ذکر چل رہا ہے استعماریت اور سامراجیت کا۔ اس حوالے سے پہلی وضاحت یہ ہے کہ استعماریت میں کسی علاقے پر طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کیا جاتا ہے اور وہاں پر کسی غیر دیس سے آئے ہوئے لوگ مقامی حکومتوں کو ہٹا کر خود حکمران بن بیٹھتے ہیں جبکہ سامراجیت میں بنیادی مقصد معاشی قبضہ ہوتا ہے۔ معاشی قبضے میں مقامی معیشت میں سے اپنا حصہ بٹورنے سے لوٹ مار تک‘ ہر قسم کا جبر شامل ہوتا ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ استعماریت قائم کرنے کے بعد ہی سامراجیت قائم کی جا سکتی ہے، اس حوالے سے سب سے بڑی مثال برطانوی سامراجیت یعنی اس معاشی لوٹ مار کی ہے جو برصغیر میں دو سو سال تک جاری رہی، لیکن اس سامراجیت کو قائم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے پہلے استعماریت قائم کی گئی۔ اگر بات کریں جدید دور کی سامراجیت کی‘ تو اس کے نتیجے میں عوام پر ایسی صورت حال مسلط ہو جاتی ہے کہ ان کا محض معاشی استحصال ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک باقاعدہ نظام کے ذریعے لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے، جبکہ کوئی غیر ملکی استعماری قوت بھی ان پر قابض یا مسلط نہیں ہوتی۔ اس قسم کی سامراجیت کو کیا نام دینا چاہیے‘ یہ بات بعد میں ہو گی‘ پہلے اس کی مثال سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک مہینے کی لوٹ مار
یہ مثال اس لیے آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ لوٹ مار کی ایسی قسم ہے جو ہمارے ملک میں تمام طرز کی حکومتوں اور تمام سیاسی جماعتوں کے دور میں جاری رہتی ہے۔ آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ ماہِ مقدس میں ہونے والی معاشی لوٹ مار کی بات کی جا رہی ہے۔ اس کی ابتدا کا ذکر گزشتہ کالم میں بھی کیا گیا تھا اور اس حوالے سے سب سے عام پھل یعنی خربوزے کی مثال لی گئی تھی۔ رمضان المبارک سے ایک دن پہلے تک عام مارکیٹ میں خربوزوں کی اوسط قیمت 80 روپے فی کلو تک تھی۔ 50 روپے سے 120 روپے تک ہر قسم کے معیار کا خربوزہ بہ آسانی دستیاب تھا۔ قیمت میں فرق کی ایک وجہ معیار کے علاوہ جائے فروخت تھی، یعنی دکان پر پھل کچھ مہنگا اور ریڑھیوں پر دکانوں کی نسبت قدرے سستا تھا۔ البتہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی خربوزے کی قیمت دو سو سے ڈھائی سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ اس حوالے سے یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ اس پھل کی قیمت کا عالمی منڈی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مقامی طور پر پیدا ہوتا ہے اور پورے ملک میں خوب پیداوار ہوتی ہے۔ اب قیمت میں اضافہ یکلخت اور دو گنا سے بھی زیادہ تھا، لہٰذا سوشل میڈیا پر پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چل پڑی، کسی نے ایک ہفتے تک بائیکاٹ کرنے کا کہا تو کسی نے مہینے بھر کا وعدہ لینے کی کوشش کی، اس حوالے سے متعدد وڈیوز بھی بنائی گئیں، لیکن تاحال اس معاشی جبر میں نمایاں کمی نہیں آئی۔
اس مہنگائی کی اندورنی کہانی کو سمجھنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ یہ اضافہ ہرگز خربوزہ پیدا کرنے والے کسان نے نہیں کیا۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ سبزی و فروٹ منڈی میں بیٹھے کچھ ''مقامی سامراج‘‘ کم وقت میں زیادہ منافع بٹورنے کے لیے ایک مالی اتحاد قائم کر لیتے ہیں۔ اگلے دن سے وہ متحرک ہو جاتے ہیں اور جتنا بھی فروٹ منڈی میں فروخت کے لیے آتا ہے‘ وہ سارا خرید لیا جاتا ہے اور اسے آگے فروخت کرنے کے بجائے اپنے گوداموں میں سٹور کر لیا جاتا ہے۔ چند دن بعد سامراج کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ یہ مقامی سامراجی پھلوں کو اپنے گوداموں سے نکالتے ہیں اور ان کا من مانا ریٹ وصول کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں چونکہ افطاری کے لیے لوگ پھل ضرور خریدتے ہیں، (اگرچہ یہ افطاری کا لازمی حصہ نہیں مگر رمضان کی خوشی اور افطاری کے لمحات کو بھرپور بنانے کے لیے پھل جزوِ لازم بن چکے ہیں) اس لیے مقامی سامراج پھل کو کئی گنا مہنگا کر کے بیچتے ہیں۔ یہ گھنائونا کھیل اس پورے مہینے میں جاری رہتا ہے۔ اگر دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو محض مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی رمضان المبارک میں قیمتوں میں‘ منافع میں نمایاں کمی کر کے عوام کو سہولت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے مختلف خبریں اور وڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں جو ہماری پریشانی کے ساتھ شرمندگی میں بھی اتنا ہی اضافہ کرتی ہیں جتنا اضافہ پھلوں کی قیمتوں میں اس مہینے کے آغاز پر ہی ہو جاتا ہے۔ یاد آیا! یہ اضافہ حسبِ توفیق سبزیوں کی قیمتوں میں بھی ہوتا ہے۔ آلو، پیاز، ٹماٹر اور لیموں سمیت وہ تمام سبزیاں جو اس ماہ میں بکثرت استعمال ہوتی ہیں‘ ان کی قیمتوں میں کئی گنا تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھی سارا کردار مقامی سامراجوں کا ہوتا ہے۔ یہی صورتحال کھانے پینے کی دیگر چیزوں‘ گھی اور کوکنگ آئل وغیرہ‘ کی قیمتوں کے حوالے سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس لوٹ مار کی لہر میں کمی عید کے تیسرے دن کے بعد سے آنا شروع ہوتی ہے۔ اب آپ اپنے علم و مشاہدے کو بروئے کار لائیں اور مارکیٹ پر نظر رکھیں‘ ہم بھی یاددہانی کرا دیں گے کہ اس وقت جو چیز تین سو روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے‘ وہ چند ہفتوں بعد واپس سو‘ ایک سو بیس روپے فی کلو کی سطح تک آ جائے گی۔ دوبارہ خربوزے ہی کی مثال لیں‘ جو اس وقت دو سو تیس روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ یہ 80 روپے سے بھی نیچے آ جائے گا۔ باقی اشیا کا تو شاید نہ کہا جا سکے مگر ہمیں چاہیے کہ پھلوں کی خرید کم سے کم رکھیں تاکہ مقامی سامراج اور ناجائز منافع کمانے بلکہ لوٹنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ اس سلسلے میں جو قابلِ عمل اور مفید مشورہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ افطاری کا وقت ہوتے ہی کھانا کھا لیا کریں اور ٹھنڈے مشروبات، سموسے، پکوڑے اور پھلوں سے گریز کریں۔ منڈیوں میں بیٹھے لوگوں کے مطابق‘ اگرعوام پھلوں کی خرید میں پچاس فیصد تک کمی کر دیں تو ناجائز منافع خوروں کی لوٹ مار سکیم بری طرح پٹ سکتی ہے۔
اب باری آتی ہے اس لوٹ مار کے کھیل میں مقامی انتظامیہ کے کردار کی۔ نظر دوبارہ بیرونی استعمار اور سامراج کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ جی ہاں‘ برطانوی استعمار میں قائم ہونے والی سول بیورو کریسی کی طرف‘ جسے تاجِ برطانیہ نے لامحدود اختیارات و مراعات دی تھیں، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنے لیے ایک ایسی کلاس قائم کی جائے جو اس جابرانہ نظام کو ہر صورت قائم رکھ سکے۔ ہمارے ہاں یہ سسٹم‘ تاجِ برطانیہ کی وراثت کے طور پر آج بھی نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ پوری آب و تاب یعنی سخت گرمی برسانے والے سورج کی طرح چمک رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ انتہائی ذہین ہوتے ہیں اور ایک سخت قسم کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہی اس سسٹم کا حصہ بنتے ہیں مگر عمومی سطح پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ جتنے بھی محکمے افسر شاہی کے تحت کام کر رہے ہیں‘ وہ روز بروز زوال پذیر کیوں ہیں؟ کسی ایک محکمے کی کارکردگی میں بھی بہتری کیوں نہیں آئی۔ آپ ریلوے کے شعبے کی مثال لے لیں۔ اگر اس محکمے کو چلانے والے افسران چاہیں تو کیا ریلوے کا محکمہ خسارے میں جا رہا ہو؟ کیا ہماری ریل گاڑیوں کی رفتار آج بھی ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہو؟ کیا لوگ سڑک کے بجائے ریل پر سفر کر نے کو ترجیح نہ دے رہے ہوتے۔
سگریٹ کا دھواں لے اڑا
سگریٹ پینا صحت کے لیے متعدد حوالے سے نقصان دہ ہے۔ مغربی ممالک میں اس کی حوصلہ شکنی کے لیے اس پر بھاری بھرکم ٹیکسز لگائے جاتے ہیں۔ دو ماہ پہلے تک جب بھی کوئی شخص پاکستان سے مغربی ممالک کا سفر کرتا تھا تو وہ جس بھی برانڈ کا سگریٹ پیتا تھا‘ اس کی زیادہ سے زیادہ ڈبیاں اس لیے اپنے ساتھ لے جاتا تھا کہ وہاں یہ بہت مہنگی ہیں۔ لیکن اب یہ فرق بھی جاتا رہا۔ سگریٹ کے وہ برانڈز‘ جو دو ماہ پہلے تک 250 روپے فی پیکٹ میں فروخت ہو رہے تھے‘ اب یکایک 500 روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ان کی قیمت میں تیس روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سگریٹ کا خام مال یعنی تمباکو بھی ایک مقامی چیز ہے‘ تو قیمت میں حالیہ اضافہ اور وہ بھی کم از کم دو گنا تک کیوں اور کیسے ہو گیا۔ حالانکہ سرکار نے کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا۔ اگر بالفرض اضافی ٹیکسز کی وجہ سے قیمت بڑھی ہوتی تو شاید اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ خاص طور پر اس وقت جب ٹیکس براہِ راست سرکاری خزانے میں جائے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی تھی کہ سگریٹ کی مد میں ہر روز اربوں روپے ڈکارے جا رہے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ فی کس ایک پیکٹ کی اوسط نکالیں تو حالیہ اضافے کے بعد (جس کی اوسط ہم 175 تصور کرتے ہیں) لگ بھگ آٹھ ارب روپے روزانہ عوام کی جیبوں سے بٹورے جا رہے ہیں۔ یہ خطیر رقم کس کی جیبوں میں جا رہی ہے؟ (جاری)