اگر ادراک ہی نہیں تو بچائو کیسا؟

گزشتہ کالم بھارت کی جارحانہ اور جنگی خارجہ پالیسی پر ختم ہوا تھا۔ اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بھارت کے بانی برہمن خاندان کی چوتھی نسل کے وارث راہول گاندھی کا ایک بیان پیشِ خدمت ہے جو گزشتہ روز (ہفتہ کو) اخبارات میں شائع ہوا۔ راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ چین بھارت کے (متعدد) علاقوں پر قابض ہوچکا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ چین کے زیرِ قبضہ بھارتی علاقے کا حجم بڑھتا چلا جا رہا ہے جبکہ مودی سرکار اب تک اس سے یکسر انکاری ہے۔ اب آپ کو ایک اور بیان کی طرف لیے چلتے ہیں، ایک معروف مقامی صحافی نے بھارت کے دو تھنک ٹینک کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان سے متعلق کہا ہے کہ ملک کی جغرافیائی پوزیشن میں 2030ء تک تبدیلی ہو سکتی ہے۔ راقم کو اس بیان پر حیرانی لاحق ہونے کے بجائے اپنے تواتر اور تکرارسے لکھے گئے کالموں پر یقین بڑھا۔ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑے ملک ہونے اور گورے کے جانے کے بعد بھی اس خطے میں بربادی اور جنگی رحجان جاری رکھنے کا تمام تر ذمہ دارآپ کو بھارت ہی ملے گا۔ اس ملک کا کوئی ایک ہمسایہ بھی اس سے خوش نہیں ہے۔ پاکستان اور چین کو چھوڑیں‘ بھوٹان، نیپال، سری لنکا، مالدیپ اور بنگلہ دیش بھی آپ کو اس شاہی مزاج والے ملک سے ناراض اور اس کی راج شاہی (کلونیل) پالیسیوں کا شکار نظر آئیں گے۔
بھارت کے لوگ‘ جو مذکورہ صاحب کے بقول تھنک ٹینک ہیں‘ صرف اس چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان کا مزید نقصان کس طرح ہو سکتا ہے، لیکن وہ اس حوالے سے اپنی آنکھیں یکسر بند کیے ہوئے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مسلسل کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان پر اس وقت بلاشبہ بہت زیادہ بلکہ ایک جنگی قسم کا دبائو ہے اور اس دبائو کے تین مقا صد ہیں۔ سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا، ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنا اور اسرائیل کو تسلیم کرانا۔ اب یہ مقاصد معاشی دبائو ڈال کر اور بحران در بحران پیدا کر کے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی کرنسی نے حالیہ عرصے میں جس تیز رفتاری سے اپنی قدر کھوئی ہے یہ ہر گز قدرتی نہیں ہے۔ سادہ لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو چین سے دور کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ مشرقی پاکستان کی تخریب کے وقت اُس وقت کی دونوں عالمی طاقتیں‘ سوویت یونین (روس) اور امریکہ اس بات پر متفق تھیں کہ بنگلہ دیش کو وجود میں آنا چاہیے۔ لیکن آج کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ اِس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت (جو کسی بھی وقت پہلی بڑی طاقت ہونے کا اعلان کر سکتی ہے) یعنی چین امریکہ کے مخالف کے طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں کھڑا بلکہ یوں کہنا پڑے گا کہ اس کا اپنا مفاد اس بات میں ہے کہ پاکستان محفوظ اور مضبوط رہے۔ سی پیک کے منصوبے سے پاکستان کے علاوہ ایران، ترکی اور اس کے بعد یورپ کا زمینی راستہ پاکستان ہی سے نکلتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے ذریعے ہی چین مشرقِ وسطیٰ کے ممالک تک اپنا تجارتی راستہ محفوظ بنا سکتا ہے۔ اب اس سارے پُرامن تجارتی سفر کو خراب کرنے کے لیے اس علاقے میں صرف بھارت ہی وہ مہلک اور احمق ملک ہے جو پاکستان کے عناد میں چین کے خلاف بھی تا حال استعمال ہو رہا ہے۔ بھارت کیا سوچ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے‘ اس کو دو نام نہاد تھنک ٹینکوں نے بیان کر دیا ہے۔
اب اگر یہ تھنک ٹینک تھوڑا سا زمینی حقائق پر غور کریں تو پتا چلے گا کہ اپنی جنگی خواہشات کے نتیجے میں وہ خود کہاں کھڑے ہیں۔ باقی سب کچھ چھوڑیں‘ مجھے بھارت کے سابق آرمی چیف‘ جو ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جان سے گئے تھے‘ کے وہ الفاظ دوبارہ یاد آرہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ '' بھارت کی آرمی ڈھائی محاذوں پر نہیں لڑ سکتی‘‘۔ یہ ڈھائی محاذ والی اصطلاح انتہائی دلچسپ ہے۔اس سے انہوں نے دو محاذ تو پاکستان اور چین کو گردانا تھا جبکہ آدھا محاذ انہوں نے اپنے ملک میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو کہا تھا۔ یہ تقریباً پانچ سال پرانی بات ہے۔ اس وقت تک امریکہ کی حالت آج جیسی نہیں تھی بلکہ اُس وقت تک امریکہ دنیا کا واحد اور مکمل سپر پاور ملک تھا۔ امریکہ کا ذکر اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ تاحال بھارت امریکہ ہی کی پراکسی جنگیں لڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے بھارت افغانستان میں بھی امریکہ کے زیرِ سایہ پاکستان کو ایک جنگ میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ یہ سب پانچویں نسل کی جنگ (ففتھ جنریشن وار فیئر)کی طرز پر کیا گیا تھا۔ آج اگر عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو امریکہ کی گرفت تیزی سے عالمی معاملات پر کمزور ہو رہی ہے۔ یورپ کے دو اہم ممالک‘ جرمنی اور فرانس‘ اب امریکہ کے بجائے چین کی زبان بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ فرانس کے صدر نے تو اپنے دورۂ چین کے موقع پر تائیوان کے مسئلے پر بھی چین کے حق میں بیان دے ڈالا تھا۔
بھارت اور 2030ء تک کی عالمی سیاست
اس وقت 2023ء ہے اور بھارت 2030ء سے متعلق پاکستان سے متعلق مذموم منصوبے بنائے ہوئے ہے‘ یعنی وہ ان کے خواب دیکھ رہا ہے مگر اس سات سال کے دورانیے کو اگر بھارت کے اپنے حوالے سے دیکھا جائے تو اس ملک کی سیاست، عسکریت اور سفارتی حالات کو تو ایک طرف رکھ دیں‘ یہ ملک اندرونی خلفشار کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کو بھی ایک ایسی جنگ کی طرف لے جا چکا ہو گا جس کا ذکر تک نہیں کیا جا رہا۔ جی ہاں !یہ ہے ماحولیات کی جنگ! اس وقت جنوبی ایشیا پوری دنیا کا سب سے آلودہ خطہ ہے اور نہایت تیزی سے ماحولیاتی تنزلی کی کھائی میں گر رہا ہے۔ بھارت کی فضا اور ہوا اس حد تک آلودہ ہو چکی ہے کہ جب ہوا بھارت کی جانب سے پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان یا نیپال کی جانب چلتی ہے تو یہ ان ممالک کی ہوا کو بھی خطرناک حد تک آلودہ کر دیتی ہے۔ اس بات کا اندازہ بہتر طور پر یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ کسی عالمی ویب سائٹ پر چلے جائیں تو آپ کو دنیا کے پچاس آلودہ ترین شہروں میں سے پینتیس سے چالیس بھارت کے شہر ملیں گے۔ یاد رہے کہ سموگ نامی آلودہ اور زہریلی ہوائی آلودگی کا بانی اور پہلا ذریعہ بھی بھارت ہی ہے۔ اس وقت بھارت اپنے جنگی اور جارحانہ مشن میں اس قدر مگن ہے کہ 2021ء میں ہونے والی مردم شماری کے انعقاد کا کوئی بھی امکان نظر نہیں آ رہا۔ یہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ بھارت اس سال آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس کی آبادی میں سالانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بلا شبہ ایک انتہائی خطرناک تعداد ہے۔ اسی طرح بھارت کی شمال مشرقی سرحد‘ ارونا چل پردیش میں چین نے باقاعدہ بستیاں آباد کر لی ہیں۔ اس ریاست سے متعلق چین کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کی ریاست ہے اور اس کے علاقے تبت کا حصہ ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس ریاست پر چین نے 1962ء کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا لیکن بعد میں یہ علاقہ بھارت کو واپس کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھوٹان سے ملحقہ علاقے چین نے بھوٹان کی رضامندی سے اپنے اندر ضم کر لیے ہیں اور بھوٹان کا سیاسی و سفارتی رخ اب مکمل طور چین کی طرف ہو چکا ہے۔ اسی قسم کی صورتحال کئی سالوں سے نیپال کی ہے۔ اسی سرحد پر آگے آئیں تو مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں بھی چین کی فوج مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے اپنے تئیں جی 20 کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں کروا کر ایک سفارتی برتری حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ کانفرنس بھی چین، سعودی عرب اور ترکیہ جیسے بڑے ممالک کی عدم شرکت سے بری طرح ناکام ہو گئی۔ سادہ لفظوں میں ان ممالک نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کی نفی کردی ہے۔ اب بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ وہ پاکستان اور چین مخالف سرگرمیوں کی تپش کو برقرار رکھنا چاہ رہا ہے، بھلے اس دوران اس کے اپنے ملک کے اندر مسائل الائو بن کر دھکتے رہیں۔ باقی باتیں تو ایک طرف‘ آنے والے برسوں میں اس علاقے کے لوگوں کی نقل مکانی کی ایک بڑی وجہ صاف پانی کی کمیابی اور فضائی آلودگی ہو گی‘ جو ہر لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ بھارت اب مسائل پر سوچتا ہی نہیں تو انہیں سمجھے گا کیسے اور کب؟ یعنی اگر ادراک ہی نہیں تو بچائو کیسا؟مذکورہ تناظر میں یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ سات برس بعد خود بھارت کہاں کھڑا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں