''جتنا ہو سکے انصاف کریں‘‘۔ پانچ‘ چھ ماہ پرانی بات ہے، ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ایک استاد نے ایک پولیس افسر کو پیش کی جانے والی اپنی درخواست کے سب سے آخر میں مذکورہ الفاظ لکھے۔ پولیس افسر اس سطر پر بہت حیران ہوا اور تعجب کے انداز میں پوچھا: محترم آپ نے یہ کیا لکھا ہے کہ 'جتنا ہو سکے‘، اب تک کے سارے شواہد آپ کے حق میں ہیں اور آپ تو کیس کے مدعی بھی ہیں۔ اس پر جواب ملا کہ جن حالات میں ہمارا سسٹم کام کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر‘ جس طرح کا یہ وقوعہ ہے‘ مجھے انصاف کی زیادہ توقع نہیں ہے، مزید یہ کہ مجھے محض اتنے انصاف کی ضرورت ہے کہ کہیں اس مقدمے کا رخ موڑ کر اسے میرے ہی خلاف نہ کر دیا جائے۔ اس پر پولیس افسر کچھ شرمندہ ہو گیا اور اپنی شرمندگی پر قابو پاتے ہوئے بولا: سر جی! آپ بے فکر رہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ بس آپ سے اتنی درخواست ہے کہ جائے وقوعہ پر آپ کی دادرسی نہ کر سکنے والے اہلکاروں کی غفلت یا مجبوری کو نظر انداز کر دیں۔ استاد نے اسے غنیمت جانا اور فوری آمادگی ظاہر کر دی۔ اس گفتگو میں کیا کہنے کی کوشش کی گئی‘ اس کو جاننے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کُل عالم کی تاریخ کو دیکھا جائے تو خوش حالی اور ترقی کے حوالے سے صدیوں پہ محیط تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ دو چیزیں ناگزیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں جمہوریت کی دیوی کا خیال آ رہا ہے تو سراسر غلط ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں آزاد خیالی یا سیکولرازم کا خیال ابھرتا ہے تو یہ بھی محض ایک وہم ہے۔ نہ صرف عالمی تاریخ بلکہ حالیہ شواہد بھی ان عوامل کی یکسر نفی کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ دو چیزیں کیا ہیں جو کسی بھی معاشرے کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرتی ہیں‘ تو عرض ہے کہ انصاف اور تعلیم و تحقیق۔ یہی وہ دو عوامل ہیں جن کے بغیر کوئی بھی ملک یا معاشرہ ترقی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ذہن میں ممکنہ طور پر ابھرنے والے عوامل یعنی جمہوریت اور آزاد خیالی یعنی سیکولر ازم کی بات کریں تو اس حوالے سے سامنے کی بات یہ ہے کہ جدید مغربی دنیا کے مقابلے پر پہلے روس اور اب چین ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے ہیں۔ یہ دونوں ممالک کسی طور بھی مغربی معیار کی جمہوریت کے حامل نہیں مانے جاتے۔ یہ دونوں ملک عالمی طاقت صرف اس لیے بنے کہ ان کے ہاں انصاف تھا اور تعلیم و تحقیق عالمی معیار کی تھی (چین میں اب بھی ہے)۔ روس نے اپنے دورِ عروج میں خلائی تحقیق کے میدان میں امریکہ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اگر بات سیکولر ہونے یا ایسے ہی دیگر لوازمات کی‘ کی جائے تو آج کے دور میں پوری دنیا میں ایک ایسی ریاست بھی موجود ہے جو سیکولر ازم یا آزاد خیالی سے کوسوں دور ہے۔ بات ہو رہی ہے دو کروڑ آبادی والی ایک 'ناجائز ریاست‘ اسرائیل کی۔ عرض یہ ہے کہ یہ ایک خالص مذہبی ریاست ہے۔ اس ملک کا آئین یہودیوں کی مذہبی کتاب 'تورات‘ کو مانا جاتا ہے۔ اسرائیل میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہوتا ہے‘ وہ ایک الگ داستان ہے مگر اس نے اپنے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ (Ehud Olmert) کو 2009ء میں مالی بے ضابطگیوں پر قید کی سزا اور جرمانہ کیا تھا۔ حال ہی میں کرپشن کیس میں سزایافتہ افراد کے وزیر بننے پر پابندی لگا کر اسرائیلی سپریم کورٹ نے موجودہ حکومت کے وجود تک کو خطرے میں ڈال دیا۔ چین کی خبریں تو آپ آئے روز سنتے اور پڑھتے ہی ہوں گے۔ 2013ء سے 2017ء کے دوران چین میں 13 لاکھ سے زائد افراد کو کرپشن کے جرم میں سزا دی گئی، گزشتہ چند سالوں میں چار سو سے زائد وزرا اور گورنرز کو کرپشن پر سزائے موت اور عمر قید سمیت سخت سزائیں دی جا چکی ہیں۔
پنجابی کی ایک کہاوت کا مفہوم ہے کہ اگر لوگ بے کار بیٹھے کھاتے رہیں تو کنویں بھی خالی ہو جاتے ہیں۔ یہ تو پرانے دور کی مثال ہے‘ جب پانی کنووں سے پیا جاتا تھا اور اس کا تصور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی چیز کا ہوا کرتا تھا۔ اسی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج کے دور میں کہا جا سکتا ہے کہ ''کرپشن وہ ہوس‘ وہ پیاس ہے جو سمندر کو بھی خالی کر سکتی ہے‘‘۔ اس حوالے سے بھارت ایک پرفیکٹ ٹیسٹ کیس ہے۔ کہنے کو بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، حالیہ عرصے میں اس نے معاشی میدان میں برطانیہ کو مات دی ہے لیکن آج بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بھارت کا کہیں شمار نہیں ہوتا۔ بھارت اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے یا کم از کم چین کے برابر آ چکا ہے اور اگلے چند ماہ میں اس کا باقاعد طور پر اعلان ہو جائے گا کہ بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔
اگر کُل قومی دولت کے بجائے فی کس آمدنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھارت آج بھی‘ زیادہ سے زیادہ‘ ترقی پذیر ممالک کی صف میں ہی شمار کیا جائے گا۔ یہ ملک جمہوری بھی ہے اور سیکولر بھی۔ ان دونوں چیزوں کے اعتبار سے یہ اپنے آپ کو مغرب کا ہمنوا بتاتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر اس کی پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کی پسماندگی کی دو وجوہات ہیں؛ کرپشن اور تعلیم و تحقیق میں اوسط درجے سے بھی کم تر ہونا۔ اس ملک میں انصاف اُتنا ہی ہے جس سے اس کی بقا برقرار رہے۔ بھارت میں کرپشن کا کیا عالم ہے‘ یہ آپ بالی وُڈ کی کرپشن پر بنی فلموں سے اندازہ لگا سکتے ہیں جو کافی حد تک حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں۔
ابتدا میں ذکر ہوا تھا ایک استاد کا! گزشتہ دنوں آپ نے یہ خبر سنی یا پڑھی ہو گی کہ لاہور کی ایک جامعہ میں ایک استاد پر دو لڑکوں نے محض اس لیے تشدد کیا کہ اس نے انہیں یونیورسٹی میں ہیوی بائیک‘ جس کا شور بہت زیادہ ہوتا ہے‘ تیز رفتاری سے چلانے اور بار بار ایک ہی جگہ سے گزرنے سے روکا تھا اور یونیورسٹی میں پھرنے والے ان لڑکوں سے ان کی شناخت کا تقاضا کیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا‘ وہ آپ نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے جان لیا ہو گا۔ لیکن یہ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ وہ پروفیسر تو جان بچا کر وہاں سے نکل گیا، لیکن اس کے بعد ایک گروپ نے پریشر ڈالا تو اس ادارے کی مقامی سیاست نے اپنا رنگ دکھایا۔ پھر وہ ہوا جو پہلے واقعے میں نہیں ہوا تھا؛ یعنی ایف آئی آر پروفیسر پر ہی ہو گئی۔ لڑکوں کی جانب سے پولیس کو دی گئی رپورٹ کو ایف آئی آر کا درجہ دیا جا چکا ہے، دوسری طرف پروفیسر کی اس سلسلے میں کی گئی رپورٹ تا حال درخواست ہی ہے۔ اب پروفیسر یہی تقاضا کر رہا ہے کہ ''جتنا ہو سکے انصاف کریں‘‘۔
اس کیس کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آدھ گھنٹے کے اس وقوعے کے حوالے سے جتنے ممکنہ الزامات لگائے جا سکتے تھے‘ پروفیسر پر سبھی لگا دیے گئے۔ ان میں سے ایک بڑا الزام نشے میں دھت ہونے کا بھی ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق پروفیسر نے نشے میں دھت ہو کر لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یعنی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نشے میں دھت انسان دوسروں پر تشدد بھی کر سکتا ہے۔ اس الزام کو لے کر پروفیسر نے قبل از گرفتاری اپنی ضمانت کراتے ہوئے عدالت میں جج کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ اس کا ''ڈوپ ٹیسٹ‘‘ کرایا جائے تاکہ اس وقوعے کی حقیقت سامنے آ سکے۔ تشدد کا شکار ہونے اور نشے کے الزامات سہنے والے پروفیسر کا کہنا تھا کہ میڈیکل ٹیسٹ میں ایک ماہ بلکہ ایک سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ اس دوران کوئی نشہ آور چیز استعمال کی گئی یا نہیں۔ اگر اس کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو یقینا وہ ذمہ دار ہو گا۔ اب دیکھیں یہ ٹیسٹ کب اور کیسے ہوتاہے، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی اجازت یا حکم علاقہ مجسٹریٹ ہی دے سکتا ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے قائم کردہ انکوائری کمیٹی میں بھی اُس پروفیسر نے یہی موقف اختیار کیا کہ اس کا میڈیکل ٹیسٹ ضرور کرایا جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
اب دیکھیں اس کیس میں کیا ہوتا ہے‘ سرِدست یہی درخواست ہے کہ جتنا ہو سکے انصاف کیا جائے کیونکہ انصاف بقا کے لیے ناگزیر ہے۔