تھا مگر اس پر زیادہ تر آواز خالصتان کے حامی سکھ ہی اٹھاتے ہیں۔ دبے دبے لفظوں میں جب بھی وہ ہم جیسوں سے سوال کرتے ہیں تو لاجواب ہونا پڑتا ہے۔ واضح رہے سکھ تواتر کے ساتھ ایسی فلمیں بناتے ہیں یا فلموں میں حوالے کے طور پر ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح تقسیم کے وقت اہلِ پنجاب کا قتلِ عام ہوا تھا۔ اور یہ کہ بعد میں کس طرح بھارت نے سکھوں سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان کو نہ صرف خودمختار علاقے سے محروم رکھا بلکہ بتدریج مظالم کا سلسلہ یہاں تک بڑھا دیا کہ ان کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کو بھی نہیں بخشا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پنجاب کے لگ بھگ تیس لاکھ لوگوں کے قتلِ عام اور اس کے اسباب کو بھی نصابی کتابوں اور 'مطالعہ پاکستان‘ میں شامل کیا جائے۔
لوٹ مار کا راج‘ اب بھی جاری
ہماری تاریخ میں اس بات کا ذکر بھی نہ ہونے کی حد تک ہے کہ برطانیہ نے عیاری سے یہاں جو حکومت بنائی تھی‘ اس کے مظالم کی داستان اس قدر طویل ہے کہ مقامی طور پر کپڑا بُننے والوں کی انگلیاں تک کاٹ دی گئی تھیں تاکہ یہاں صرف برطانیہ کا بُنا ہوا کپڑا ہی بیچا جا سکے۔ ایک اہم ترین اور اندوہناک واقعہ بنگال کا قحط ہے‘ جس میں دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے مگر اناج کا ذخیرہ ہونے کے باوجود لوگوں کو ایک دانہ تک نہیں دیا گیا تھا کیونکہ یہ اناج عالمی جنگیں لڑنے والی برطانوی فوج کے لیے تھا۔ جب لاکھوں لوگوں کے مرنے کی اطلاع برطانیہ کے وزیراعظم چرچل کو دی گئی تو اس کا جواب تھا: گاندھی تو نہیں مرا نا! اس کے بعد اس نے برصغیر کے لوگوں اور ان کے عقائد کو وحشی قرار دیا۔ جس ونسٹن چرچل کو آج ایک دانشور سیاستدان بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘ وہ حقیقتاً ایک ظالم اور نسل پرست انسان تھا جس کی غلط پالیسیوں کے سبب برصغیر میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ اگر انگریز کی لوٹ مار کی بات کریں تو تاریخ اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ جب گورا یہاں آیا تھا تو اس وقت برصغیر پوری دنیا کی کل آمدن کا ایک چوتھائی پیدا کرتا تھا مگر انگریز کے جانے کے بعد یہاں پیداوار کا پانچ فیصد بھی نہیں بچا تھا۔ مغربی ماہرین معاشیات کے تخمینے کے مطابق امریکہ کی موجودہ سالانہ کُل آمدنی کو اگر دو گنا کیا جائے‘ تو اس سے بھی زیادہ دولت گورے نے یہاں سے لوٹ کر برطانیہ بھیجی تھی۔ مقامی صنعتوں کا گلا گھوٹنے کے لیے یہاں انتہائی زیادہ ٹیکس لاگو کیے گئے۔ آج بھی وہ اس علاقے کے معاملات میں دخل اندازی سے باز نہیں آیا۔ جنوبی ایشیا کے بھگوڑے اور لوٹ مار میں ملوث سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی آماجگاہ آج بھی برطانیہ ہی ہے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ‘ تیسری دنیا میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق بمطابق مغربی معیار‘ کے حوالے سے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں لیکن کرپشن کے خاتمے کی بات کبھی سہواً بھی نہیں کی جاتی۔ حالانکہ ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا رہا اور واپس انہی کے ملکوں کے اثاثے بنانے کے کام آیا۔ انگریز تو دو سو سال کی حکومت کے بعد واپس چلا گیا مگر اس خطے کو دس فیصد کی شرحِ خواندگی پر چھوڑ کر گیا۔ واضح رہے کہ برٹش دور میں محض اپنا نام لکھ اور پڑھ سکنے والے کو بھی خواندہ شمار کیا جاتا تھا۔ جو لوگ چند کالجوں اور یونیورسٹیوں کو گورے کا احسان گردانتے نہیں تھکتے‘ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ادارے اس بیورو کریسی کو پیدا کرنے کیلئے تھے جن کے ذریعے وہ اپنا حکم جاری کرتے تھے۔ ہمارے ہاں مختارِ کل قسم کے کمشنرز اور دیگر انتظامی افسران کا نظام آج بھی جاری ہے۔ وہی نظام اب تک رائج ہے جس میں مختلف کورسز اور تربیت کے نام پر افسروں کو برطانیہ جیسے ممالک میں ''مغربیت‘‘ سے مرعوب زدہ بنایا جاتا ہے۔ کئی افسران کو دورانِ تربیت شہریت بھی دے دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں گاہے گاہے خبریں آپ کی نظر سے گزرتی رہی ہوں گی۔ باقی حساب آپ خود کر لیں کہ مغرب سے تعلیم حاصل کرنے والی اور مغرب سے مرعوب زدہ افسر شاہی اپنے ملک میں کون سی خدمات سرانجام دیتی ہے۔ (جاری)
نوٹ: آج کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں کامیڈی کے نام پر شاعرِ مشرق کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس وڈیو کو بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں