بھارت مستقبل کا چین یا افریقہ؟

آج کی تعلیمی و تحقیقی دنیا میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ اپنے علم اور تحقیق کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ پیش کیا جائے۔ علم کی اس شاخ کو ''مستقبل کی تاریخ‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اب یہ بات شاید فوری طور پر واضح نہ ہو پائے‘ اس لیے تھوڑی علمی توجہ درکار ہے لیکن اس سے پہلے دنیا کے سب سے پسماندہ خطے کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ دنیا میں خشک سالی‘ پانی کی کمیابی‘ صحرا یعنی ریتلی زمین اور معاشی بدحالی والے خطے کو براعظم افریقہ کہا جاتا ہے۔ اپنی اسی حالت کی وجہ سے افریقہ ''ڈارک براعظم‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ جہاں اس براعظم کی آبادی کی اوسط عمر دنیا میں سب سے کم ہے‘ وہیں شرحِ پیدائش اور اموات میں بھی اس براعظم کی حالت دنیا میں سب سے ابتر ہے۔ اس کے بعد اس کے بہت سار ے ممالک میں سورشیں‘ فسادات‘ حکومتی رِٹ کی کمزوری اور سب سے بڑھ کر کرپشن جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد اس خطے کی حالتِ زار کا احاطہ کرنا ہر گز نہیں بلکہ یہ سوال پوچھنا ہے کہ مستقبل کا افریقہ‘ دنیا کا کون سا ملک یا خطہ ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو چونکا دے گا‘ اُس خطے یا ملک کا نام بھارت ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوں گے اور ان ممالک کی اس خراب حالت کا ذمہ دار بھی بھارت ہی ہوگا۔ اگر بات پوری طرح دل کو نہ لگ رہی ہو یا سمجھ میں نہ آ رہی ہو تو کچھ امور‘ نکات اور حقائق پیش خدمت ہیں‘ جنہیں پڑھ کر خود ہی فیصلہ کر لیجئے گا۔
رقبہ‘ آبادی اور قدرتی ماحول
بھارت کی کل آبادی پورے براعظم افریقہ سے زیادہ ہے جبکہ افریقہ کا رقبہ تین کروڑ (30ملین) مربع کلو میٹر ہے جو بھارت سے دس گنا زیادہ ہے کیونکہ بھارت کا کل رقبہ 3ملین مربع کلو میٹر ہے۔ دونوں خطوں کی آبادی اور رقبے کا تقابل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ آبادی دیگر مسائل کے ساتھ جو سب سے بڑی مشکل پیدا کرتی ہے‘ وہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہے۔ بھارت‘ اس وقت دنیا کا آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن رواں سال یہ چین کی جگہ لیتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اگر ذکر کریں تو سموگ جیسی آفت کا آغاز بھی بھارت سے ہی ہوا اور پھر یہ دیگر پڑوسی ممالک میں بھی پھیلنے لگی۔ واضح ہی نہیں بلکہ یاد بھی رہے کہ آج بھی بھارت میں سموگ اور فضائی آلودگی کا یہ حال ہے کہ جب بھارت سے ہوا کا رُخ پاکستان یا بنگلہ دیش کی طرف ہوتا ہے تو اِن ممالک کی فضائی آلودگی میں بھی بھارت کی طرح اضافہ ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ نیپال اور بھوٹان کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں بھارت سے دیگر ممالک کے جھگڑوں کی ایک وجہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہوگی۔
اب آپ کو ایک انتہائی منفرد لیکن قدرے خطرناک پہلو کی طرف لیے چلتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ دنیا کی پرانی تہذیبوں‘ جوکہ ساری کی ساری تباہ ہوگئی تھیں‘ کی بربادی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ ماحولیاتی تباہی ہی تھی۔ تہذیب سے مراد وہ شہر تھے جو تجارتی مراکز کے طور پر وجود میں آئے تھے۔ ان شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے مقامی سطح پر ایسی صورتحال یا آلودگی پیدا کر دی تھی کہ اس کی زیادہ تر آبادی آلودگی کی وجہ سے مر گئی اور باقی اس علاقے کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔ ان تہذیبوں کا سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال کے بعد آثارِ قدیمہ کی کھوج سے پتا چلا تھا۔ اسی تناظر میں ایک اور بات یاد رکھیں کہ ماضی کی سلطنتوں میں بادشاہ خواہش کیا کرتے تھے کہ ان کی آبادی بڑھے کیونکہ اُن سلطنتوں کے باسیوں کی اوسط عمر کم ہونے کی وجہ سے آبادی کا سائز چھوٹا رہتا تھا جبکہ وہاں کے قدرتی وسائل مثلاً کھیت‘ دریا یعنی پانی‘ جنگلات اور رقبہ بہت زیادہ ہوتا تھا لیکن آج کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی آبادی میں اضافے کی شرح صفر ہی نہیں بلکہ منفی ہو چکی ہے۔ اس کی سب سے تازہ اور بڑی مثال چین کی ہے جہاں سالانہ پیدا ہونے والوں کی تعداد انتقال کر جانے والوں سے کم ہوتی ہے۔ بھارت مگردنیا کا وہ ملک ہے جہاں اب بھی آبادی میں سالانہ تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ نفوس کا اضافہ ہوتا ہے۔ ماحول کی آلودگی کے بعد بھارت پانی کی قلت کا شکار ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بنتا جا رہا ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا دریا برہم پترا ہے۔ بھارت کی دیو مالائی کہانیوں میں اس دریا کو بھارت کا بیٹا کہا جاتا ہے۔ یہ دریا لیکن چین سے نکلتا ہے اور چین اس پر پہلے ہی ڈیم بنا چکا ہے۔ اگرچہ اس نے مذکورہ ڈیم کے ذریعے دریا کے پانی کا رُخ مکمل طور پر اپنے ملک کی طرف تاحال موڑا نہیں ہے لیکن بھارت کے چین مخالف رویے کی وجہ سے چین جب چاہے‘ اس دریا کی جو چاہے حالت بنا سکتا ہے۔ بھارت چین کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اپنی پوری توانائی پاکستان کی مخالفت کی آگ میں جھونکے ہوئے ہے۔
جنگی جنون‘ دہشت گردی اور اندرونی محاذ
افریقہ کے برعکس بھارت ایک زرخیز اور قدرے وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن یہ اپنے وسائل کو مقامی غربت کے خاتمے‘ ملک میں علیحدگی پسند تحریکیں چلانے والوں کو پسماندگی سے نکال کر خوشحال بنانے کے بجائے نہ صرف پاکستان بلکہ چین مخالف محاذوں پر جھونک رہا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسی بھارتی فلم کی سی ہے جس میں ایک بڑا ڈان یا قبیلے کا سربراہ اپنے ارد گرد کے دیہات پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے اور بڑھانے پر ساری توانائی اور توجہ خرچ کر دیتا ہے۔ یہ ڈان جو کچھ اور جس بھی طریقے سے کماتا ہے‘ اس سے اسلحہ خرید کر پڑوس کے دیہات میں قتل و غارت اور انتشار پھیلانے پر لگا دیتا ہے۔ اس کام کے لیے جاسوسی کا نیٹ ورک بھی قائم کرتا ہے اور مقامی اداروں کو بھاری رقوم پیش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں کوئی تعلیمی ادارہ اس لیے نہیں بننے دیتا کہ علاقے کے لوگ پڑھ لکھ کر ایک تو ترقی کرکے اس کے مقابل نہ آجائیں اور دوسرا اس کے مظالم کے خلاف آواز بھی نہ اٹھا سکیں۔ اس ڈان کی حالت ایک ایسے کرمنل کریکٹر کی سی بن جاتی ہے جو سارا وقت لڑائی‘ مار کٹائی میں لگے رہنے کی وجہ سے اپنے گھر والوں کا بھی مناسب خیال نہیں رکھ پاتا۔ آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا کہ اس طرح کے کرداروں کے گھر کی عورتیں اور بچے گاہے گاہے‘ پولیس اور مخالفوں کے ڈر کی وجہ سے در بدر پھرتے اور چھپتے رہتے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت کے ایک سابق آرمی چیف نے ایک بیان دیا تھا کہ بھارت کی آرمی اڑھائی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس بیان کے مطابق ایک محاذ پاکستان‘ دوسرا چین جبکہ آدھا محاذ بھارت کے اندر چلنے والی مسلح علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔ اب ذہن میں آتا ہے کہ اُس بھارتی آرمی چیف نے اُن محاذوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا تھا جو بھارت نے پڑوسی ممالک میں پراکسی وار کے لیے کھول رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک محاذ بھارت نے افغانستان میں کھول رکھا ہے‘ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ وہ سری لنکا میں بھی اندرونی سیاست و معیشت کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے چالیں چلتا ہے۔بنگلہ دیش میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب ان سب محاذوں جو وسائل خرچ ہوتے ہیں‘ انہیں وہ اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے پر خرچ کر سکتا ہے لیکن اُس کی ترجیحات عوامی بہبود کے بجائے کچھ اور ہیں۔ اب حاصلِ کلام یہ ہے کہ بھارت کا خطے کے قدرتی ماحول کو ٹھیک کرنے‘ اپنے پانی کے مسائل کو دور کرنے اور اس سلسلے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح بنانا ناگزیر ہو چکا ہے لیکن اس سب کے باوجود بھارتی ترجیحات اس کے برعکس ہیں۔ اسی بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت خطے کے دیگر ممالک سمیت مستقبل کا افریقہ بنتا نظر آ رہاہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں