الفاظ، جملے، محاورے اور کہاوتیں کسی بھی علاقے یا سماج کی سوچ، طرزِ زندگی اور اس کے دیگر اہم سماجی پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ جیسے جیسے کوئی معاشرہ یا قوم ترقی کرتی جاتی ہے‘ اسی حساب سے اس کی زبان بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ زبان کی ترقی سے مراد نت نئے الفاظ اور محاوروں کا ایجاد اور زبان میں شامل ہونا ہے۔ دنیا میں ترقی کا استعارہ کئی صدیوں سے مغرب بالخصوص برطانیہ اور امریکہ ہیں‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ کی زبان ہی امریکہ کی زبان ہے اور آج کے دن تک یہی سب سے بڑی عالمی ابلاغ کی زبان یعنی انٹرنیشنل لینگویج ہے۔ اس زبان میں سالانہ بنیادوں پر تین سے چار ہزار نئے الفاظ و محاورات کا اضافہ ہوتا ہے۔ آج ہم چند ایسے محاوروں کا ذکر کرتے ہیں جو معنی اور استعمال کے لحاظ سے کافی وسیع ہیں یعنی جو اپنے اندر ایک پورا فلسفہ سموئے ہوئے ہیں۔
اونٹ کے منہ میں زیرہ اور اشکِ بلبل
ہمارے ہاں کسی چیز کی انتہائی قلیل مقدار کو بیان کرنے کے لیے ''اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی جگہ اردو میں ایک اور متبادل محاورہ موجود ہے‘ جس کا مفہوم بھی کسی قدر واضح ہے۔ اس نئے محاورے کا استعمال کیوں کرنا چاہیے‘ اس کے لیے پہلے ایک واقعہ سنانا ضروری ہے۔ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں ایک جاپان کا طالب علم آیا جو اردو زبان کے حوالے سے تحقیق کر رہا تھا۔ اس دوران چائے پیش کی گئی تو ملازم نے چینی ڈالنے سے پہلے ہر کسی سے پوچھا کہ اس کے کپ میں کتنی چینی ڈالی جائے۔ سب نے آدھا چمچ، ایک چمچ یا دو چمچ کہا۔ لیکن جب جاپان سے آئے مہمان طالب علم کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے چائے پیش کرنے والے ملازم نے پوچھا کہ کپ میں کتنی چینی ڈالوں تو اس طالبعلم نے جو جملہ بولا‘ وہ ملازم کے سر پر سے گزر گیا۔ اس کی بات نے تمام پروفیسر صاحبان کو بھی حیران کر دیا۔ جاپانی طالب علم نے چینی کی مقدار سے متعلق کہا: اشکِ بلبل (مطلب بہت تھوڑی چینی ڈالی جائے)۔ یہ محاورہ سنتے ہی کمرے میں خاموشی چھا گئی، پھر ایک پروفیسر صاحب نے ملازم سے کہا کہ اس کے کپ میں بالکل معمولی سی چینی ڈال دو۔ یہ ایک انتہائی معنی خیز، بلیغ اور خوبصورت طرزِ اظہار تھا۔ ہم سب پروفیسرز کچھ کہے بغیر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس جاپانی کی تعریف کرنے لگے۔ امید ہے کہ اب آپ بھی اونٹ والے محاروے کے بجائے اشکِ بلبل یعنی بلبل کے آنسو والا محاورہ اس لیے بھی زیادہ استعمال کریں گے کہ یہ خوبصورت اظہار ہونے کے ساتھ بلبل جیسے چھوٹے سے پرندے کے سائز کی وجہ سے قلیل کے معنوں میں آسانی سے سمجھ آ جاتا ہے کہ جب بلبل پرندہ ہی اتنا چھوٹا سا ہے تو اس کا ایک آنسو کتنا چھوٹا ہو گا۔
آنسوئوں کی اقسام
ذکر آنسوکا ہوا ہے‘ آج کل آنسوئوں کا تذکرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا میں تنہائی، دبائو اور حد سے زیادہ مصروفیت نے لوگوں کو ایک ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں آنکھوں میں آنسو آ جانا زیادہ بڑی بات نہیں ہے لیکن ذرا غور کریں تو آنسوئوں کی وجوہات کی طرح‘ ان کی اقسام بھی متعدد ہیں۔ سب سے پہلی قسم کو Basal کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل وہ تھوڑا سا پانی یا یوں کہہ لیں کہ اشکِ بلبل کی طرح انتہائی مختصر قسم کے آنسو ہوتے ہیں‘ جو بغیر کسی وجہ کے آنکھوں سے پانی کی شکل میں خارج ہوتے رہتے ہیں۔ آپ ان کو بے ضرر آنسو بھی کہہ سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو ان آنسوئوں کے بہنے کی کوئی وجہ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ آپ کے مزاج پر کوئی اثر ڈالتے ہیں۔ دوسری قسم کے آنسو کچھ ضرر رساں ہوتے ہیں۔ ان آنسوئوں کو Reflexes آنسو کہا جاتا ہے۔ ان کے آنکھوں میں بھر آنے کی وجہ آنکھوں میں کسی قسم کی تکلیف کا پیدا ہونا ہے۔ مثال کے طور پر آنکھوں میں کسی ذرے کا پڑ جانایا دھواں چلا جانا وغیرہ۔ ان آنسوئوں کو کیمیکل یا تیزابی آنسو بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ آنسو نکل کر فوری طور پر آنکھ کی صفائی کرتے ہیں۔ ان کو آنکھوں کی تکلیف کے آنسو بھی کہا جاتا ہے، مطلب یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آنکھیں اپنے لیے روتی ہیں۔ اب باری آتی ہے Emotional یعنی جذباتی آنسوئوں کی‘ جو کسی دکھ، تکلیف یا پھر حد سے زیادہ خوشی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ ان کو اصل اور حقیقی آنسو کہا جاتا ہے، یہ زیادہ تر کسی دکھ یا تکلیف میں بہتے ہیں۔ ان کی مقدار اور دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ سائنس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خوشی اور غم کی شکل میں نکلنے والے آنسوئوں کے نمکیات میں فرق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آنسوئوں کی ایک اور قسم ہے‘ یہ وہ قسم ہے جب آنکھوں میں آنسو بالکل نہیں آتا، یعنی تکلیف حد سے بڑھ جاتی ہے اور آنسو خشک ہو جاتے ہیں۔ بقول شاعر:
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے جب نہیں آتا
آنسوئوں سے متعلق ایک پہلو اس وقت بہت عجیب ہو چکا ہے‘ وہ یہ کہ اس وقت دنیا کے لگ بھگ 99 فیصد لوگوں کو کسی نہ کسی شکل میں آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اب دنیا میں سب سے زیادہ مقدار میں بہنے والے آنسو Basal قسم کے آنسو ہیں، لیکن چونکہ یہ آپ کی ذہنی حالت پر اثر انداز نہیں ہوتے اس لیے ان پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، مطلب دنیا میں ان آنسوئوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں لیکن اس بات میں ایک ایساخطرہ پیدا ہو چکا ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے آنکھیں پریشانی سے قدرے نم ہو جاتی ہیں۔ وہ یہ کہ دنیا میں آلودگی آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا جیسے ممالک میں آلودگی ایک نیا اور مستقل موسم بن چکی ہے۔ ان علاقوں میں درجہ حرارت اور بارش سے زیادہ‘ روزانہ کی بنیاد پر ہوا میں آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب بات اس نہج پر آن پہنچی ہے کہ آلودگی کی وجہ سے بہنے والے آنسو اُس وقت جذباتی آنسوئوں میں بدل سکتے ہیں جب آپ اس صورتحال کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس وقت پتا چلتا ہے کہ عملی طور پر اس آلودگی سے نمٹنا تو کجا‘ اس کو کم کرنے کے لیے بھی کچھ خاص کام نہیں کیا جا رہا۔
مجموعی، پیچیدہ اور مشکل آنسو
جس طرح دور سے کھڑے ہوکر پوچھے بغیر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کوئی خوشی سے رو رہا ہے یا غم کی وجہ سے‘ اسی طرح آنسوئوں کی اب ایک ایسی قسم بھی وجود میں آ چکی ہے جو خاصی پیچیدہ ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آلودگی بڑھے گی تو اس سے لوگوں کی صحت خراب ہو گی، جیسا کہ لاہور جیسے شہروں کے متعلق یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہاں لوگوں کی اوسط عمر کم ہو رہی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی شرحِ اموات میں اضافہ ہوگا، اور موت کے موقع پر شدتِ غم سے لوگوں کا رونا لازمی بات ہے۔ اسی طرح جب کسی کا کوئی عزیز بیمار ہوتا ہے تو نہ صرف وہ بلکہ بیماری سے گزرنے والا خود بھی تکلیف سے رو پڑتا ہے۔ اگر یہ بیماری ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہو گی تو پہلے تیزابی آنسو بہیں گے اور اس کے بعد یہ جذباتی آنسوئوں میں بدل جائیں گے۔ آنسوئوں کی پہلی قسم‘ جو بغیر کسی وجہ کے آنکھوں سے بہتے ہیں‘ وہ بھی ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اس نئی قسم کو پیچیدہ اور مشکل آنسوئوں کا نام دیا جا سکتا ہے۔
کالم کے شروع میں ذکر ہوا تھا قلیل مقدار کیلئے اونٹ کے منہ میں زیرہ والے محاورے کا لیکن دنیا میں مجموعی طور پر آنسوئوں کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے لگتا ہے کہ اب ''اونٹ کے آنسو‘‘کا محاورہ استعمال کرنا شروع کرنا پڑے گا۔ویسے اردو میں ایک محاورہ مگرمچھ کے آنسوئوں سے متعلق ہے جو جھوٹ موٹ کے آنسوئوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر مگرمچھ جھوٹے آنسو روتا ہے تو بتائیے کہ وہ آنسوئوں کی کون سی قسم میں شمار ہوں گے۔