کہا جاتا ہے کہ دنیا میں امن نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے‘ جس عرصے میں یا جس دور میں کوئی جنگ نہ ہو رہی ہو ہمارے ہاں اسے امن سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت یا اُس دور میں کسی اگلی جنگ کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے۔ اس تناظرمیں بغیر کسی تمہید کے آج کی ''بائی پولر‘‘ دنیا میں چین اور امریکہ کی سرد جنگ کے واقعات اور خدشات پر بات کریں تو کچھ نئے موضوعات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
نہ تو جنگ سرد ہے‘ نہ ہی ختم ہوئی ہے
سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ جب سوویت یونین کے چودہ ریاستوں میں تقسیم ہو جانے کی صورت میں ختم ہوئی تو جاپانی نژاد امریکی سکالر فرانسس فوکویاما نے End of History لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اب مغربی طرز کی سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی دنیا کے حتمی نظام کے طور پر رائج رہے گی اور راج کرے گی۔ مگر اس بات کو آج سے تقریباً دس‘ بارہ سال پہلے چین نے غلط ثابت کرنا شروع کر دیا اور امریکہ کے مقابل کھڑے ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ روس بنیادی طور پر ایک مکمل یا کٹر قسم کا اشتراکیت والا ملک تھا اور اسی نظام کے پھیلائو کے چکر میں وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ اب اس کی جگہ لینے والا ملک چین تھا اور اتفاق کی بات کہ چین میں بھی اشتراکی نظام ہی رائج تھا مگر اس کا طرزِ عمل، اس کی خارجہ پالیسی اور سب سے بڑھ کر اپنے اثر و رسوخ کے پھیلائو کا انداز سوویت یونین سے یکسر مختلف تھا۔اب چین روس کی جگہ پر مکمل طور پر نہ صرف امریکہ کے مقابلے پر آچکا ہے بلکہ گزشتہ کئی صدیوں میں پہلی دفعہ ایک مکمل ایشیائی ملک پوری دنیا میں پہلے نمبر پر براجمان ہونے کے دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ روس کا لگ بھگ تین چوتھائی رقبہ ایشیا میں ہے اور ایک چوتھائی یورپ میں‘ اس نسبت سے یہ قدرے ایشیائی ملک تھا مگر چین مکمل طور پر ایشیائی ملک ہے اور اس کا نظام مغربی جمہوریت سے کوسوں دور‘ سنگل پارٹی پر مشتمل ہے‘ اس لیے فوکویاما کا نظریۂ اختتامِ تاریخ بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
سرد جنگ کو ''سرد‘‘ نام صرف اس لیے دیا گیا تھا کہ اس میں دوبڑی طاقتیں‘ سوویت یونین اور امریکہ‘ آپس میں براہِ راست جنگ کا نہیں سوچتی تھیں؛ البتہ باقی دنیا میں گرم جنگی میدان برپا ہوتے رہے تھے اور اس میں یہ دونوں ملک پوری طرح سرگرم ہوتے تھے۔ کیوبا اور افغانستان اس ضمن میں بڑی مثالیں ہیں‘ اس لیے اس دور کو صحیح معنوں میں ''سرد جنگوں کا دور‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے مسلم دنیا کو دھر لیا اور ہر ممکن طریقے سے اس کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ اب چین کے ابھرنے کے بعد اس پالیسی میں بتدریج کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ اب مسلم دنیا کا رخ بھی امریکہ سے چین کی طرف ہو رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر مسلم دنیا کے دو بڑے ملکوں‘ سعودی عرب اور ایران کا سفارتی تعلقات کی بحالی اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اظہار ہے جو یقینا ایک بڑی پیشرفت ہے۔ یہ پیش رفت چین کے سبب ہی ممکن ہو پائی۔ اس ضمن میں مزید بہتری کی امید اس لیے ہے کہ ایشیا میں امن چین کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایک بہت سادہ لیکن قابلِ فہم بات جو سوشل میڈیا پر نظر سے گزری‘ یہ ہے کہ امریکہ دنیا میں جنگیں کروا کر اپنا اسلحہ بیچتا ہے اور اس سے مال کماتا ہے جبکہ چین صلح کروا کر تجارت کو وسیع کرنا چاہتا ہے اور اس کے ذریعے مال کمانا چاہتا ہے۔ اب مقصد اگر مال بنانا ہے تو بظاہر امریکہ و چین‘ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے لیکن چین کا طریقہ مثبت اور انسان دوست ہے۔ اس طریقے میں دم بھی زیادہ ہے۔
اب چین اور امریکہ کی (سرد) جنگ میں جو بڑے محاذ کھلے ہوئے ہیں‘ ان میں سب سے پہلے چین کا ایک اپنا تنازع ہے جو تائیوان کی شکل میں موجود ہے۔ امریکہ اس معاملے میں ہر ممکن طریقے سے چین کو مشکلات کا شکار کرنے کی کوشش میں جتا رہتا ہے۔ اس کے بعد جنوبی ایشیا کا سمندری علاقہ ہے جس پر چین اپنا تسلط بڑھانا چاہتا ہے جبکہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہاں بھی چین کو مشکلات میں گھیرے ہوئے ہے۔ اس کے بعد چین کا ایک کمزور پہلو جاپان جیسی بڑی ایشیائی طاقت کا جھکائو امریکہ کی طرف ہونا ہے۔ ہاں‘ ایک محاذ ایسا ضرور ہے جس نے امریکہ کے لیے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں اور جو وقت کے ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یہ ہے یوکرین کا محاذ‘ جہاں پر روس نے امریکہ کو اتحادیوں سمیت ایک گہری جنگی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چین نے تاحال اس محاذ پر واضح طور پر روس کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے اور یہ روس کا ایک غیر اعلانیہ اتحادی بنا ہوا ہے۔ اس جنگ کا ایک مخفی اثر بتدریج قوت پکڑ رہا ہے، جس کے معنی وقت کے ساتھ گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر کا اثر نہ صرف چین بلکہ اب روس نے بھی زائل کرنا شروع کر دیا ہے۔ یورپ کے ممالک بھی اب یہ بات محسوس کرنا شروع کر چکے ہیں کہ صرف امریکہ کے آسرے وہ محفوظ نہیں ہیں۔ اسی طرح ذہنی طور پر امریکہ سے مغلوب ممالک بھی اب اس کے اثر و رسوخ سے نکلتے محسوس ہو رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے اندر چین کا بڑھتا اثر و رسوخ اس بات کی سب سے بڑی اور معنی خیز جھلک ہے۔ اب چین کا امریکہ کی جگہ لینا، اور مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات کو ختم کرنے کی کوششیں کرنا ایک خالص سرد جنگ کی جھلک ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اور چین کی جنگی کشمکش اس وقت ایشیا اور یورپ میں پوری طرح جاری ہے۔ چین کی سرد جنگ یورپ میں کچھ یوں نظر آتی ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارت بڑھا کر اس کو امریکی اثر سے نکالے اور یورپ کا جھکائو اپنی طرف کرے۔ چین کو اس مقصد کے لیے معاشی طور پر بڑے یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ‘ چھوٹے اور کم ترقی یافتہ جنوبی یورپ اور مشرقی یورپ کے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو ترجیح دینی چاہیے۔
تاریخ، موقع اور سزا
پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں مسلم ممالک نے ہر طرح سے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھیانک غلطی تھی اور اب یہ ثابت بھی ہو چکا ہے۔ آج کی عالمی سرد جنگ میں مسلم ممالک بڑی حد تک نہ صرف پیچھے ہٹ چکے ہیں بلکہ اپنا رخ چین کی طرف موڑ چکے ہیں۔ لیکن ایک ارب پینتالیس کروڑ کی آبادی والا ایک ایشیائی ملک اس نئی سرد جنگ میں امریکہ کے ہاتھوں اُسی طرح استعمال ہو رہا ہے جس طرح سابقہ سرد جنگ میں مسلم دنیا کو استعمال کیا گیا تھا۔ یقینا آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ بھارت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازع رکھنے والا مفید مگر مہلک و احمق بھارت چین کے ساتھ تمام سرحدی تنازعات میں تو الجھا ہوا ہے‘ ساتھ ہی ساتھ وہ سمندروں کی لڑائی میں بھی امریکہ کی شہ پر چین مخالف اتحادی بنا بیٹھا ہے۔ چین کی روس کے بعد سب سے لمبی سرحد بھارت کے ساتھ لگتی ہے‘ جس کی لمبائی تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیٹر ہے۔ اسی سرحدی علاقے میں ایک ملک نیپال گھرا ہو ہے جس کی بھارت کے ساتھ 1770 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ نیپال بھارت سے عاجز آکر اب مکمل طور پر چین کی طرف نہ صرف جھکائو کر چکا ہے بلکہ اس نے تقریباً چار سو مربع کلومیٹر کے بھارتی علاقے پر اپنا حق جماتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس کا علاقہ واپس کیا جائے۔ سادہ لفظوں میں نیپال اب بھارت اور چین کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کے بجائے چین نواز اور بھارت مخالف ملک بن چکا ہے۔ اگر نیپال کے رقبے کو بھی شامل کر لیں تو بھارت اور چین کا سرحدی علاقہ تقریباً پانچ ہزار کلومیٹر بن جاتا ہے۔ اب بھارت کو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا وہ اتنی طویل متنازع سرحد کو محفوظ رکھ پائے گا؟ اگر ہاں‘ تو اہم بات یہ ہے کہ کب تک محفوظ رکھ پائے گا؟ بھارت کو چاہیے کہ مسلم ممالک کے تجربے سے سبق سیکھے اور ایشیائی مفاد کے تناطر میں سوچے۔ امریکہ کے اشاروں پر ناچنے کے بجائے چین سے تعلقات کو کم از کم نارملائز کیا جائے۔ یہاں مسلم ممالک کو بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے‘ ورنہ تاریخ سبق نہ سیکھنے والوں کو سزا ضرور دیتی ہے۔