مستقبل کے قومی ذخائر

آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یا مخمصہ یہ ہے کہ وہ اپنے خزانے میں کس چیز کے ذخائر یا دولت کو کس شکل میں محفوظ رکھے۔ اب تک یہ امریکی ڈالر کی شکل میں تھے یعنی دنیا کے تمام ممالک کا تقریباً 60 فیصد زرمبادلہ امریکی ڈالر کی شکل میں رکھا جاتا تھا،مگر اب اس میں تبدیلی آرہی ہے۔ ڈالر کے بعد سونے کو یہ مقام حاصل ہے کہ بیشتر ممالک اپنے قومی بینکوں میں سونے کو یہ سوچ کر ذخیرہ رکھتے ہیں کہ اس کی قدر میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ عالمی معیشت میں ڈالر کے متبادل کوئی اور کرنسی لانے یا ڈالر کو ترک کرنے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سونا ہی وہ چیز ہے جس کی قیمت میں گزشتہ چند سالوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ یہ بات بہت سادہ لیکن اہم ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کیوں ہو رہا ہے۔ امریکی ڈالر کی اجارہ داری کم ہونے یاختم ہونے کے سفر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سونے کی یہ ساری خرید مختلف ممالک کی جانب سے صرف اس لیے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ذخائر کی شکل بدل رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ‘ جس طرح یورو ایک بڑی علاقائی (یورپی) کرنسی ہے‘ نئی عالمی اور علاقائی کرنسیاں لانے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔
اصل دولت اور انسان کی طے کردہ قدر
اب ایک ایسی بات کا ذکر کرتے ہیں جس سے ہم یقینا حیرت کی دنیا میں چلے جائیں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ سونے کی دھات کی یہ قدر اس کے استعمال کے بجائے صرف لوگوں کی طے کردہ ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ اگر کوئی بڑی ریاست اپنے ہاں گولڈ کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دے‘ جیسے جیولری کے طور پر اس کا استعمال‘ تو لوگوں کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دھات دیکھنے میں خوبصورت ہے اور دنیا میں بہت کم پائی جاتی ہے‘ اسی وجہ سے یہ مہنگی ہے۔ کم پائی جانے والی اشیا کو Rare Earth Elementsکہا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی بڑا ملک اس کا استعمال بند کردے تو یقینا اس کی قدرو قیمت اُس ملک میں کم ہوجائے گی۔ اگر اس کے استعمال کی بات کریں تو سوائے زیورات کے اس دھات کا کوئی بھی بڑا استعمال نہیں ہے۔ اس دھات کی مضبوطی بھی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ اس سے مختلف اشیا بنائی جا سکیں۔ اسی طرح آپ پیتل اور تانبے کو دیکھ لیں‘ ان دونوں دھاتوں پر لوہے کو اس لیے برتری حاصل ہے کہ لوہا بہت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ حالانکہ پیتل اور تانبا دریافت کے اعتبار سے لوہے سے پرانے ہیں مگر لوہے کا انسانی زندگی اور ترقی میں کردار اتنا زیادہ اور اہم ہے کہ جب سے لوہا دریافت ہوا ہے‘ اس وقت سے لے کر آج تک کے دور کو ''آئرن ایج‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لوہے کے استعمال کی تاریخ تقریباً چھ ہزار سال پرانی ہے۔ اس سے بڑھ کر‘ اٹھارہویں صدی میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بارے میں بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اگر لوہا نہ ہوتا تو یہ انقلاب ادھورا ہی رہ جاتا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ صنعتی انقلاب کا مطلب مشینوں کی ایجاد ہے اور تقریباً تمام مشینیں لوہے سے ہی بنتی ہیں۔ واضح رہے کہ جب آئرن اینڈ سٹیل انڈسٹری کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد لوہے کی چادریں، سریا، لوہے کی تاریں اور دیگر چیزیں ہیں۔ لگ بھگ تمام صنعتوں کی مشینری اور دیگر ڈھانچے لوہے سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اسی لیے آئرن اینڈ سٹیل کو ''صنعتوں کا بیج‘‘ کہا جاتا ہے۔ لوہے کے استعمال کی ایک بڑی وجہ اس کا وافر مقدار میں اور آسانی سے میسر ہونا بھی ہے۔ حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ سونے کی جو انتہائی زیادہ قدر وقیمت انسان نے طے کر رکھی ہے‘ وہ ایک مکمل مصنوعی یا عارضی تصور ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سونے کو اگر انسانی زندگی میں سے نکال دیا جائے تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن آپ لوہے کو انسانی زندگی سے نکال دیں تو دنیا کی معیشت کا پورا نظام مکمل طور پر رک جائے گا۔
حقیقی ذخائر
آئیے اب اس پہلو کی طرف چلتے ہیں کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو انسان کے لیے زیادہ اہم بلکہ لازم کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ زیادہ سوچنے کی بات نہیں۔ ہم ہر لمحہ سانس لیتے ہیں جس کے لیے آکسیجن سے بھرپور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے، ہمیں پینے کے لیے صاف پانی درکار ہوتا ہے۔ مطلب ترقی کا تصور بعد میں آئے گا‘ پہلی فوقیت ان چیزوں کی ہے جن سے انسان نے زندہ رہنا ہے‘ جو اس کی بقا کی ضامن ہیں۔ اس حوالے سے ہوا اور پانی لازمی اور بنیادی ترین اشیا ہیں۔ اب آپ کو تاریخ کے ایک قدیم دور میں لیے چلتے ہیں۔ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے دنیا کی آبادی چند ملین پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اس بات کا تخمینہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سنہ 1 عیسوی میں‘ یعنی آج سے 2022سال پہلے‘ پوری دنیا کی کل آبادی محض 25 سے 30 کروڑ تھی جبکہ آج صرف ایک ملک یعنی پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ یہ اعدادو شمار ملک میں جاری حالیہ مردم شماری کے بعد سامنے آئے ہیں۔ قدیم زمانوں میں وقت کے بادشاہوں یا حکمرانوں کے لیے جاگیروں، زمین اور دیگر قدرتی وسائل کی ہر گز کوئی کمی نہیں تھی، اس وقت ان کی کوشش اور خواہش ہوتی تھی کہ ان کی مملکت کی آبادی یعنی رعایا‘ جن پر وہ حکمرانی کر سکیں‘ کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ یہ وہ دور تھا جب صاف ہوا کا تو شاید کوئی تصور ہی نہیں تھا کیونکہ پوری دنیا کی آب و ہوا صاف اور صحت بخش تھی؛ جبکہ پانی بھی ایک مفت اور فراوانی میں دستیاب چیز متصور ہوتا تھا۔ اگرچہ دریائوں سے دور علاقوں میں پانی نایاب ہوتا تھا‘ یا سفر میں اس کی ضرورت پڑتی تھی مگر زیادہ تر آبادیاں دریائوں کے کنارے ہی آباد ہوتی تھیں۔ انہی میں سے نہریں نکال کر زراعت کے شعبے کو تقویت دی گئی۔ یقینا آپ نے اردوکا وہ محاورہ سنا ہو گا کہ ''پیسہ پانی کی طرح بہانا‘‘۔ اگر کوئی شخص شادی بیاہ یا کسی تقریب پر خوب پیسہ خرچ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے پیسہ پانی کی طرح بہایا، یعنی پانی ایک مفت شے کی طرح ہوا کرتا تھا۔ ہوا اور پانی کے بعد اناج کی باری آتی تھی جو کاشتکاری کے ذریعے حاصل ہوتا تھا۔چونکہ آبادی کم اور زمین زیادہ ہوتی تھی سو‘ اس میں بھی زیادہ دقت پیش نہیں آتی تھی۔ اناج کے ساتھ انسان کی دوسری بڑی ضرورت اور دولت دودھ دینے والے جانور ہوتے تھے۔ سواری کے طور پر کام آنے والے جانور بھی کافی اہم سمجھے جاتے تھے۔ اب اگر آج کے دور کے اہم ترین مسائل کی بات کریں تو جو مسئلہ بلکہ ایک عالمی خدشہ اس وقت دنیا بھر کے ممالک کو لاحق ہے‘ وہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ موسمیاتی تبدیلیاں نہیں بلکہ تباہیاں ہیں۔ ان کی وجہ سے شہروں میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور بسا اوقات سورج واقعتاً آگ برسانے لگتا ہے جسے ''ہیٹ ویو‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سال ہمارے ہاں بھی ان گرم لہروں کے چلنے کا خدشہ زیادہ ہے۔ دنیا بھر کے99فیصد لوگ کسی نہ کسی شکل میں ماحولیاتی آلودگی اور مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے زیادہ ہو جانے اور فی کس انسان کی جانب سے ماحول پر بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے دنیا میں آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب صاف پانی کا مفت میسر آنا تو کجا‘ سانس لینے کے لیے صاف ہوا بھی زیادہ تر ممالک میں نایاب ہو چکی ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی کنکریٹ کی بلڈنگز کی وجہ سے درختوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ لوگوں کو عنقریب مارکیٹ سے پینے کا پانی خریدنے کے علاوہ آکسیجن کے سلنڈرز یا پھر آکسیجن بنانے والی مشینیں بھی خریدنا پڑیں گی۔ یہ بات آج سے دس‘ پندرہ سال پہلے کی جاتی تھی تو لوگ تعجب سے ہنستے تھے لیکن اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ پوری دنیا کے کسی علاقے یا شہر کے موسم کی صورتحال جاننے کیلئے آپ کسی بھی عالمی ویب سائٹ پر چلے جائیں۔ درجہ حرارت، ہوا میں نمی اور بارش کی صورتحال کے علاوہ جو چیز زیادہ نمایاں طور پر دکھائی جارہی ہو گی وہ ہوا کا معیار ہے۔ اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے تمام شہروں کی ہوا کو نقصان دہ یا پھر انتہائی مضرِ صحت قرار دیا جاتا ہے۔ اب ایک امکان یہ ہے کہ مستقبل میں ملکوں کے ذخائر کا ایک معیار صاف پانی اور ہوا قرار پائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں