ہجرت اور تصورِ ترقی

آج کل پاکستان سے بیرونِ ملک جانے والوں کی تعداد میں ہوشربا اضافے اور اس کی خواہش رکھنے والے لوگوں کی شرح پر بہت زیادہ بات ہورہی ہے۔ لغوی اعتبار سے اس عمل کو ہجرت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ خواہش یا کوشش یعنی ہجرت مطالعہ و تحقیق کے میدان میں ایک انتہائی اہم اور دلچسپ موضوع ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وقت کیساتھ ساتھ جہاں اس عمل میں تیزی آتی جا رہی ہے‘ وہیں اس کی نئی اقسام بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اس کی ایک انتہائی دلچسپ مثال اس طرح ہے کہ اگر آپ کسی میگا پولیٹن سٹی(ایک کروڑ سے زیادہ نفوس کے شہر)کی آبادی کا حساب کریں تو آپ کو اس کی کُل آبادی کو دو حصوں میں بانٹنا پڑے گا۔ ایک ڈے پاپولیشن ہو گی اور دوسری نائٹ یعنی رات کی آبادی۔ اس حوالے سے ایک بڑی مثال جاپان کے شہر ٹوکیو کی ہے جسے دنیا کا گنجان آباد ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کی کُل آبادی پونے چار کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس شہر کی دن کے وقت کی آبادی اور رات کے وقت کی آبادی میں 25 لاکھ سے زائد کا فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق کسی میٹروپولیٹن شہر کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ دس لاکھ کی آبادی والے شہر کو میٹروپولیٹن کہا جاتا ہے۔ آپ اس معاملے کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ دن اور رات کے اوقات میں آبادی کا یہ فرق راولپنڈی جیسے شہر کی کُل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یقینا یہ اعدادوشمار آپ کے لیے حیران کن ہوں گے اور ہونے بھی چاہئیں۔ یہ ریسرچ ظاہر کرتی ہے کہ صبح ہوتے ہی پچیس لاکھ سے زائد لوگ اس شہر میں داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور رات تک وہ اپنے کام نمٹا کر شہر سے واپس چلے جاتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک اور بات ذہن نشیں رہے کہ ویک اینڈ اور دیگر چھٹیوں پر یہ آبادی نچلی سطح پر یعنی بیس‘ پچیس لاکھ کم ہی رہتی ہے۔
اب روزانہ کی بنیاد پر اتنی بڑی ہجرت کے عمل کو سمجھتے ہیں۔ پہلی بات جو اس عمل میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے وہ برق رفتار ٹرانسپورٹ ہے، جو دنیا کے سبھی اہم اور بڑے شہروں میں ٹرین کی شکل میں موجود ہے۔ یقینا آپ نے سن رکھا ہوگا کہ جاپان میں ٹرین پانچ سو سے چھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ آپ اگر اس رفتار کو اوسطاً چار سو کلو میٹر بھی کر لیں تو بھی اس کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر محض ایک گھنٹے بلکہ اس سے بھی کم وقت میں طے ہو جائے گا۔ اگر ہمارے ہاں کوئی شخص لاہور میں رہتا ہے‘ یا گجرات یا فیصل آباد اور اس کی نوکری اسلام آباد میں لگتی ہے تو وہ کیا کرے گا؟ وہ کوشش کرے گا کہ وہ اسی شہر میں شفٹ ہو جائے جہاں وہ نوکری کرتا ہے، ممکن ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی وہیں اپنے ساتھ رکھ لے اور یقینا بہت سے لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر ہمارے ہاں بھی جاپان کی طرح کی تیز رفتار ٹرانسپورٹ ہو تو ایک شخص جو لاہور سے اسلام آباد کے درمیان کہیں رہتا ہے‘ تو وہ ہر روز صبح کے وقت لاہور یا اسلام آباد جا کر نوکری کر سکتا ہے، وہ پورا دن اس شہر میں اپنا رزق کما کر رات کو بہ آسانی واپس اپنے آبائی شہر‘اپنے گھر پہنچ سکتا ہے۔ روزانہ گھر لوٹ آنے کی وجہ سے اس شخص کو اپنا خاندان بڑے شہر میں منتقل بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ بڑے شہروں میں روز مرہ استعمال کی چیزوں سمیت مکان کا کرایہ وغیرہ بھی زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا برق رفتار ٹرانسپورٹ کے ذریعے اس روزانہ کی ہجرت کی وجہ سے ایسے افراد کو واضح بچت ہو گی۔ روزانہ کی بنیاد پر اس نقل و حرکت یا ہجرت کرنے والوں کو Commuter کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ کسی بھی بڑے شہر کے آس پاس چھوٹے شہروں بلکہ قصبوں اور دیہات میں رہتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پربڑے شہروں میں جا کر اپنی روزی کماتے ہیں۔
اب جن علاقوں سے یہ لوگ صبح نکل آتے ہیں اور رات کو وہیں لوٹ جاتے ہیں‘ ان کو ''بیڈ روم بستیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس عمل سے بڑے شہر کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں‘ وہ ماحولیاتی، معاشی اور معاشرتی‘ ہر اقسام کے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کو سستی لیبر میسر آجاتی ہے جبکہ لیبر کو بڑے شہروں میں اپنے علاقے سے زیادہ مزدوری یا اجرت ملتی ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں روزانہ کی بنیاد پر آنے جانے کے کرائے کے اخراجات کا سوال اٹھ رہا ہے تو یاد رہے کہ ریل کا کرایہ بذریعہ سڑک سفر کی نسبت تقریباً نصف ہوتا ہے جبکہ یہ سفر محفوظ اور آرام دہ بھی ہو تا ہے۔ بسوں کے بجائے ٹرین میں لوگ کھڑے ہو کر بھی سفر کر لیتے ہیں، بالخصوص اگر یہ سفر ایک گھنٹے یا اس سے کم مدت کا ہوتو یقینا کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ رات کو بڑی تعداد میں لوگوں کے شہر سے اخراج کی وجہ سے شہر کی ماحولیات پر بوجھ کم ہوجاتا ہے۔ بیس‘ پچیس لاکھ لوگ جو آکسیجن سانس لینے کے عمل میں اندر کھینچتے ہیں‘ وہ بچ جاتی ہے جبکہ دوسری طرف جو کاربن ڈائی آکسائیڈ وہ خارج کرتے ہیں‘ اس سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔ نیز شہروں کے وسائل پر بوجھ کم ہو جاتا ہے، اس لیے ترقی یافتہ اقوام اس طرح کی ہجرت کو کم قیمت، سستے، تیز رفتار اور آرام دہ سفر کی شکل میں پروموٹ کرتی ہیں۔
تصورِ ترقی
اب اس بحث کو ایک مکمل نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ہم نے بات کی ٹرین کے ذریعے سستے سفر کی‘ تو اس بات کا مکمل فہم آپ کا تصورِ ترقی کسی حد تک بدل کر رکھ دے گا۔ قصہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں موٹروے کو گزشتہ بیس‘ تیس برسوں کا واحد بڑا پروجیکٹ سمجھا جاتا ہے۔ اس پروجیکٹ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ہمارے ہاں سفر کا تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس سے سفر نہ صرف کم وقت میں طے ہو جاتا ہے بلکہ یہ آرام دہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ موٹر ویز پر حادثات کی شرح بھی نہ ہونے کے برابرہوتی ہے لیکن یہ تصور بہت حد تک ادھورا ہے۔ جب آپ یہ موازنہ کریں گے کہ موٹر وے پر زیادہ سے زیادہ 120کلومیٹر رفتارکو محفوظ تصور کیا جاتا ہے اور آپ اگر یہ سوچ کر رفتار 150 کر لیں کہ کوئی بات نہیں‘ چالان کا جرمانہ ادا کر دیں گے‘ توبھی آپ کے ذہن میں یہ بات موجود ہو گی کہ آپ خطرے سے کھیل رہے ہیں۔اب ذرا اس تیز رفتار ٹرین کی رفتار کو تصور میں لائیں جو چار سو سے پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے‘ وہ بھی کسی خطرے سے دو چار ہوئے بغیر۔ اسی طرح گاڑی پر سفر کرتے ہوئے آپ کو درمیان میں رک کر کچھ ریسٹ بھی کرنا پڑے گا، آدھ گھنٹے کا یہ وقفہ بھی اپنے سفر کے دورانیے میں شامل کر لیں۔ لہٰذا سڑک کے بجائے ٹرین کا سفر لگ بھگ چار گنا کم وقت لے گا۔ مطلب جاپان والی ٹرین جس جگہ ہمیں محض ایک گھنٹے میں پہنچا دے گی‘ اپنی کار سے سفر کر کے ہم وہ راستہ کم و بیش چار گھنٹوں میں طے کریں گے۔ اب باقی حساب آپ خود کر لیں کہ ہمارے ہاں ترقی کی رفتار کا کوئی موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ML-1 ٹرین کا منصوبہ جو چین شروع کرے گا‘ اس کی رفتار 180 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی جبکہ اِس وقت ہماری ٹرینیں اوسطاً 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔ ابھی تک ایم ایل ون منصوبہ شروع بھی نہیں ہو پایا۔ شروع ہونے کے بعد اس کی تکمیل میں مزید چند سال لگیں گے۔ لیکن ترقی کا تصور ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اس وقت تک چین اور جاپان سمیت دنیا بھر میں ٹرینوں کی رفتار کہاں تک پہنچ چکی ہو گی۔ اب اس سفر کی رفتار سے ہم اپنی ترقی کی رفتار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان بننے کے بعد ریلوے کے شعبے نے اپنی رفتار میں بمشکل اوسطاً بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کا اضافہ کیا ہے جبکہ ریلوے کی نئی پٹڑیاں بچھانے کی فہرست نہ ہونے کے برابر ہے۔
صرف سفر کی رفتار کی موجودہ سہولتوں کا ہی جائزہ لے لیں تو پتا چل جائے گا کہ اس ملک کو چھوڑ جانے والوں کی رفتار اور تعدا د میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ جہاں پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ ملک چھوڑ رہے ہوں‘ وہاں ترقی کی رفتاکا تو کجا‘ ترقی کا تصور بھی باقی نہیں رہتا۔ اب بتائیے کہ یہ سب جاننے کے بعد آپ کا تصورِ ترقی کہاں تک بدلا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں