امریکہ کا سفارتی تختہ الٹ چکا

Diplomatic Coup کا لفظی ترجمہ ''سفارتی بغاوت‘‘ کی نسبت ''سفارتی تختہ الٹنا‘‘ زیادہ موزوں لگتا ہے۔ گزشتہ کالم میں اس اصطلاح کا ذکر ہوا تھا جس کا حوالہ آج کل سیاسی و سفارتی ماہرین اس تناظر میں دیتے ہیں کہ براعظم ایشیا میں اب چین امریکہ کی جگہ لے چکا ہے۔ اس کا زیادہ ذکر تب سے شروع ہوا ہے جب سے چین نے ایران کے سعودی عرب سے ہی نہیں بلکہ دیگر عرب ممالک سے بھی سفارتی تعلقات بحال کرا دیے ہیں۔ سات سے آٹھ سال بعد ایران نے رواں مہینے متحدہ عرب امارات میں اپنا سفیر بھی تعینات کر دیا ہے۔ اسی طرح شام کے تعلقات بھی مصر کے ساتھ بہتر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ قصہ مختصر‘ مشرقِ وسطیٰ اب باہمی جنگی کشمکش سے واضح طور پر باہر نکل رہا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف چین کا ایک عالمی طاقت کے طور پر اس علاقے میں اپنا معاشی و سیاسی اثرو رسوخ بڑھانا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ چین کے لیے ایشیا کی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کے لیے یورپ کی ہے۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو چین کے لیے ایشیا کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ چین خود بھی ایشیا کے اندر موجود ہے اور اس کی اپنی زمینی سرحد چودہ ملکوں سے لگتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین کے زیادہ تر پڑوسی ممالک میں حالات زیادہ اچھے نہیں‘ اس تناطر میں ایشیا کے سب سے بڑے مریض بھارت کا ذکر بھی ہوتا ہے جس کے ساتھ چین کی ساڑھے تین ہزار کلو میٹر سے زیادہ لمبی سرحد لگتی ہے اور یہ ساری کی ساری متنازع‘ غیر واضح اور تنائو والی سرحد ہے۔ چین کی بھارت کے ساتھ امن کی خواہش کے باوجود بھارت صرف مغربی ایما پر چین کو مشکل وقت دینے کی اپنی سی کوششیں کررہا ہے۔ گزشتہ تحریر کے بنیادی نقاط سے ہی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
بھارت مفید کے بجائے مہلک احمق کیوں؟
''مفید احمق ‘‘کا نام اپنے وقت کی عالمی طاقت روس کی ایجنسی کے ایک اعلیٰ ترین اہلکار کا دیا ہوا ہے اور یہ نام اس نے اپنے لیے کام کرنے والے بھارتیوں کو دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ پیسوں کے عوض تحریکیں چلانے کا کام کرنے والے دراصل احمق ہوتے ہیں لیکن چونکہ کام آجاتے ہیں اس لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔ یہ بات آج پھر اس لیے یاد آ رہی ہے کہ اس وقت بھارت ایک مہلک احمق کے طور پر مغربی لابی کے کہنے پر چین کے خلاف کام کر رہا ہے۔ حالانکہ بھارت کو پاکستان سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے کہ دس سال تک امریکی لڑائی افغانستان میں لڑنے اور روس کو شکست دینے کا صلہ جس شکل میں ملا تھا اور آج بھی مل رہا ہے‘ وہ چیخ چیخ کر بتاتا ہے کہ امریکی پالیسی میں یہ شامل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ایشیا کے ملک کو آگے بڑھنے میں مدد دے بلکہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ اس کے بعد بھارت‘ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک امریکہ کی سربراہی میں مغربی لابی نے کیا ہے‘ اس سے بھی سبق سیکھ سکتا ہے۔ اب آپ زیادہ دور نہ جائیں‘ جاپان ہی کی مثال لے لیں جس کے تعلقات چین سے زیادہ اچھے نہیں اور کچھ چھوٹے جزیروں پر تنازع بھی ہے۔اب جاپان نہ صرف نیٹو کا ممبر ہے بلکہ اور بھی معاہدوں میں امریکہ کا اتحادی ہے لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ چین کے خلاف کوئی کشیدہ قدم اٹھائے۔
اب اگلے پہلو کی طرف آئیں تو نظر آتا ہے کہ بظاہر بلکہ مجبوراً خود کو سیکولر کہنے والا ملک اب اس جدید دور میں ہندو مت پر مبنی ایک بنیاد پرستی کی ڈگر پر چلتاجا رہا ہے۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ بھارت میں تاریخی جگہوں کے ناموں کو ہندو نام دینے کی انتہائی غیر ضروری ہی نہیں بلکہ ثقافتی اور تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے اور معاشرے میں کشیدگی اور بیگانہ پن پیدا کرنے والی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آئے روز غیرہندو آبادی کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ سلوک کی خبریں اس کے معاشرتی کھوکھلے پن کا کھلا اظہار ہیں۔ یہاں پر یہ بتانا بہت اہم ہے کہ نہرو نے ایک دفعہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس علاقے کو اتنی ترقی دے گا کہ آزاد کشمیر کے لوگ بھی یہاں آنے کی خواہش کریں گے۔ لیکن صاحب! مسلمانوں یا دیگر مذاہب کے لوگوں کو تو چھوڑیں‘ یہاں چھوٹی ذات کے ہندو بھی ابھی تک خود کو دوسرے درجے کا شہری ہی تصور کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارتی آئین کے خالق ڈاکٹر امبیدکر ذات کے اعتبار سے شودر تھے جو بھارت کے اندر اپنی ذات کے ہندئوں سے ہونے والے سلوک سے اتنے دلبرداشتہ ہو ئے تھے کہ انہوں نے احتجاجاً اپنا مذہب بدل کر بدھ مت اختیا کر لیا تھا۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی نوعیت کا قومی سطح کا سانحہ تھا۔ اس موضوع کے پس منظر میں غیر ہندو لوگ بھارت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ صر ف ہندو ریاست ہی نہیں بلکہ برہمن کا بھارت ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق برہمن ذات کے لوگ اعلیٰ ترین لوگ ہوتے ہیں۔ اس سوچ کو کسی حد تک توڑنے میں گورا کامیاب ہوا تھا جبکہ مغل بادشاہ بھی اس معاملے میں مکمل بے بس رہے تھے۔ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ بھارت کی 75سالہ تاریخ میں 52سال وزرائے اعظم صرف برہمن ہی رہے ہیں۔
چنڈیا اور بھارت کی نرگسیت
چین اور بھارت کے انگریزی ناموں کو ملا کر Chindiaکی اصطلاح ایجاد کی گئی تھی۔ ماضی کے بیس برسوں میں بھارت کو بالخصوص مغربی میڈیا میں‘ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے جو بہت جلد چین کے برابر کی طاقت ہوگا جس کا مقصد بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا تھا ۔اس کو آپ ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں جیسے غبارے میں ہوا بھرتے جائیں تو یہ پھولتا جاتا ہے جبکہ غبارہ جتنا زیادہ پھولا ہوگا اس کے پھٹنے کا امکان بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ امریکہ اسی طرح بھارت کے خطے کی بڑی طاقت ہونے کے غبارے میں ہوا بھر رہا ہے۔ اس معاملے میں مغرب نے مودی جیسے حکمران کو بھی قبول کرنا گوارا کر لیا جبکہ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کی وجہ سے کبھی اس بندے کے امریکہ میں داخلے پر پابندی ہوتی تھی۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے امریکہ نے پہلے خود طالبان کو آزادی کے مقدس ہیروز کا درجہ دیا اور اپنا کام پورا ہوتے ہی ان کو ناصرف نا پسندیدہ بلکہ دہشت گرد تک قرار دیا اور روس کے توٹتے ہی ان کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہر ممکن طریقے سے حملے کر دیے۔ اب عین اسی طرح بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کیا ہوا ہے جبکہ اس دفعہ امریکہ کا مقابلہ چین کے ساتھ ہے لیکن اس دفعہ امریکہ کی جیت کے بجائے وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس کی عالمی طاقت کا درجہ ختم ہوتا نظر آتا ہے اور چین بدستور اس کی جگہ لے رہا ہے۔ جیسے پہلے ذکر ہوا کہ چین کا سب سے بڑا مقصد چاہے اپنی ضرورت کیلئے ہی ہے‘ بر اعظم ایشیا کو جنگی کشمکش کی کیفیت سے نکالنا ہے۔ موجودہ صورتحال میں جب چین ایشیا کے اُن ممالک کے اختلافات دور کروا کر صلح کروا رہا ہے جن میں سرد جنگ جاری تھی‘ ایسے میں اسے خود جس ایک ملک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر نہ سہی نارمل کرنا چاہئیں‘ وہ بھارت ہے۔ چند سال پہلے بھارت میں چین کے سفیر نے سکھوں کی مقدس ترین جگہ گولڈن ٹیمپل کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد صرف بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ سکھوں کی خالصتان کی تحریک کو مدد فراہم کر سکتا ہے لیکن بھارت چین کے حالیہ انتہائی اہم اقدام‘ جس میں انہوں نے بھارت کی ریاست ارونا چل پردیش میں پندرہ مختلف مقامات کو اپنے مقامی نام دے کر پیغام دیا ہے کہ بھارت خطے کی بڑی طاقت ہونے کا غبارہ پھٹنے سے پہلے سمجھ جائے‘ وگرنہ یہ غبارہ پھٹنے کے بعد ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں