بِگ بلنڈرز آف بھارت

جس طرح کسی بھی گھرانے کے حالات کاانحصار اس کے ارد گرد کے گھروں کے علاوہ گائوں اور علاقے کے مجموعی حالات پر بھی ہوتا ہے‘ اسی طرح ایک گائوں کے قریبی گائوں کے لوگوں کا رہن سہن اور اس گائوں کے بڑے یعنی طاقتور لوگوں کا طرزِ عمل بھی پورے گائوں بلکہ اردگرد کے لوگوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ادارے کے ایک کولیگ سے بات چیت ہورہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے گائوں میں ایک کنال زمین کی قیمت صرف دو لاکھ روپے ہے ، لیکن ساتھ والے گائوں میں یہی قیمت تین گنا زیادہ ہے۔ حیرت سے پوچھا تو بولے کہ ہمارے گائوں میں لڑائیاں‘ جھگڑے بہت زیادہ ہیں۔ لوگ اسی وجہ سے اپنی مکان اور جائیداد بیچ کر کسی محفوظ جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔ خاندانی دشمنیاں اتنی گمبھیر ہیں کہ چوتھی نسل تک منتقل ہو چکی ہیں۔ تنازعات کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو بولے کہ کوئی عقلی‘ منطقی بات نہیں ہے، بس اَناپرستی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں ہیں۔ سادہ لفظوں میں چودھراہٹ کے جھگڑے ہیں۔ اصل لڑائی دو یا تین گھرانوں کی ہے ، باقی سارا گائوں اس کی لپیٹ میں آیا رہتا ہے۔ باقی کسر گائوں کے دیگر کچھ بڑے اِن گھروں کی سرپرستی کر کے پوری کر دیتے ہیں۔اسی گفتگو میں ایک ایسے بڑے خاندان کا ذکر بھی آگیا جس کا تعلق تو دوسرے گائوں سے ہے لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ان کے برابر کا کوئی دوسرا چودھری اور زمیندار سامنے آئے۔ اسی لیے وہ دیگر دیہات کے لوگوں کو باہم کشمکش میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علاقے کے تقریباً تمام گھروں میں اسلحہ ضرور موجود ہے، مطلب کھانے پینے کو کچھ ہو نہ ہو‘ لڑائی کا سامان ضرور موجود رہتا ہے۔ باقی کسر ان لڑائیوں کی وجہ سے ہونیوالے مقدمات پر ہونے والے اخراجات پوری کر دیتے ہیں۔ اب اس کہانی کو پس منظر میں رکھتے ہوئے ایک ایسے علاقائی چودھری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جو نہ صرف اپنی بھوک ختم نہیں کر سکا بلکہ پورے علاقے میں ایک کرائے کے بدمعاش کی طرح بد امنی کا کاروبار کر رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کی حاکمیت
بھارت کے ایک سابق سفیر کا انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا جنہوں نے عجب دلیری سے اپنے ہی ملک کی علاقائی طاقت کی پالیسیوں کی داستانِ غضب بیان کر دی۔ ان کا نام تلمیذ احمد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے قیام سے لے کر اب تک راج شاہی کے خبط میں مبتلا ہے۔ ان کا اشارہ برطانوی طرز کے راج شاہی کی طرف تھا۔ یہ وہی سفیر ہیں جن کے بہت سے معنی خیز جملے راقم نے پہلے بھی اپنے کالموں میں بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ہی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت ایک self-absorbedملک ہے۔ یہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور حقائق کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کرکے فقط جنوبی ایشیائی خطے کا بڑا بننے کے جنون میں مگن‘ ایک نرگسیت پسند ملک ہے۔ ان کے اس بیان کا سیاق و سباق چین کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی دوستانہ پیشرفت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پیشرفت اتنی اہم اور بڑی ہے کہ اب اسرائیل بھی اس کا دبائو محسوس کر رہا ہے۔ اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک میں کشیدگی اور تنائو کا فائدہ اسرائیل کو پہنچتا تھا لیکن اب ان ممالک میں دوستانہ ماحول کی وجہ سے اسرائیل کی اس علاقے میں حاکمیت کو ایک دھچکا پہنچا ہے۔ ان بھارتی سفیر کی گفتگو کا ایک پس منظر بھارت کی جانب سے خطے کے چھوٹے ممالک پر راج شاہی کی پالیسی کے تحت اپنا رعب اور دخل اندازی کی کوششوں کو لگنے والا دھچکا بھی ہے۔ بھارت اور چین کی سرحد پر دو چھوٹے ممالک نیپال اور بھوٹان بھارت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر چکے ہیں۔ اسی طرح سکم کی ریاست‘ جس پر 1974ء میں قبضہ کرکے بھارت نے اپنے اندر ضم کر لیا تھا ‘ میں بھی ایک علیحدگی پسند تحریک'' جان مکت مورچہ‘‘ کے نام سے شروع ہو چکی ہے۔ اس علاقے میں گھورکھا کمیونٹی بھی آباد ہے جو انگریز دور سے اپنی بہادری اورجی داری سے لڑنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی راج میں اس قوم کو ایک مارشل نسل کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب اسی حوالے سے ایک اہم خبر سکم‘ بھوٹان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آباد گورکھا نسل کے لوگوں کی چین کی آرمی میں بھرتی ہونے سے متعلق سامنے آئی ہے۔ بھارتی میڈیا اس پر ایک غیر منطقی شور شرابہ کر رہا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ نیپال اور بھوٹان اب مکمل طور پر نہ صرف چین کی جانب جھک چکے ہیں بلکہ بھارت سے مکمل دوری اختیا رکر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں نیپال اور بھارت میں باضابطہ کشیدگی والی صورتحال گزشتہ دو سال سے جاری ہے۔ نیپال نے بھارت کو بھارت ہی کی زبان میں جواب دیا ہے اور کالا پانی اور لپو لیکھ کے علاقوں پر مشتمل خطے پر نہ صرف حقِ دعویٰ کیا ہے بلکہ تقریباً چار سو مربع کلومیٹر کے اس علاقے کو اپنے ملک کے نقشے میں شامل کرتے ہوئے نیا نقشہ اپنی پارلیمنٹ سے منظور کروا کر جاری بھی کر دیا ہوا ہے۔ اس سے قبل نیپال دنیا کا واحد ملک تھا جس کا سرکاری مذہب ہندومت تھا لیکن اب یہ نہ صرف جمہوری اور سیکولر ہو چکا ہے بلکہ اشتراکی طرز اپناتے ہوئے مکمل طور پر چین کا اتحادی نما دوست ملک بن چکا ہے۔ نیپال میں آنیوالی یہ تمام تبدیلیاں بھارت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہیں۔ دوسری طرف بھوٹان اور چین میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت بھوٹان نے محض بھارت سے جان چھڑانے کی خاطر اپنا کچھ علاقہ چین کے حوالے کر دیا ہے۔ بھوٹان کی منطق یہ ہے کہ وہ مسلح بھارت جیسے پڑوسی کے بجائے تجارتی چین جیسے پڑوسی کیساتھ تعلقات کو اپنے لیے حفاظت اور ترقی کی علامت و ضمانت سمجھتا ہے۔
پاک بھارت تعلقات
پاکستان جنوبی ایشیا کی واحد طاقت ہے جس نے اپنے قیام سے آج تک بھارت کی علاقائی حاکمیت کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ نوبت یہاں تک بھی آ پہنچی کہ سری لنکا اور دیگر چھوٹے ممالک پاکستان کو اس خطے میں ایک نجات دہندہ کی طرح دیکھتے تھے۔ یہ چھوٹے ممالک اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ صرف پاکستان ہی کی وجہ سے ان کا ملک بھارتی راج شاہی کے تسلط سے بچا ہوا ہے۔ اس حوالے سے یاد دلاتے چلیں کہ 1989ء میں بھارت نے نیپال کی سمندری تجارت کا راستہ بند کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ نیپال ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے اور اس کی سرحد صرف چین اور بھارت سے ملتی ہے۔ اب ہوا کچھ یوں کہ پاکستان نے موجودہ سی پیک والے راستے کی طرز پر نیپال کو یہ پیشکش کی کہ وہ چین کے راستے سے پاکستان کی بندر گاہ استعمال کرتے ہوئے اپنی سمندری تجارت بحال رکھ سکتا ہے۔ اس پیشکش ہی کی بدولت بھارت کی عقل ٹھکانے آئی اور اس نے نیپال کا تجارتی راستہ بحال کر دیا۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں تامل باغیوں کے ہاتھوں یر غمال سری لنکن حکومت کو اس بغاوت سے نجات دلانے میں بھی پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک کا سربراہ براہِ راست بھارتی رابطے اور سرپرستی میں تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ بھارت کی دوغلی چالوں کی وجہ سے ہی اس تامل تحریک کے لوگوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو قتل کیا تھا۔ اس بات کو تفصیل سے جاننے کے لیے آپ بھارت کی فلم ''مدراس کیفے‘‘ دیکھ سکتے ہیں۔ باقی ساری باتیں ایک طرف‘ اگر غور کریں تو علم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں ایٹمی دوڑ شروع کرانے کا سارا کریڈٹ بھارت ہی کو جاتا ہے۔ اس کو ''بِگ بلنڈر آف بھارت‘‘ کہا جاتا ہے۔ عالمی ماہرین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اگر بھارت اس مہلک ٹیکنالوجی کی طرف نہ جاتا تو پاکستان کبھی اس صلاحیت کو حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بھارت جنوبی ایشیا کاسب سے بڑا ملک ہے۔ اب ذرا کالم کے شروع میں بیان کی گئی دیہاتی لڑائیوں کی مثال کو ذہن میں رکھیں تو بات سمجھ آ جاتی ہے کہ پورے جنوبی ایشیا کو بھارت نے ہی راج شاہی کے خبط میں مبتلا ہونے کے سبب پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ اس جنگی جنون اور راج شاہی کی آگ میں جلتے ہوئے بھارت خود بھی ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کا ملک ہے اور جہاں عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں