اقتدار، حکومت اور پروٹوکول ختم ہونے کو سماجی اور نفسیاتی موت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان جیسے ممالک میں کسی بڑے پولیس افسر یا پھر کسی کمشنر کا ریٹائر ہو جانا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اکثر افراد تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کہاں ہٹو بچو کی صدائیں اور آگے پیچھے گاڑیاں اور کہاں پُرتعیش گھر میں مکمل تنہائی اور کامل سکوت۔
آج کل دنیا میں ایک ہی بات پر بحث ہو رہی ہے‘ جو کچھ اس طرح ہے کہ ڈالر اب بھی کرنسی کا باشاہ ہے یا یہ اب محض کاغذ کا ٹکڑا بن چکا ہے۔ بعض تجزیہ کار اسے جس کاغذ سے تشبیہ دے رہے ہیں‘ وہ ٹشو پیپر ہے۔ باقی اندازہ آپ خود لگا لیں۔ آپ یو ٹیوب پر چلے جائیں‘ آپ کو مغربی و مشرقی مفکرین کی وڈیوز کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔ سیاسی لیڈرز، معاشی ماہرین، لکھاری اور دیگر شعبوں کے ماہر لوگ بھی اس حوالے سے رائے زنی کرتے مل جائیں گے۔
وہ مر ا نہیں لیکن زندہ نہیں رہا
ڈالر کی حکمرانی کی بحث کا ایک رخ کچھ یوں ہے کہ انگلش زبان میں ایک فقرہ بہت مشہور ہے ''it is not a problem until it becomes a problem‘‘۔ اس فقرے میں بظاہر ہمت نہ ہارنے اور مقابلہ جاری رکھنے یا پھر یوں کہہ لیں کہ وقت سے پہلے نہ گھبرانے کا درس ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فقرہ ایک امریکی ماہر نے ڈالر کی گرتی ہوئی ساکھ سے متعلق کہا ہے لیکن دوسری طرف حالات تیزی سے بدل ہی نہیں رہے بلکہ بدل چکے ہیں۔ بہت سارے ممالک نے پہلے ہی اپنے معاشی اثاثے ڈالر کے بجائے سونے کی شکل میں رکھنا شروع کر دیے ہیں۔ عالمی تجارت کی بات کی جائے تو بہت سارے ممالک اب تجارت اپنی باہمی کرنسی میں کرنے لگے ہیں۔ اس کرنسی کے عالمی کھیل میں چین کا ساتھ جو ملک سب سے بڑھ کر دے رہا ہے اس کا نام روس ہے۔ واضح رہے کہ چند سال پہلے تک دنیا کی کل تجارت کا 90 فیصد لین دین ڈالر میں ہوتا تھا۔ اب یہ سکڑ کر لگ بھگ پچاس فیصد تک رہ گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ امریکہ نے آج تک جتنے ڈالر چھاپے ہیں‘ ان کا ساٹھ فیصد امریکہ سے باہر دیگر ممالک میں پڑا ہوا ہے۔ سادہ سا مطلب یہ ہے کہ چند سال پہلے تک ڈالر ہی کو معاشی طاقت کا دوسرا نام دیا جاتا تھا، مگر اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔
اس سارے چکر میں ایک بڑا چکر بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس طرح ہے کہ جب عالمی تجارت ڈالر میں ہو گی تو اس کے ساتھ ہی ڈالر کی اپنی تجارت بھی ہوتی رہے گی۔ یہ مشکل نکتہ ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ملک سے باہر جارہے ہیں‘ آپ کو ایک ٹکٹ خریدنا پڑے گا، جس کیلئے آپ کو اپنی کرنسی یعنی روپے کو پہلے ڈالر میں بدلنا ہوگا، یعنی آپ مارکیٹ سے ڈالر خریدیں گے۔ اب ڈالر کو خریدنے یا بیچنے کے ریٹ مختلف ہوں گے۔ اگر آپ ڈالر خریدیں گے تو آج کل کے حساب سے وہ آپ کو 283 روپے کا ملے گا، لیکن اگر آپ اسی ڈالر کو واپس بیچ کر اپنا روپیہ حاصل کرنا چاہیں گے تو آپ کو پچاس پیسے سے دو روپے فی ڈالر تک ریٹ کم ملے گا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو لاہور سے کراچی کا ٹکٹ خریدنا ہے تو بھی ٹکٹ کا ریٹ ڈالر کے حساب سے کم زیادہ ہو گا ۔ یعنی ڈالر کی اپنی تجارت بھی ہو رہی ہے اور یہ عالمی مارکیٹ کو بھی کنٹرول کر رہا ہے۔ یہاں ایک امریکی کی کہی ہوئی بات یاد آ رہی ہے جس نے چند دہائیوں قبل کہا تھا کہ ڈالر کا رخ دنیا میں ہوائوں کا رخ تبدیل کر سکتا ہے لیکن اب عالمی سیاست نے حالات اس قدر تبدیل کر دیے ہیں کہ مشرق (چین)سے چلنے والی ہوائوں نے ڈالر کو اڑاکر رکھ دیا ہے۔ یہ الگ بات کہ چینی اپنے محدود میڈیا اور اپنی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اس بات کا زیادہ چرچا نہیں کرتے۔ ویسے اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ چین ابھی تک اپنی طاقت کا اظہار قدرے نرم انداز میں کر رہا ہے۔ چین کسی بھی ملک پر اگر مسلح چڑھائی کرنا چاہے‘ جیسے تائیوان کا مسئلہ ہے‘ تو چند گھنٹوں کے اندر وہ اس پر قابو کر کے اس کو اپنے اندر ضم کر سکتا ہے، لیکن وہ ایسا کرنے کے بجائے تائیوان کے پیچھے کھڑی طاقت (امریکہ) کا کنٹرول کمزور ہونے تک انتظار کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اب واضح نظر آ رہا ہے کہ جیسے ہی امریکہ کا اثر ورسوخ مزید کم ہوگا‘ چین تائیوان کا معاشی گھیرائو کر کے اسے بے بس کر دے گا۔ اسی طرح چین بھارت کو بھی پیار بھرے اور تھوڑی سے مرمت کے انداز میں سمجھا رہا ہے۔
واپس بات ڈالر کی! چین اور امریکہ میں سے کون سی طاقت بڑی ہے‘ اس کا فیصلہ کسی دوسرے ملک پر قبضے یا جنگوں سے نہیں ہونا، کیونکہ دونوں کے درمیان ایسا کوئی تنازع نہیں ہے۔ اب بات زیادہ واضح اور دلچسپ ہو گئی ہے کہ جیسے جیسے ڈالر کی ساکھ ختم ہو گی یا یوں کہہ لیں کہ کم ہو گی، ویسے ویسے اس بات کا اعلان ہوگا کہ امریکہ کی عالمی حکمرانی ختم ہو رہی ہے۔ اگر بات کسی جنگی میدان کی کریں تو اس میدان میں بھی امریکہ پسپا ہو رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یوکرین میں روس کی تاحال موجودگی ہے۔ اس جنگی میدان کا سب سے زیادہ اور عملی اثر یورپ پر پڑا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی یورپی ملک کے اندر جنگ ہو رہی ہے، اور اس جنگ کا کنٹرول ایک (نیم) ایشیائی ملک کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ملک روس ہے اور روس کے چین کے ساتھ تعلقات ایک اتحادی سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ یاد رہے کہ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو چین نے ایسا بیان دیا تھا جو ہر لحاظ سے روس کا ساتھ دینے کے مترادف تھا۔ اس بیان اور عملاً چین کے ساتھ نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ یہ جنگ صرف روس اور یوکرین کی نہیں بلکہ دو ایشائی طاقتوں( روس اور چین) کی ہے جنہوں نے براہِ راست امریکی حکمرانی کو چیلنج کیا ہے۔ حال ہی میں لیک ہونے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات سے یہ پتا چلا ہے کہ نیٹو کے کچھ فوجی روس میں خفیہ طور پر موجود تھے۔ اسی طرح امریکہ ابھی تک اپنی افواج تو در کنار‘ نیٹو کو بھی یوکرین میں بھیجنے سے کنارہ کشی کر رہا ہے، جو اس کی کم ہوتی ہوئی طاقت اور بے بسی کا واضح ثبوت ہے۔
سورج جتنی روشنی اور فیوز بلب
بات ہو رہی ہے اقتدار ختم ہونے کی‘ اسی حوالے سے ایک واقعہ یاد آگیا جو ساری صورتحال واضح کر دے گا۔ ایک صاحب سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تو اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہوگئے۔ ایک دن سیر کرتے ہوئے ایک پارک میں گئے تو اپنے ٹھاٹ باٹ کی یادیں تازہ کرنے کے لیے یا پھر اس کا اظہار کرنے کے لیے ایک مالی کے پاس جا بیٹھے۔ اس مالی کو مخاطب کرتے ہوئے وہ صاحب بولے: مجھے جانتے ہو؟ جواب نفی میں ملا۔ کہنے لگے: میں یہاں نیا آیا ہوں‘ اس لیے تم مجھے نہیں جانتے، چلو میں تمہیں بتاتا ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی کہانی شروع کر دی کہ میں نے اس ملک کا سب سے بڑا اور سخت امتحان پاس کیا تھا اور اسسٹنٹ کمشنر بھرتی ہوا تھا۔ سرکاری گاڑی، ملازم اور سب سے بڑھ کر میرے اختیارات۔ یوں سمجھ لو کہ میرا اختیار اتنا زیادہ تھا کہ جہاں بھی میں چلا جاتا تھا‘ وہاں ایک بڑا بلب جل جاتا تھا۔ مالی ان کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا اور قدرے ادب سے ان کی باتیں سننے لگا۔ صاحب نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا: چند سال کے بعد میں ڈپٹی کمشنر ہو گیا، جس سے میرے جاہ و جلال میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مالی کی تعجب والی سوالیہ آنکھیں دیکھتے ہوئے صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : یوں سمجھ لو کہ پہلے اگر میں ایک سو واٹ کا بلب تھا تو اب میں دو سو واٹ کے بلب جتنی روشنی یعنی اتنی زیادہ طاقت والا شخص بن گیا۔ اس پر مالی‘ جو یہ سب بڑے غور اور ادب سے سن رہا تھا‘ احترام سے بولا: صاحب آپ کے لیے کوئی ٹھنڈا‘ گرم لائوں؟ ان صاحب کی اَنا کی تھوڑی سی تسکین ہوئی مگر قدرے رعونت سے بولے: نہیں‘ رہنے دو، بس میری بات پوری سن لو۔
صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد میں کمشنر ہوگیا، یوں سمجھو کہ میں پانچ سو واٹ کے بلب کے برابر ہوگیا۔ میری طاقت کا اندازہ یوں لگا لو کہ میرے حکم پر ضلع میں چھٹی ہو جاتی تھی، مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی، میری ترقی کا سفر جاری رہا اور میں آگے بڑھتے ہوئے پہلے سیکرٹری اور پھر چیف سیکرٹری ہوگیا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہو کہ میری طاقت یعنی روشنی ایک سورج جتنی ہو گئی۔ پورے ملک پر میری نظر تھی، ہر جگہ میرا اختیا ر چلتا تھا۔ اب مالی نے قدرے دلچسپی سے پوچھا: آج کل آپ کیا ہیں اور کہاں لگے ہوئے ہیں؟ ریٹائرڈ سیکرٹری صاحب نے مایوسی سے جواب دیا: اب میں ریٹائر ہو چکا ہوں۔ اس پر مالی نے کہا: پھر تو آپ کا حساب ایک فیوز بلب والا ہو چکا ہے۔ اس پر وہ صاحب مالی کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے مگر دل میں کہہ رہے تھے کہ بات تو اس کی ٹھیک ہے لیکن یقین نہیں آتا اور دل نہیں مانتا ۔