پاکستان کے اندر لکھنے اور بولنے والوں کا ایک ایسا طبقہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے جو ملک کے اندر موجود تمام طرح کے مسائل بالخصوص سیاسی و معاشی بحرانوں کا ذکر اس دن (جس دن وہ واقعہ پیش آیا) حتیٰ کہ بعض اوقات اس دن کے مخصوص وقت کے ساتھ کرتا ہے مگر یہ لوگ کبھی اس وقت کے خطے کے حالات اور عالمی منظر نامے پر نظر نہیں ڈالتے۔ شاید ان کی نظر اور فکر میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی۔ بہت سے ایسے عوامل ہوتے ہیں جو بیک وقت اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں وہ کسی مقامی واقعے کے ساتھ مل کر بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں، اس لیے مقامی تبدیلیوں کو عالمی حالات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے بات ہو گی بھارت کی‘ جو مسلسل ایک ایسے زوال کی طرف گامزن ہے جس کا ذکر راقم اپنے کالموں میں بہت دفعہ کر چکا ہے۔ متعدد تجزیہ کار بھارت کو جنوبی ایشیا سمیت پورے براعظم ایشیا کا ''بھیانک مرض‘‘ سمجھتے ہیں۔ وجہ سادہ مگر بہت اہم ہے‘ وہ یہ کہ ایشیا اس وقت چین کی قیادت میں دوبارہ اُٹھ رہا ہے، امریکہ کی عالمی طاقت کا دور اب لگ بھگ ختم ہو چکا ہے۔ اگر امریکہ اور اس سے پہلے برطانوی عروج کا دور شامل کریں تو یہ دو صدیوں سے کچھ زیادہ کا عرصہ بنتا ہے، اس لیے دنیا کے ذہنوں سے امریکی اثر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس اثر کا سب سے بڑا شکار بھارت ہے، جو تاحال امریکہ کی خاطر اپنے ہمسایے چین کے خلاف اپنے تئیں ایک پراکسی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ ایک سابق بھارتی سفیر تلمیذ احمد (Talmiz Ahmad) کے بقول‘ بھارت ایک self-absorbed (نرگسیت زدہ) ملک ہے جو زمینی حقیقت سے بہت دور ہے۔ سابق سفیر کا مشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر کو دیا گیا یہ انٹرویو آپ یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔
'عالمی‘ چین کا 'مقامی‘ بھارت کے خلاف بڑا حملہ
یہاں عالمی سے مراد چین کا عالمی طاقت ہونا ہے جبکہ بھارت کی حیثیت ایک مقامی درجے کا ملک ہونا ہے۔ ویسے تو چین نے پہلے بھی کئی دفعہ مختلف محاذوں پر بھارت کو جگانے اور اسے اس کی حیثیت یاد کرانے کی کوشش کی ہے لیکن بھارت کو سمجھ نہیں آ رہی۔ اب چین نے تبت کے جنوب میں واقع بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے پندرہ مقامات کے نئے نام اپنی زبان کے مطابق رکھ کر جاری کر دیے ہیں۔ (یعنی ان علاقوں پر اپنا حق جتا دیا ہے) اہم بات یہ ہے کہ چین نے یہ کام تیسری دفعہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ چین مسلسل یہ دعویٰ کرتا آیا ہے جس میں گزشتہ دو سالوں میں بہت شدت آ چکی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ ریاست اصل میں چین کا حصہ ہے۔ اس ریاست کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا ''برہما پتر‘‘ چین سے ہوتا ہوا اسی ریاست کے ذریعے بھارت میں داخل ہوتا ہے۔ اس ریاست کا رقبہ 80 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد ہے۔ اس ریاست کا وہ سرحدی علاقہ جو چین سے ملتا ہے‘ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ ایک بھارتی چینل کے مطابق چین نے جن علاقوں کو نئے نام دیے ہیں ان میں پانچ پہاڑیاں، دو جھیلیں، دو رہائشی علاقے اور دو دریا شامل ہیں۔ چین نے یہ نام سب سے پہلے 2017ء میں، پھر 2021ء میں جاری کیے تھے اور اب تیسری دفعہ اس نے اپنا یہ دعویٰ دہرایا ہے کہ یہ علاقے چین کے ہیں۔ ان علاقوں کو چینی نام دینے کے عمل کو چین نے 'متنازع علاقوں کو standardised کرنے‘ کا نام دیا ہے۔ مجموعی طور پر بھارت کا میڈیا اور بھارتی حکومت اس پر کوئی خاص ردِعمل نہیں دے رہے۔ البتہ بھارتی اپوزیشن اس سارے معاملے پر نریندر مودی کے اُس ایک بیان کا بہت مذاق اڑاتی ہے جس میں مودی نے کہا تھا کہ ''نہ وہ (چین والے) گھسے ہیں نہ گھسیں گے‘‘۔
بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کے کتنے علاقے پر عملاً چین کا قبضہ ہو چکا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بھارتی صحافی نے بھارتی آرمی کے ایک سابق میجر جسونت سنگھ کے حوالے سے بتایا ہے کہ 1964ء سے 66ء تک اس سرحدی علاقے میں بھارتی فوج کے آٹھ کیمپس تھے جن کا آپس میں فاصلہ 5 سے 8 کلومیٹر تک تھا۔ اگر ہم اوسطاً چھ کلومیٹر لگائیں تو یہ بیالیس کلومیٹر کا علاقہ بنتا ہے۔ سابق بھارتی میجر کے مطابق اب یہاں کسی علاقے میں بھارت کی فوج کا ایک بھی کیمپ موجود نہیں ہے، یعنی بھارتی فوج مستقل طور پر کم از کم چالیس کلومیٹر پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اس ریاست میں جاری سست رفتار اور خاموش جنگ میں چین کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کا اندازہ ایسے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے اس ریاست میں ایک سڑک تعمیر کی ہے۔ اس سڑک کی لمبائی Bishing سے Chaglagam تک (مشرق سے مغرب) 174 کلومیٹر ہے۔ سڑک کے آس پاس کا رقبہ بھی جمع کریں تو یہ کتنا علاقہ بن جاتا ہے‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سڑک شمال سے جنوب کی جانب بنائی گئی ہے جس کا لگ بھگ ایک کلومیٹر حصہ بھارت کی سرحد کے اندر کی طرف ہے‘ اس سٹرک کی چوڑائی تین سو سے چار سو میٹر ہے۔ چین کی فوج کے لوگ گاہے گاہے اس ریاست میں داخل ہو کر اپنے کنٹرولڈ علاقے کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور جاتے ہوئے ایک پتھر رکھ کر اس پر یہ لکھ جاتے ہیں کہ یہ علاقہ اب ہمارا ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ چین نے اس ریاست کے اندر اپنی فوج کا ایک بیس کیمپ بھی بنایا ہوا ہے جس میں ایک ہیلی پیڈ بھی شامل ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا ڈھکے چھپے لفظوں میں اس کا کچھ نہ کچھ ذکر کر دیتا ہے لیکن بھارتی حکومت نے اس معاملے نہ صرف یہ کہ ابھی تک کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا بلکہ وہ چین کی دراندازی سے صاف انکار بھی کر دیتی ہے۔ اس موقع پر ایک بات یاد آ جاتی ہے‘ جس کا ذکر بہت سے بھارتی مصنفین بھی کر چکے ہیں اور کئی بھارتی صحافیوں نے اس حوالے سے وڈیوز بھی ریکارڈ کرائی ہیں‘ وہ یہ کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو 1962ء کی جنگ میں چین کے ہاتھوں شکست کا صدمہ اتنا زیادہ ہوا تھا کہ نہرو دو سال کے اندر ہی اس دنیا سے چل بسے۔ ہمارے ہاں ان معاملات کو در خورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا۔
سفارتی بغاوت اور قریب المرگ ڈالر
جس سابق بھارتی سفیر کے انٹرویو کا ذکر ہوا‘ اس نے ایک بہت گہری اور دلچسپ اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ایشیا میں چین نے سفارتی بغاوت کر دی ہے یا یوں کہیں کہ چین نے ایشیا میں امریکی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کا اپنا ملک ہی (بھارت) اس سے بے خبر اپنی دھن میں مگن ہے۔ اب بات اس عالمی طاقت کی کرنسی کی جس کے ایما پر بھارت خود کش حرکات کر رہا ہے۔ چین نے اپنی ایک انگلش نیوز سائٹ پر ڈالر کے لیے Moribund کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ دراصل ایک انگریزی اصطلاح ہے جس کا مطلب قریب المرگ ہونا ہے۔ چین کی نیوز سائٹ پر ریت والی ایک گھڑی دکھائی گئی ہے‘ جس میں ڈالر کو آدھے سے زیادہ نیچے والے حصے میں گرتا ہوا دکھایا ہے۔ یہ ایک بہت معنی خیز تصویر ہے جو بتا رہی ہے کہ ڈالر کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ ڈالر کی واحد عالمی تجارتی کرنسی کی حیثیت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اور کئی ممالک باہمی کرنسی اور چین کی کرنسی میں تجارت کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ایشیائی آئی ایم ایف کے نام سے ایک مقامی مالیاتی ادارے کے قیام کی تجاویز بھی اب عملی شکل اختیار کرنے کے قریب ہیں۔ کچھ ماہرین چین کی جانب سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کی ''سفارتی بغاوت‘‘ کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اب امریکہ کے خلاف ایک سفارتی جارحیت جلد ہی پاکستان میں ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان اب امریکہ کی کمزور ہوتی طاقت کی وجہ اس کی ڈو مور اور دیگر دخل اندازیوں سے نکلنے کے قریب ہے۔ اس وقت ہماری حالیہ مالی و دیگر مشکلات کا ایک پہلو یہی عالمی منظر نامہ ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف اپنا شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ یہ ساری کاوشیں پاکستان کو سی پیک اور چین سے دور کرنے کے لیے ہیں لیکن یہ وقت اب ختم ہونے کے قریب ہے اور ممکن ہے کہ اسی سال اس ضمن میں کوئی واضح پیش رفت سامنے آ جائے۔